English   /   Kannada   /   Nawayathi

سائبر جرائم کاپھیلتا دائرہ

share with us

رپورٹ کے مطابق اب اس طرح کے حملے اربوں ڈالر کی صنعت بن چکے ہیں۔اس میں آن لائن ڈسکشن بورڈز کا ذکر کیا گیا ہے ۔جن میں ممبران ایسی معلومات خریدتے اور بیچتے ہیں جس سے دوسرے کی شناخت کی چوری(Identity Theft) ممکن ہو سکتی ہے۔
اس طرح کی ایک سائٹ پر کچھ لوگ سو ملین ای میل پتوں سے لے کر بینک لاگ انز اور کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات فروخت کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ایسی کٹس بھی دستیاب ہیں جنہیں خریدنے والا بینکوں کی جعلی سائٹس بنا سکتا ہے تاکہ گاہکوں کو پھنسایا جا سکے۔انٹرنیٹ جرائم کی روک تھام کے لیے اب تمام ممالک نے کوششیں تیز کردی ہیں۔ سرکاری سطح پر بھی اس سلسلے میں کچھ قابلِ اعتماد قدم اٹھائے ہیں جن میں باقاعدہ سائبر کرائم سے متعلق قانون سازی بھی شامل ہے۔ انٹرنیٹ جرائم کا نشانہ بننے سے پہلے احتیاطی تدابیر اختیار کریں بلکہ اپنے کسی دوست یا عزیز کو بھی اس قسم کے جرائم میں ملوث ہونے کی صورت میں باز رکھنے کی تلقین کریں۔ یہ جرائم چھوٹی موٹی شرارتوں سے شروع ہوکر بڑے جرائم کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ایف آئی اے حکام کے مطابق ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جہاں صارف نے پٹرول ڈلوانے کے لیے پٹرول پمپ کے عملے کو اپنا کریڈٹ کارڈ دیا تو اسکِمر مشین کے ذریعے کارڈ کا کوڈ (ٹریک ون،ٹو) چوری کر لیا گیا اور بعد میں عملے نے رقم کے عوض یہ کوڈ ہیکرز کے حوالے کر دیا۔یہ مسائل ٹکنالوجی کے پھیلاؤ کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس سے تحفظ کیسے ہو سکے۔ پہلے مرحلے کے تحت جرائم پیشہ افراد کسی بینک کے کمپیوٹر نیٹ ورک تک رسائی حاصل کر کے اس کا ڈیٹا چوری کرتے ہیں اور ان معلومات کو اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کرنے کے بعد سادہ کارڈ یعنی وائٹ کارڈز پر کوڈنگ کر کے جعلی کریڈٹ کارڈز تیار کر لیتے ہیں اس سے ایف آئی اے حکام کے مطابق عام آدمی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے۔ اس کا ذمہ دار بینک ہوتا ہے اور بینک آپ کی لوٹی رقم کی ادائیگی کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ دوسری صورت جس میں لوگ اپنا کارڈ دکانوں یا پیٹرول پمپوں پر رقم کی ادائیگی کیلئے دیتے ہیں اس میں فراڈ سے بچنے کا یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ جب آپ دوکان یا پیٹرول پمپ پر کارڈ دیتے ہیں تو اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل مت ہونے دیں۔ سیلز مین پر نظر رکھیں یعنی اس کارڈ کے ذریعے رقم کی ادائیگی اپنے سامنے کروائیں۔ جعلی کریڈٹ کارڈ فراڈ قریباً پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔برطانیہ،ا سپین، روس ،ملیشیا اور دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بھی اس طرح کے معاملے سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ان ممالک کے پاس جدید سہولتیں موجود ہونے کی بنا پر وہاں کرائم ریٹ کم ہے۔لیکن ہمارے پاس ایسی سہولتوں کا فقدان ہے جس کی وجہ سے یہاں انٹر نیٹ جرائم پر مؤثر طریقے سے قابو پایا جاسکے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا