English   /   Kannada   /   Nawayathi

جان سی آگئی جب دوش پہ سر دیکھ لیا

share with us

مگرپٹھان کوٹ ہوائی مستقر پر حملہ روکا نہیں جاسکا۔ دوسری طرف جب کچھ نہیں ہوناہوتا تب بھی احتیاطی تدابیر کا شور مچاکر عوام میں فکرمیں مبتلا کردیاجاتا ہے۔ ہولی ، دیوالی ، عید بقرعید ہو یا کوئی قومی تہوار، جیسے یوم آزادی یا یوم جمہوریہ، ہمیشہ ایک دھڑکا سالگا رہتا ہے۔ دوسرے دن جب یہ خیر سے دن گزرنے کی خبرآجاتی ہے تو سکون ہوتا ہے اوربے ساختہ حفیظ ؔ میرٹھی کا یہ شعر یادآجاتا ہے:
اتنا ہی جانئے اس دور میں مفہومِ سکوں
جان سی آگئی جب دوش پہ سر دیکھ لیا
غورکرنے کی بات یہ ہے کہ ایک خودمختارجمہوری ملک میں ایسا ماحول کیونکر بن گیا ؟ خیرسگالی اور ہم آہنگی کا وہ دورکہاں چلاگیا جب عید ،بقرعید، ہولی ، دیوالی میں یا اپنے اورکیا غیر، سب کے گھروں میں خوشی کا ماحول ہوتا تھا۔محرم کے جلوس میں غیرمسلم بھائی بھی ساتھ ہوتے تھے،سبیلیں لگاتے تھے۔ تعزیہ سازی میں بھی لگ جاتے تھے۔ مساجد کے باہرگود میں بچہ لئے غیرمسلم خواتین نظرآتی تھیں کہ نمازیوں سے جھڑوانا ہے۔ اسی طرح دشہرہ کے موقع پر بازار لگتے، رام لیلا کا ناٹک ہوتا تو مسلمان عورتیں بچے بھی بن ٹھن کر بلاخوف وخطر دیکھنے چلے جاتے تھے۔ اب ڈرلگتا ہے کہ کہیں کسی سے کوئی سائکل ٹکرا گئی، کسی کے پلو سے کسی کا ہاتھ چھو گیا توافواہ پھیلے گی اور فرقہ ورانہ فساد ہوجائیگا۔ مندروں میں آرتی ہوتی تھی،ناقوس کی صدا گونجتی ،لیکن اذان کی آواز کے ساتھ وقفہ ہوجاتا تھا۔ اب مکرسنکرانتی کا جلوس نکلتا ہے تو فتح پورکا جہاں آباد میدان جنگ بن جاتا ہے۔ مذہبی جلوس میں تلواریں اورڈنڈے نکالے جاتے ہیں اوردین دھرم کا پیغام امن ، سدبھاؤ اورشانتی یاد نہیں آتا۔ سمائی ، دوسروں کی بھلائی اور بھائی بندی کا ماحول ختم ہوتا جاتا ہے۔دھرم کا بوجھ ڈھونے والوں کے تیور بدلے بدلے سے نظرآتے ہیں۔ ہردم دھونس ،دھمکی اور قتل و غارت کا ارادہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ آخر یہ ملک جس میں صدیوں سے سب مل جل کررہتے تھے، کس طرف جارہا ہے؟ اس کو کون کہاں لیجارہا ہے کہ ہردن کسی نئے آتش فشاں کا اندیشہ سراٹھائے پھرتا ہے؟ہمارے وزیرداخلہ نے اعتراف کیا ہے کہ اقلیتوں میں اعتماد کی فضا مفقود ہے۔ سرکار پر بھروسہ نہیں۔ اس بے اعتمادی کا ازالہ کیسے ہوگا جب تک منھ پھٹ اورگالی گلوچ کرنے والوں کو بڑے بڑے عہدوں اورانعامات سے نوازا جاتا رہیگا؟
گاندھی جی بھی زد پر 
اس صورتحال کے شکار صرف ہم ہی نہیں ۔ سبھی کمزور طبقے ہیں۔لیکن غورکرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ زہر بس ایک ہی ذہنیت کا پھیلا ہوا ہے۔ شکار کئی ہیں مگرشکاری ہرمعاملہ میں ایک ہی ہے۔ کہیں عیسائی اس کے نشانے پرہیں تو کہیں دلت اور کہیں خواتین۔ یہاں تک کہ گاندھی جی کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے۔ حالانکہ اگر بنظرغائر مطالعہ کیا جائے تو ہزارہاسال کی ہندستان کی تاریخ میں ایسا زیرک، قوم کا ایسا مخلص ومحسن کوئی دوسراہندونہیں ملے گا۔گزشتہ سا ل ہندومہاسبھا نے میرٹھ میں گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کا مندرقائم کرنا چاہا تھا۔ اس سال 30دسمبرکو جب دن کے 11بجے ملک بھر میں دومنٹ کی خاموشی اختیارکرکے گاندھی جی کو شردھانجلی دی جارہی تھی، اسی ہندومہاسبھا کے لیڈروں نے ڈھول تاشوں کے ساتھ جشن مسرت منایا ، ناچے گائے اورمٹھائی تقسیم کی۔
کہا جاتا ہے کہ گاندھی جی کواس لئے قتل کیا گیا کہ تقسیم کے بعد حکومت ہندسرکاری خزانے میں سے پاکستان کو اس کامقررہ حصہ دینے میں آنا کانی کر رہی تھی ۔گاندھی جی بجا طو پر فوری ادائیگی کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے۔ دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انتقال آبادی کے دوران جوناحق خون خرابہ برپا ہوگیا تھا ،وہ اس سے بھی نالاں تھے۔گاندھی جی بیشک تشدد کے مخالف تھے۔گاندھی کے قاتل حق کی ادائیگی کے خلاف اورناحق کے خون خرابہ کے حق میں تھے۔ ان کو گاندھی پر فضیلت کیسے حاصل ہوگئی؟ گاندھی جی کی تقصیر صرف یہ تھی کہ ملک کی تقسیم ان کی منظوری سے ہی ہوئی تھی جس کے نتیجہ میں تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ اور ہندوآبادی مجتمع اورمسلم آبادی منتشر ہوگئی تھی۔ 
گاندھی جی سے اتنی نفرت جو ان کے قتل پر آمادہ کردے، اس کا سبب ان اسباب سے کہیں گہرا تھا۔ گاندھی جی ایس سی؍ ایس ٹی کو ہندوسماج سے جوڑے رکھنے کے لئے جو تاریخی کرداراداکررہے تھے ،اس کی زد اس نظام پر بھی پڑرہی تھی جس کو مذہبی تقدس حاصل ہے۔ دلتوں کے ساتھ برابری کا تصورگھوردھارمک ذہنیت کے لئے تب بھی عار تھا اوراب بھی ہے۔ گوڈسے کوجوجنون گجرات سے دہلی لے آیا تھا کیا اس میں کوئی عنصراس اندھی دھارمکتا کا نہیں تھاجو دلتوں کو اچھوت ہی سمجھتی ہے؟ 
گاندھی جی کے اس رول بھی سمجھئے۔ ڈاکٹر بی آرامبیڈکر اس حق میں تھے کہ میکڈونالڈ اوارڈ کے مطابق ہریجنوں کے انتخابی حلقے الگ ہوں۔ اس کے تحت قانون سازاداروں کے لئے ہریجن نمائندوں کا انتخاب ہریجن رائے دہندگان ہی کرتے۔ اگر یہ نظام نافذہوجاتا تو ہریجن قیادت دیگرلیڈروں کے دباؤ اوران کی سیاسی غنڈہ گردی سے آزاد ہوجاتی۔ گاندھی جی نے اس وقت یروودا جیل میں تھے۔ انہوں نے اس کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کردی۔ ڈاکٹرامبیدکر پر سخت دباؤ ڈالا گیا جس کے نتیجہ میں سنہ1932 کا مشہور پونا معاہدہ ہوا۔ ہریجنوں کو رزویشن تو ملا مگردوسرے طریقے سے۔ اب ایس سی، ایس ٹی کے محفوظ حلقوں میں اعلا ذات کے ہندوؤں کی قیادت گہناگئی اوران کو بھی ہریجن لیڈروں کے در پر حاضری دینی پڑگئی۔پڑھ لکھ کر ہریجن سرکاری اسامیوں میں شریک بن گئے ہیں۔حالانکہ سرکاری اسامیوں پر صدیوں سے برہمنوں اوردیگراعلا ذات کی اجارہ داری تھی۔(ان کی یہ اجارہ داری نو سو سالہ مسلم حکمرانی میں بھی بدستوررہی )۔ اس کے برخلاف ہندومہاسبھا اور آرایس ایس چاہتے تھے (آج بھی چاہتے ہیں کہ) وہی سماجی نظام برپارہے جو صدیوں سے چلا آتا ہے۔
سنہ1948میں اس ذہنیت کا نشانہ گاندھی جی بنے اورسنہ 2016میں للتھ ومولا اس کی ایک علامت بن گئے ہیں۔ قانون سخت ضرور بنے ، مگرمزاجوں کی سختی کم نہیں ہوئی۔ اس ہندومہاسبھا اورسنگھ سے وابستہ ذہنوں میں دلتوں کے خلاف حقارت اورنفرت کا ماحول بدستور برقرار ہے جس کا اظہار حیدرآباد میں روہتھ ومولا کی خودکشی کے بعد بھاجپا لیڈروں کی نفرت انگیز اورگمراہ کن بیانات سے ہوتا ہے۔ تعلیم کے اعلا اداروں میں بھگواذہنیت کو پروان چڑھا یا جارہا ہے۔ ہرتعلیمی ادارے میں ایسی تنظیمیں کام کررہی ہیں جو دیگراقوام کے طلباء کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ ایک جمہوری نظام میں اپنی رائے کے اظہار کے ان کے حق کو محدود کرنا چاہتی ہیں۔ حیدرآباد یونیوسٹی کے جن ہریجن طلباء کے خلاف مودی سرکار کے وزیروں کے دباؤ میں تادیبی کاروائی ہوئی ان کا اورکیا قصورتھا؟ مودی جی نے بیشک لکھنؤ میں بڑے ہی ڈرامائی انداز میں للتھ ومولا کی موت پررنج جتایا۔ اسمرتی ایرانی کی وزارت کے مراسلات میں جو’ ملک دشمن ‘ٹھہرایا گیا تھا وہ مودی جی کی زبان پر ’’ملک کا بیٹا ‘‘بن گیا۔ ا سمرتی ایرانی اورپارٹی کے دوسرے لیڈروں کو تواس کی ماں کے درد نے کسی کرب میں مبتلا نہیں کیا، البتہ مودی جی کو اس کا درد بھی یاد آیا۔ ہم سمجھے تھے کہ مودی جی کے اس اظہارہمدردی کے بعد دیگرلیڈروں کا لب ولہجہ بھی بدلے گا، مگر اب اس کے دلت ہونے سے ہی انکار کیا جارہا ہے۔ دلتوں سے دلوں میں بسی ہوئی کدورت اتنی آسانی سے کہا ں جاتی ہے؟ بیشک : 
اتنی آسانی سے قابو میں کہاں آتی ہے آگ
جب بھڑکتی ہے تو بھڑکے ہی چلی جاتی ہے آگ
اب پونا میں محمدعثمان کے قتل کا اوردادری میں اخلاق کی ہلاکت کا شکوہ کیا کریں؟ جو اپنے ہی ہم مذہب کمزورطبقے کے خلاف سنگدلی سے نہیں چوکتے، ان سے خیر کی کیا امید رکھیں؟ للتھ ومولا توایک علامت بن گیا، جس طرح عصمت دری کی ماری دہلی کی لڑکی نربھیا ایک علامت بن گئی تھی۔ ورنہ ملک بھرمیں روز اقلیتوں، دلتوں اورعورتوں پر ظلم ہوتا ہے۔ بہت سے واقعات توایسے ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی ذکر بھی نہیں آتا۔ابھی ایک ویڈیو منظرعام پرآیا ہے۔ دہلی میں دلت طلباء نے آرایس ایس کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔ جن پرپولیس نے ڈنڈے برسائے۔ ان کے ساتھ سادہ لباس میں بھی لوگ تھے۔ اسی طرح ممبئی کے دھراوی میں آرایس ایس کے کارکنوں نے مظاہرین پر لاٹھیاں چلائیں۔اس طرح کی ظلم کرنے والوں کو یکساں سول کوڈ کا غم تو ستاتا ہے۔ کہتے ہیں مسلم عورتوں کوآزادی نہیں مل رہی۔ خود یہ حال ہے ہندوعورتوں پر مندروں میں پوجا پاٹھ کے سوال پر بحث چھڑی ہوئی ہے ۔ان کے لئے کوئی یکساں کوڈ نہیں۔ زبانیں گنگ ہیں کہ آخر عورتوں کو اتنا حقیر کب تک سمجھاجاتا رہے گا؟
تازہ گرفتاریاں
ادھرچندروز میں دہلی پولیس اوراین آئی اے نے ملک کے مختلف حصوں سے کم از کم 16مسلم نوجوانوں کوگرفتارکیا ہے۔اطلاع کے مطابق یہ گرفتاریاں ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کی فیس بک ، ٹوئٹر، انٹرنیٹ اوروہاٹس ایپ وغیرہ پر سرگرمیوں اوردلچسپیوں کی نگرانی کے نتیجہ میں یا گرفتارشدگان سے پوچھ تاچھ کے نتیجہ میں ہوئی ہیں۔ 
ہندستان میں مسلم آبادی 180ملین (18کروڑ) سے زیادہ ہے۔ ان میں اگر دس پندرہ لڑکے آئی ایس کی طرف راغب ہوبھی گئے ہوں توکوئی تعجب کی بات نہیں۔جن طاقتوں نے آئی ایس کو جنم دیا ہے، وہ بھرتی کے لئے نوجوانوں کو ورغلانا بھی جانتے ہیں۔سوشل میڈیا پر یہ مفت کی سہولتیں بلاوجہ نہیں ہیں۔لیکن رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیارابطوں کے علاوہ عملا ان لڑکوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ ان کی تحویل سے دہشت گردی کے لوازمات میں سے بھی کچھ برآمد نہیں ہوا۔ بیشک حکومت کوان کی اصلاح کی فکرہونی چاہئے ۔ ابتدامیں ایسے نشانزد نوجوانوں کی کونسلنگ کی تدبیراختیار کی گئی تھی۔اب جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔ یہ تدبیر ویلفئر سوسائٹی میں انصاف کے تصور سے میل نہیں کھاتی۔ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں نوجوانوں کے مستقبل کو تباہ نہ کرے ۔ ان کو جیلوں میں نہ ڈالے ۔بلکہ کونسلنگ کا معقول بندوبست کرے۔ دوسر ی طرف زیا ان ہندوسنگٹھنوں کی بھی خیر خبر لے جو نوجوانوں کے اسلحہ چلانے کی ٹریننگ بھی دے رہے ہیں معصوم بچوں کے ذہنوں میں اقلیت کے خلاف زیرگھول رہے ہیں۔اس کی ویڈیوسوشل میڈیا بھی آئی ہے، اخباروں اور ٹی وی پر بھی کچھ خبریں آئی ہیں۔
انعامداراسکول کاسانحہ
پونا کے عابدہ انعامدار کالج کی دس طالبات اورتین طالب علم سمندر کی لہروں میں بہہ کر فوت گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کالج کے 112طلباء اورطالبات پکنک منانے رائے گڑھ کی مُرُد بیچ پر گئے تھے۔لنچ کے بعد کچھ بچے سمندرکے کنارے پانی میں جاکر تفریح کرنے لگے کہ ایک اونچی لہراٹھی اوران کو بہا لے گئی۔ ان میں سے کچھ بچوں کوبچالیا گیا۔ایک نوجوان جو ان کو بچانے سمندر میں کوداتھا، دولڑکیوں کو توبچالایا مگر خود نہ بچ سکا۔ 
چند سال قبل ایسا ہی ایک واقعہ ممبئی کی جوہو بیچ پر پیش آیا تھا جب ساحل سے کچھ دور پھنسے ہوئے ایک جہاز کو قریب سے دیکھنے کے اشتیاق کچھ لوگ سمندر میں اندرچلے گئے۔اس وقت پانی کم تھا۔ مگر ناگہانی اونچی لہر آئی اوراس میں بہہ گئے۔ ہم پونا کے متوفی طلباء اورطالبات کے پسماندگان کو تعزیت پیش کرتے ہیں لیکن اپنے نوجوانوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ اگرتیرنے کی اچھی مشق نہیں تو پانی میں اترناجان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ سیروتفریح اپنی جگہ مگراپنی زندگی کی حفاظت اول مقام رکھتی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا