English   /   Kannada   /   Nawayathi

یو پی میں قتل عام کی تیاریاں

share with us

مظفر نگر سے دادری تک جو واقعات ہوئے ان میں بی جے پی اور سماجوادی پارٹی کی ملی بھگت سے نفرت کا کاروبار گرم کر کے سیاسی روٹیاں سینکی گئیں . بی جے پی اور سماجوادی دونوں ہی کی نظریں اگلے ریاستی انتخابات پر ہیں ، اس کے علاوہ مرکز میں اپنی بد ترین کارکردگی درج کرواتی ہوئی مودی سرکار کے سامنے اگلے لوک سبھا انتخابات کا معاملہ بھی ہے جو پچھلی بار کی طرح ایک بار پھر جھوٹے وعدوں اور جملہ بازیوں سے نہیں جیتا جا سکتا . سماجوادی کے پاس یادو برادری اور مسلمانوں کا ووٹ بینک ہے، جس کی وجہ سے نفرت اور فساد کے ماحول میں مسلم ووٹ بینک خوف کے چلتے مایاوتی کے بجاے انہی کے پاس آنے کے آثار ہیں . دوسری طرف بی جے پی کے پاس اب ہندو مسلم فساد اور رام مندر جیسے نازک معاملوں پر سیاست کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے . لہٰذا ان حالات میں نفرت اور فساد کی سیاست ہی ان دو پارٹیوں کی بقا کی ضامن ہے . ۲۰۱۹ لوک سبھا انتخابات کے لئے تو بی جے پی کے پاس صرف ایک موقع ہے کہ وہ کسی طرح رام مندر کی تعمیر کرادے ، اور آثار سے لگ رہا ہے کہ ایسا جلد ہی ہوگا . بی جے پی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ ترقی اور وکاس کے جھوٹے وعدے اب نہیں چلیں گے لہٰذا رام مندر اب ان کی آخری امید ہے، اور اگر رام مندر بنا کسی تنازعے کے بن جائے تو اس سے انہیں کچھ حاصل نہ ہوگا ، لہٰذا تنازعے کی خاطر فساد اور نفرت کا ماحول قاأم رہنا بہت ضروری ہے . اس ضمن میں بی جے پی کے غیر سیاسی اور غیر معلنہ فسادی نیٹ ورک کا قیام کارگر ہو سکتا ہے . ورنہ ہندو دھرم سینا جیسی بڑی تنظیم حکومت کی در پردہ حمایت کے بغیر کس طرح جاری و ساری رہ سکتی ہے . ٹائمز آف انڈیا کی ٹیم نے ایک ہفتے میں اس تنظیم کے چار ٹریننگ کیمپ کا دورہ کیا جہاں کھلے عام بچوں سے لے کر بڑوں تک کو تلوار سے لے کر بندوق تک چلانے کی تربیت دی جا رہی ہے . رپورٹ کے مطابق صرف اتر پردیش میں اس تنظیم کے تقریبا ۵۰ کیمپ ہیں . جن میں سے ۵ کیمپ تو اکیلے مظفر نگر میں ہیں. یہ کیمپ اکھاڑے کے نام پر چلاے جا رہے ہیں ، اور حکومت کو بظاہر اس کی خبر تک نہیں . یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ رپورٹ کے مطابق یہ سب کچھ پچھلے دو سال سے ہو رہا ہے . فکر کی بات یہ ہے کہ دو سال میں ۱۵۰۰۰ لوگوں کی تربیت ہو چکی ہے، آنے والے دنوں میں یہ تعداد نہ جانے کتنی ہوگی ؟ ممکن ہے کہ یو پی انتخابات میں یہ ماڈل اگر کام کر جائے تو اس کی توسیع دوسری ریاستوں میں بھی ہو . داعش سے مقابلے کی آڑ میں یہ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کے قلیل مدتی اور طویل مدتی کیا نتایج ہو سکتے ہیں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا . اس ضمن میں حکومت سے ہی امید کی جاسکتی ہے ، لیکن موجودہ حالات کے تحت ان سے یہ توقع کرنا حماقت ہوگی . دیکھنے والی بات تب ہوتی ، جب داعش سے مقابلے کی خاطر اسی قسم کی کوئی تنظیم مسلمان بناتے اور پھر ساری حب الوطنی کے دعووں کے باوجود حکومت اور پولیس کا رویہ دیکھنے والا ہوتا . ہمیں تو یہ کھیل داعش کی آڑ میں قتل و غارت گری کر کے سیاسی مفادات حاصل کرنے کا لگ رہا ہے . ان حالات میں مسلمانوں کو حکومت سے توقعات وابستہ کرنے کے بجاے حالات پر نظر رکھتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔(یو این این)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا