English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستان کے لئے لہو دینے والے مسلمانوں کو کیوں یاد نہیں کیا جاتا؟

share with us

بغاوت پورے ملک میں پھیلی تھی مگر آج ہمیں ان سورماؤں کے نام نہیں معلوم جنھوں نے دنیا کی سب سے بڑی سلطنت سے لوہا لیا تھا۔ جنرل بخت خاں آخری مغل تاجدار کے سپہ سالار تھے جن کی فوجی قیادت نے انگریزوں کے دانت کھٹے کردیئے تھے۔ مولانا فضل حق خیرآبادی جنھوں نے انگریزی حکومت کے خلاف فتوی جہاد مرتب کیا تھا اور علماء کے دستخط لئے تھے۔لکھنؤ کی بیگم حضرت محل جو اخیر تک اودھ کو غیر ملکی قا بضوں سے بچانے کی کوشش میں لگی رہیں۔ کانپور کی کم سن طوائف عزیزن جس نے کانپور میں گوروں کے خلاف بغاوت کے شعلوں کو ہوا دینے کا کام کیا۔ آج ان سبھی لوگوں کو فراموش کیا جاچکا ہے جو یقیناًاس ملک کے محسن ہیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مسلمان علماء کو ہزاروں کی تعداد میں پھانسیاں دی گئیں اور انھیں صفحہ ہستی سے مٹایا گیا کیونکہ انگریزوں کے خلاف آواز بلند کرنے میں یہ حضرات سب سے پیش پیش رہتے تھے۔ آج مولوی باقر کو کوئی نہیں جانتا جو پہلے صحافی تھے جنھیں حق گوئی کی پاداش میں پھانسی پر چڑھایا گیا تھا۔ یہاں یہ جاننا بھی اہم ہوگا کہ علماء اسلام نے 1857 کی جنگ آزادی میں سرگرم حصہ لیا تھا اور اس میں اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی۔علماء کرام نے 1857 کے انقلاب میں بڑی بڑی قربانیاں دیں اور ان میں سے سینکڑوں کو کالاپانی کی سزا ہوئی۔یہاں موجود ان کی قبریں آج بھی بہت کچھ بتانے کے لئے کافی ہیں۔ بہت سے علماء دین اٹلی کے جنوب میں واقع مالٹا نامی جزیرے میں جلاوطن کئے گئے۔یہاں آج بھی بہت سے علماء کی قبریں موجود ہیں جنھیں اپنے محبوب وطن کی مٹی میں دفن ہونا بھی نصیب نہیں ہوا۔بعد کے دور میں جمعیت علماء ہند، اورخاکسار تحریک نے آزادی کی لڑائی میں سرگرم کردار ادا کیا مگر ان سبھی تنظیموں کو فراموش کیا جاچکا ہے اور مشکل ہی سے کسی کتاب میں ان کا تذکرہ ملے۔آج اسکولوں کے نصاب میں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ان میں صرف کانگریس اور اس کے لیڈروں کی کوششوں کا ہی بیان ملتا ہے۔علماء دیوبنداور دیگرشیعہ سنی علماء نے بھی ناقابل فراموش خدمات انجام دی تھیں۔ مولانا قاسم نانوتوی، مولانا محمودحسن، مولاناحسین احمد مدنی، بانی نئی دنیا مولانا عبدالوحید صدیقی، مولانا حسرت موہانی وغیرہ کی خدمات قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ان کا ذکر تاریخ کے صفحات میں کہیں نہیں ملے گا۔مشہور عالم مولانا محمود الحسن نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی طرف سے انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے کا پیغام پورے ملک میں پھیلانے کا ایک پلان تیار کیا جسے ’’ریشمی رومال تحریک‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے علماء نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا۔مولانا حسرت موہانی معروف اردو شاعر و دانشور تھے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ایک عظیم انقلابی بھی تھے۔ انھوں نے آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا اور بہت سی تکلیفوں اور مشکلوں سے دوچار ہوئے۔وہ کئی سیاسی پارٹیوں میں رہے یہاں تک کہ 1925 میں قائم بھارتی کمیونسٹ پارٹی کے بانی ارکان میں سے وہ ایک تھے۔
جنگ آزادی میں ہندو۔مسلم اتحاد 
ہندوستان کی آزادی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا اگر اس ملک میں ہندووں اور مسلمانوں نے اتحاد کے ساتھ قدم آگے نہیں بڑھا یا ہوتا ۔ مہاتما گاندھی نے اپنی کتاب ’’ہند سوراج ‘‘میں ملک کی آزادی کے سوال کو ہندو مسلم اتحاد سے جوڑا ہے۔ 1909 میں اس کتاب کی اشاعت ہوئی تھی۔ گاندھی جی پیچیدہ سے پیچیدہ بات کو بہت سادہ طریقے سے کہہ دیتے تھے۔’’ ہند سوراج‘‘ میں انہوں نے لکھا ہے،’’ اگر ہندو مانیں کہ سارا ہندوستان صرف ہندوؤں سے بھرا ہونا چاہئے، تو یہ ایک نرا خواب ہے۔ مسلمان اگر ایسا مانیں کہ یہاں صرف مسلمان ہی رہیں، تو اسے بھی خواب ہی سمجھئے۔ پھر بھی ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی جو اس ملک کو اپنا وطن مان کر بس چکے ہیں، ایک مقامی، ایک ملکی ہیں، وہ وطنی بھائی ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے مفاد کے لئے بھی ایک ہوکر رہنا پڑے گا۔‘‘
مہاتما گاندھی نے اپنی بات کہہ دی اور اسی سوچ کی بنیاد پر انہوں نے 1920 کی تحریک میں ہندو مسلم اتحاد کی جو مثال پیش کی، اس سے انگریزی ریاست کی چولیں ہل گئیں۔ آزادی کی پوری جنگ میں مہاتما گاندھی نے سیکولرزم کے اسی نظریے کو آگے بڑھایا۔مولانا شوکت علی،مولانا محمد علی جوہرؔ ، ڈاکٹر مختار انصاری، مولانا ابوالکلام آزاد اور جواہر لعل نہرو نے اس سوچ کو آزادی کی لڑائی کا مستقل محور بنایا ، لیکن انگریزی حکومت ہندو مسلم اتحاد کو کسی قیمت پر قائم نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔
کانگریس دور حکومت میں تاریخ کو مسخ کیا گیا
آزاد ی کے بعد کانگریس کا جھکاؤ نرم ہندتو کی جانب ہوا اور مسلمانوں کونظر انداز کیا جانے لگا۔جنگ آزادی میں جن مسلمانوں نے اپنا خون بہایا تھا انھیں کتابوں سے نکالا جانے لگا ۔ سڑکوں اور سرکاری یوجناؤں کے نام نہرو خاندان کے افراد سے منسوب ہونے لگے۔یہاں تک کہ اندرا گاندھی کے دور میں ان کے بیٹے اور اس وقت کے جانشین سنجے گاندھی نے 1975 کے بعد سے سرکاری مشینری کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کرنا شروع کردیا۔ خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں عمارتیں ڈھانا اور نسبندی مہم میں ان کونشانہ بنانے کا کام اسی زمانے میں ہوا۔ کانگریس کے دور حکومت کو مسلم کش فسادات کے لئے بھی یاد کیا جاتا ہے۔یہ تمام باتیں اشارہ کرتی ہیں کہ کانگریس کے زمانے میں مسلمانوں کو ہر سطح پر نظر انداز کیا گیا اور یہی دور تھا جس میں مسلم مجاہدین آزاد کی خدمات کو بھی درکنار کرنے کی کوشش ہوئی۔آج کانگریس کے عہد کی غفلت کو کانگریس کے کٹر حامی بھی مانتے ہیں۔ سابق مرکزی وزیر اورکانگریس کے لیڈر غلام نبی آزاد نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک کی آزادی کی جنگ میں مسلمانوں کے تعاون کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا گیا۔یہ بات انھوں نے جمعیت علمائے ہند کی جانب سے منعقد ایک عوامی جلسے میں کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا آزادی کی تحریک میں مسلمانوں کی شرکت کسی سے کم نہیں تھی، لیکن تاریخی اور نصابی کتابوں میں اسے صحیح طریقے سے پیش نہیں کیاگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جمعیت نے 1920 میں انگریزوں کے خلاف عدم تعاون کی تحریک چلائی تھی اور یہی نہیں، وہ ملک کی تقسیم کے بھی خلاف تھی۔اسی طرح جنگ آزادی 1857 کی 150 ویں سالگرہ پرپارلیمنٹ کے اندر اپنے خطاب میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہاتھا کہ اس بغاوت نے ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کی مثال قائم کی تھی۔منموہن سنگھ نے مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’برطانوی حکومت نے بغاوت دبانے کے لئے مذہبی بنیاد پر پھوٹ ڈالنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ ناکام رہے اور تاریخ دانوں کی تحقیق نے اس بات کو صحیح ثابت کیا ہے۔‘‘آج اہم سوال یہ ہے کہ جب ان تاریخی حقائق کو کانگریس کے لوگ بھی جانتے ہیں تو انھوں نے مسلم مجاہدین آزادی کی خدمات کو نظر انداز کیوں کیا؟ ویسے ایک دوسری سچائی بھی ہے کہ بڑے بڑے کارنامے انجام دینے والے بعض ہندو مجاہدین آزادی کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔ ان میں نانا صاحب پیشوا، تاتیا ٹوپے اور رام پرساد بسملؔ جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔
کانگریس کا قیام اور مسلمان
بھارت کبھی ایک زبان، مذہب یا ثقافت والا ملک نہیں رہا۔ مذہبی، لسانی، نسلی اور ثقافتی کثرت ہمیشہ سے بھارت کی خصوصیت رہی ہے۔ جب ہم نے برطانوی راج کی طاقت کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تبھی ہمارے لیڈروں کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ ملک کے لوگوں اورخاص طورپر ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کی تنصیب کا ملک کے مسلمانوں نے پورے جوش و خروش سے استقبال کیا تھا۔ایک بہت ہی چھوٹا طبقہ تھا جس نے اس کی مخالفت کی تھی اور یہ طبقہ صرف مسلمانوں میں نہیں تھا بلکہ ہندووں میں بھی تھا۔یہ زمیندار اور راجہ قسم کے لوگ تھے۔بمبئی ہائی کورٹ کے سابق جج بدرالدین طیب جی نے توکانگریس کے بمبئی اجلاس کے دوران اپنے 300 ساتھیوں کے ساتھ کانگریس کی رکنیت بھی لی تھی، وہ بعد میں کانگریس کے صدر بھی منتخب ہوئے۔کانگریس کی تاسیس سے لے کر بھارت کے آزاد ہونے تک، مسلمان کانگریس کے ساتھ رہے۔یہ بات بھی موجودہ دور میں حیرت واستعجاب سے سنی جائے گی کہ مسلمانوں میں کانگریس کے سب سے اتساہی کے حامی تھے دیوبند کے علماء۔آزادی کی جنگ جب اپنے نکتہ انجام تک پہنچنے والی تھی تب اتفاق سے اس پر جواہرلعل نہرو کا قبضہ ہوگیا اور آزادی کے بعد بھی ان کی اولاد کے ہاتھ میں اقتدار رہا جس میں خاص طور پر مسلمانوں کی حق تلفی ہوئی۔
آج جب کہ ہمارا وطن آزاد ہے اور ہم کھلی فضاؤں میں سانس لے ہے ہیں، ایسے میں وہ مجاہدین آزادی جن کی قربانیوں کے سبب ہمیں آزادی نصیب ہوئی انھیں فراموش کرنا سراسر احسان فراموشی ہے۔ آزادی کے بعد جن ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور رہی انھوں نے مجاہدین آزادی کو یاد رکھنے اور فراموش کرنے میں بھی سیاسی سودوزیاں کو سامنے رکھا مگر عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو فراموش نہ کریں۔جو قوم اپنے بزرگوں کو فراموش کردیتی ہے اسے تاریخ بھی یاد نہیں رکھتی۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا