English   /   Kannada   /   Nawayathi

بے حسی اور لاپرواہی کی بھی ایک حد ہو تی ہے

share with us

ایسا لگتا ہے کہ سب سے پہلے ان مسجدوں کے ذمہ داروں اور مذہبی حضرات کے احساس کو جگا نا ہے اور اگر پوری قوم کو سدھارنا ہے تو سب سے پہلے ان حضرات کی نیند اور بے حسی کو دور کر نا ہے . آئیے اب غور کریں کہ ایسی حالت کیوں ہے . یہ سچ ہے کہ مسجد مسلمانوں کے لئے ایک مرکز ہے مگر سوچنا یہ ہے کہ کیا وہ مرکز اپنا کردار نبھا رہا ہے ، کیا اس مرکز کے ذمہ داروں میں ملی ذمہ داری کا احساس ہے ؟ تجزیہ بتا تا ہے کہ 90 فیصد مساجد کے ذمہ دار صرف مسجد کی دیکھ بھال ہی کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں . اسکے آگے اسکے اطراف و اکناف رہنے والوں کی دیکھ بھال کو وہ اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے . اب سے چالیس سال پہلے مسجد کے صدر سکریٹری اور اراکین ان پڑھ اور نیم تعلیم یافتہ حضرات اور رعب دار قسم کے لوگ ہوتے تھے . تھے تو رعب دار اور جاہل مگر انکے دل میں اللہ کا ڈر اور دوسروں کی عزت کا خیال ہو تا تھا . بد نظم تو تھے مگر عزت دار اور غیرت مند تھے . اللہ اور رسولؐ کا نام لیکر اور مذہبی شکل و صورت بنا کر اپنی ممبر شپ کا غلط استعمال نہیں کر تے تھے . مسجدوں اور دینی اداروں کو ٹرسٹ بنا کر مرنے تک ان سے چمٹے نہیں رہتے تھے . پھر بھی انہیں ان پڑھ اور جاہل سمجھ کر ہم انہیں ہٹانے کی کوشش کر تے تھے مگر ان میں کچھ ایسے ہو تے تھے جو مر کر ہی ہٹتے تھے . خیر انکے ہٹنے کے بعد ایک ایسا دور آیا جب اعلی تعلیم یافتہ ، مذہبی شکل و صورت اور بات بات میں دین و ایمان کی بات کر نے والے آ گئے . امید بنی کہ اب یہ حضرات جمہوری طرز پر ایمانداری کے ساتھ کام کریں گے اور دینی اداروں کی دیکھ بھال کے ساتھ اطراف و اکناف رہنے والے لوگوں کی دیکھ بھال اور ذہین سازی بھی کریں گے . مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ حضرات ان ان پڑھ اور جاہل لوگوں سے بھی کم درجے کے نکلے . اب قارئین سمجھ جائیں کہ وہ اصل میں کیا ہیں . کچھ لوگ اپنے مشاہدے اور تجربات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اگر انہیں کی مسجدوں اور اداروں کے قریب ملت مسلمہ کو مشکلوں سے بچانے اور انکی ذہین سازی کرنے کے لئے کوئی عوامی پروگرام کر تے ہیں اور مسجدوں میں اعلان کے ساتھ پیمفلیٹ بھی تقسیم کر تے ہیں . پھر جب سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے ساتھ مسلم مسائل پر بحث مباحثہ کا پروگرام کر تے ہیں تب سب سے پہلے مساجد کے ذمہ دار اور مذہبی حضرات غیر حاضر رہتے ہیں . بہانہ یہ دیتے ہیں کہ پروگرام کے منتظمین نے انہیں خصوصی دعوت نامہ نہیں دیا جیسے کہ وہ پروگرام منتظمین کا ذاتی اور فیمیلی پروگرام ہے . بھول جاتے ہیں کہ انکے علاقے میں جب گڑ بڑ اور فساد ہو تا ہے تو یہ خود بھی اسکی لپیٹ میں آ جا تے ہیں . کیا یہ حضرات اس وقت جاگیں گے جب فردا " فردا وہ اور انکی فیمیلی اس گڑ بڑ اور فساد کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں . غیر ضروری گانے بجانے اور چیخ و پکار اور احتجاج کے محفلوں میں یہ حضرات بغیر دعوت ناموں کے شرکت کر جا تے ہیں جبکہ دلت مسلم اتحاد ، الیکشنوں میں متحد ہو کر ووٹ دینے کے جلسے ، فسادات روکنے کی کوششوں کے جلسے اور سیاستدانوں سے بحث مباحثے کے جلسے جب منعقد کئے جا تے ہیں تو یہ دینی اداروں کے اکثر ذمہ دار اور عام مسلمان غائب رہتے ہیں . اسٹیج اور منبر پر پرجوش باتیں تو ہو تی ہیں مگر اپنا وقت اور روپیہ مشکل سے دیتے ہیں . کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے زیادہ تر مذہبی حضرات جنت اور دوزق میں اس قدر الجھے ہوے ہیں کہ وہ ملت کے فلاحی اور اقتصادی معاملات سے بلکل لا پرواہ ہیں اور ایسے کسی بھی جلسے میں شامل نہیں ہو تے جب تک کہ انہیں اسٹیج کی رونق بننے کا یقین نہ ہو . یہ ان ذمہ داروں اور مذہبی حضرات کی بے حسی اور لاپرواہی نہیں تو اور کیا ہے . ایسا رویہ ملت مسلمہ کے لئے مجموعی طور پر کتنا نقصان دہ ہے یہ بات سمجھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے . دوسروں میں شعور پیدا کر نے کے لئے خود کا با شعور ہو نا ضروری ہے اور یہ کا م بہت کم امام حضرات کر سکتے ہیں . اس لئے کوشش یہ ہو نی چاہیے کہ ہر مسجد میں مہینے کا ایک جمعہ کا بیان یا خطبہ کوئی ماہر دانشور معاشیات ، سیاسی بیداری ، تعلیم اوقاف اور دیگر موضوعات پر دے اور عوام کی ذہین سازی کرے .ملت کی بھلائی اور حفاظت کے پروگراموں میں مساجد کے ذمہ دار اور عمائیدن کو آپ سے آپ جڑ جانا چاہیے. 17.1.2016شہر بنگلور میں "ویزن کرناٹکا"ادارے نے ایک جنتا عدالت پروگرام کیا جس میں بی جے پی کے جئے نگر اسمبلی کے یم یل یے مسٹر وجئے کمار ( جو آر یس یس کے تھنکر ہیں ) اور اس علاقے کے کارپوریٹرس کے ساتھ اس علاقے کے بلدیاتی مسائل پر اور آر یس یس اور بی جے پی کی آئڈیالوجی پر کھل کر سوالات کئے گئے اور ایک ایسی فضا بنائی گئی کہ ہم سب ایک ہی میز کے اطراف بیٹھ کر بحث مباحثہ کر سکیں . مسٹر وجئے کمار نے نہایت ہی سکون کے ساتھ جوابات دیے . ایک سوال یہ تھا کہ ہر نئی سیاسی پارٹی زیادہ سے زیادہ ووٹروں کو اپنی طرف راغب کر نے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کر تی ہے . کبھی انکے ساتھ پہلے زمانے میں ہوی خیالی با انصافیوں کا ذکر کرتے ہیں ، کبھی فرصی استحصال کی باتیں کر تے ہیں اور کبھی ماضی کے خیالی خون خرابے کا ذکر کر تے ہیں اور انہیں ورغلا کر اپنے حمایتی بنا لیتے ہیں . بی جے پی نے بھی کچھ ایسے ہی حربے استعمال کر کے آج برسر اقتدار آ چکی ہے . تو کیا اب اسے ایسے حربے استعمال کرنا بند کر دینا نہیں چاہیے . دوسرا سوال یہ تھا کہ جس طرح برطانیہ اور امریکہ میں دو پارٹیاں صرف ڈیولپمینٹ اور امن و امان اور کرپشن پر روک کے مدے پر الیکشن لڑتے ہیں ویسے ہی کانگریس اور بی جے پی فرقہ واریت اور ذات پات کے مدے کو چھوڑ کر الیکشن لڑنا کیوں نہیں شروع کر دیتے . ایک سوال یہ تھا کہ ہم اس ملک کے بیس کڑوڑ مسلمانوں کو آر یس یس اور بی جے پی کے اعتماد میں آنے کے لئے آپکے خیال میں ہمیں کیا کر نا ہے . ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا یہ عقلمندی نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کو نشانا بنا نا اور کیچڑ اچھالنا بند کر دیں اور جو شرارتی افراد ہیں انہیں فرقہ وارانہ تشدد ، دشمنی اور اور نفرت کی باتیں کر نے سے روکیں تاکہ ہماری تمام طاقت اور صلاحیتیں ملک کو ایک عظیم ہندستان بنانے اور ملک میں اتحاد اور امن و امان قائم کر نے میں صرف کریں . آپ جو چند شرارتی لوگوں کو شر انگیز اور غیر ضروری مسائل اٹھانے اور ملک کی سالمیت کو توڑنے کی باتوں پر خاموشی اختیار کئے ہوے ہیں کیا وہ ایک گہری حکمت عملی ہہے یا سچ مچ کی لاچاری ؟ یہ بھی پوچھا گیا کہ انکی پارٹی جو کانگریس اور دیگر پارٹیوں پر مسلمانوں کی خوش آمدی کر نے کا الزام لگا تے ہیں کیا وہ مسلمانوں کی گری ہوی حالت ( سچر کمیٹی رپورٹ ) کے باوجود اسے سچ سمجھتے ہیں ؟ اگر ہماری خوشامدی ہوتی تو ہم ہر میدان میں دوسروں سے پیچھے کیوں رہتے ؟ ایسے ہی کچھ اور سخت سوالات کئے گئے . مسٹر وجئے کمار نے نہایت ہی متانت اور سکون کے ساتھ کھل کر جوابات دیے اور کچھ شرارتی لوگوں کے عمل کو بھی غلط قرار دیا . آپ نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے جو آپ حضرات ہمارے ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کھلے دل سے اور بلا جھجک سوالات کر رہے ہیں اور بحث مباحثہ کر رہے ہیں . اگر یہ عمل اسی طرح جاری رہا اور ہم سب بات چیت کر تے رہے تو کئی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی اور دوستی اور امن کے راستے کھل جائیں گے . انہوں نے شہر بنگلور سے اس پہلے قدم کو کافی سراہا اور امید ظاہر کی کہ ہم ایسے ہی پروگرام دیگر بڑے لیڈروں سے بھی کریں . آپ نے کہا کہ یہ یہ وزن کرناٹک نہیں بلکہ ویزن انڈیا ہو نا چاہیے اور اسے ایسے ہی آگے لے کر چلنا چاہیے . آپ نے کہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ ایسے پروگراموں کے لئے آر یس یس اور بی جے پی کے بڑے لیڈروں کو مدعو کریں اور بات چیت کا معوقہ دیں . جناب روشن بیگ صاحب جو کرناٹک کے سینیر منسٹر ہیں اور جنکی سرپرستی ویزن کرناٹکا کو حاصل ہے انہوں نے بھی اس پروگرام کی تعریف کی اور کہا کہ ایسے پروگرام آئیندہ بھی ہو تے رہنا چاہیے . ویزن کر ناٹکا جس کے کنوینر جناب سید تحسین احمد صاحب ( ریٹائرڈ کے یے یس افسر ) ہیں اور انکے دیگر ساتھیوں نے طئے کیا ہے کہ وہ آئیندہ اس طرح کے جنتا عدالت پروگرام تمام پارٹیوں کے سیاستدانوں کے ساتھ بھی کریں گے . یہ پروگرام ایک مسلم اکثریت والے علاقے میں کیا گیا تھا جنکے بے شمار بلدیاتی مسائل ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی ایسے علاقوں کے زیادہ تر مساجد کے ذمہ دار اور عوام اعلانات کے باوجود غیر حاضر رہیتے ہیں جبکہ دوسرے علاقوں کے زیادہ لوگ حاضر رہتے ہیں . ایسے چند حضرات نہ تو آتے ہیں ، نہ مسائل بتا تے ہیں اور نہ ہی ساتھ دیتے ہیں مگر لوہا ٹھنڈا ہو جا نے کے بعد ہزاروں ہتھوڑے چلا تے ہیں جنکا کوئی اثر نہیں ہو تا . کچھ لوگ علم تو رکھتے ہیں ، تقریریں بھی کر تے ہیں مگر ملت کو کامیابی کی راہ پر ڈالنے کے لئے نہ تو انکے پاس وقت ہو تا ہے اور نہ ہی فکر اور اخلاص . بس باتیں ہی باتیں ہیں . میں مذہبی حضرات اور عمائیدین سے گزارش کر تا ہوں کہ وہ جس طرح مذہبی مسائل اور احتجاجات میں حصہ لیتے ہیں ویسے ہی دیگر فلاحی اور سیاسی پروگراموں میں بھی حصہ لیں ورنہ بگڑتے حالات کے وہی سب سے پہلے شکار ہو جائیں گے جیسے کہ چند مذہبی حضرات شکار ہوے ہیں . اگر یہ حضرات لاپرواہی برتیں گے تو اس وقت دوسرے بھی انکا ساتھ نہیں دین گے جب ان پر مصیبت پڑے گی . ایک ایسے وقت جب قوم مسلم نزع کی حالت کے دور سے گزر رہی ہے ہر مسلمان کو جاگتے رہنا ہے اور ہر مسلہ پر غور و فکر کرتے رہنا اور ایک جٹ ہو کر کام کر نا ہے .

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا