English   /   Kannada   /   Nawayathi

کہانی ترنگے کی

share with us

قومی جھنڈے کی تاریخ: اس کی تاریخ ہندوستا ن کی آزادی کے پہلے سے شروع ہوتی ہے۔سوامی ویویکانندکی آئرلینڈ کی ایک شاگردہ تھیں جنھوں نے ۱۹۰۴ ؁ء میں پہلا قومی جھنڈا بنایا۔چونکہ ان کا نام’ سسٹر نویدتا‘تھا اس لیے اس جھنڈے کا نام بھی ’سسٹر نویدتاکا جھنڈا ‘ کہا گیا۔ اس جھنڈے میں پیلا اور لال رنگ کا استعمال کیا گیا تھا۔’پیلا رنگ‘ کامیابی کی علامت اور’ لال رنگ‘ آزادی کی جد و جہد کے لیے استعمال کیا گیا۔بنگالی لفظ’’بندے ماترم‘‘ اس پر لکھا گیااور ساتھ ہی ساتھ بھگوان اندر کا ہتھیار ’وجر‘کی تصویر بنائی گئی اور بیچ میں سفید کمل خالص اور پاکیزگی صفائی کی علامت کے لیے بنایا گیا۔
’سسٹر نویدتا‘ کے پرچم کے بعد۱۹۰۶ ؁ء میں ایک دوسرا قومی جھنڈا بنایا گیا جسمیں ’نیلا‘،’پیلا‘ اور ’لال‘ رنگون کی پٹّیاں لگائی گئیں۔نیلے رنگ کی پٹّی میں الگ الگ سائز کے آٹھ عدد تارے بنائے گئے۔لال رنگ کی پٹی میں ’سورج‘ اور تارے کا نشان بنایا گیا اور’ پیلے‘ رنگ کی پٹّی میں’بندے ماترم ‘ دیوناگری میں لکھا گیا۔
اسی سال اس پرچم میں تھوڑی سی تبدیلی کی گئی اور پہلے کے رنگ بدل کر نئے رنگوں میں ’نارنگی،’پیلا‘ اور ’ہرا‘ رنگ استعمال کیا گیا اور اسے ’کمل جھنڈا‘ یا ’کلکتہ جھنڈا‘ کا نام دیا گیا۔ قومی ایکتااور آزادی کی جد و جہد اس کا مقصد تھا۔
۲۲؍اگست،۱۹۰۷ ؁ء کو’ شیام جی کرشنا ورما‘،’ میڈم بھیکا جی کاما‘ اور’ ویر ساورکر‘نے ایک نیا پرچم ترتیب دیا جسکا نام ’میڈم بھیکا جی کاما‘کا پرچم رکھا گیا۔یہ پرچم ۱۹۰۶ ؁ء میں بنائے گئے پرچم کی طرح ہی تھا جس کے رنگ اور پھول میں تھوڑی سی تبدیلی کی گئی تھی۔اسے ۱۹۰۷ ؁ء میں غیر ملک جرمنی میں پہلی بار لہرایا گیا۔اس طرح سے اس پرچم کو ’برلِن کمیٹی پرچم‘ بھی کہا گیا۔اس میں بھی تین رنگ، اوپر ہرا،بیچ میں سنہریٰ اورنیچے کیسریا کا استعمال کیا گیا اور ’وندے ماترم‘ بھی لکھا گیا تھا۔
۱۹۱۶ ؁ء میں ایک نیا پرچم ’لوک مانیہ تلک‘ اور’ ڈاکٹر اینی بیسنٹ‘ نے ترتیب دیا ۔اس پرچم کو کلکتہ کے اجلاس میں پھہرایا گیا۔پرچم میں ’سفید‘، ’ ہرے‘، ’نیلے‘ اور ’لال‘رنگ کو پٹیوں کی شکل میں استعمال کیا گیا تھا۔پانچ لال رنگ کی پٹّیاں اور چار ہرے رنگ کی پٹّیوں کے ذریعہ’شیر‘ کی شکل بنائی گئی تھی ۔سفید رنگ کی پٹّی میں سات عدد تارے بنے تھے جنکا مفہوم تھا’سات رِشی‘۔
۱۹۱۷ ؁ء میں’ بال گنگا دھر تلک‘ نے ایک نئے پرچم سے روشناس کرایا۔بال گنگا دھر تلک ’ہوم رول لیگ ‘ کے لیڈر تھے۔اس پرچم میں اوپر کی طرف ’یونئین جیک‘(برطانیہ کا قومی پرچم) جو وقت کی ضرورت تھی۔اس پر سات عدد تارے بھی بنے تھے جو سات ’رشیوں‘ کی علامت تھے۔پرچم چار نیلے اور پانچ لال رنگ کی پٹّیوں سے بنا تھا۔آدھا چاند اور ایک تارا بھی بنا تھالیکن یہ لوگوں میں مقبول نہیں ہو سکا۔
۱۹۲۱ ؁ء میں مہاتما گاندھی جی نے ،آئرلینڈکی’ سسٹر نویدتا‘ والے پرچم کے نمونے پر ہی تین رنگوں والا پرچم ترتیب دیا جس میں ’سفید‘، ’ہرا‘اور’لال‘ رنگوں کا استعمال کیاگیا ۔سب سے اوپر ’سفید‘ رنگ سچّائی کی علامت کے لیے رکھا گیا،بیچ میں ’ہرا‘ رنگ زراعت کی علامت ظاہر کر نے والا تھا۔ پرچم کے سب سے نیچے ’لال‘ رنگ تھا جو طاقت اور آزادی کی جد و جہد کی علامت ظاہر کرتا تھا۔
۱۹۳۱ ؁ء میں ’پنگالی وینیکیّئا‘نے ایک نیا پرچم ترتیب دیا۔اس میں بھی سفید ،ہرا اور لال تین رنگ تھے۔اس پرچم میں کیسریا رنگ سب سے اوپر تھاجو طاقت کی علامت تھا، سچائی کی علامت والا سفید رنگ بیچ میں تھا ۔ پرچم کے نیچے والا حصّہ ہرا تھا جو زمین اور زراعت کی علامت تھا۔پرچم کے بیچ میں نیلے رنگ کا چرخہ بنایا گیا تھا۔
۱۹۴۷ ؁ء میں اس تین رنگوں والے پرچم میں تھوڑی سی تبدیلی کی گئی اور چرخہ کی جگہ پر ’چکر‘ کو شامل کر کے اسے’ قومی جھنڈا‘ تسلیم کر لیا گیا۔ اس طرح سے قومی جھنڈا وجود میں آیا۔
چونکہ قومی جھنڈے میں تین رنگوں کا استعمال ہوا ہے اس لیے اس کا نام ’ترنگا‘ رکھا گیا۔۲۲؍جولائی ۱۹۴۷ ؁ء کواسے پارلیامنٹ میں ’پنگالی وینیکیّئا ‘کے ترتیب دئے گئے پرچم کو’قومی جھنڈے‘ کی شکل میں تسلیم کر لیا گیا جو ملک کی آزادی کے لیے قوم کی جد و جہدکی علامت ہے۔
قومی پرچم میں تین رنگوں کی پڑی پٹّیاں ہوتی ہیں جس میں گہرے کیسریا رنگ کی پٹّی سب سے اوپر، سفید پٹّی بیچ میں اور گہرے ہرے رنگ کی پٹّی نیچے کی طرف ہوتی ہے۔ بیچ میں سفید رنگ کی پٹّی میں ۲۴ ؍تیلیوں کا ’چکر‘ بنا ہوتا ہے۔ یہ تینو پٹّیاں سائز میں برابر ہوتی ہیں۔
سب سے اوپرگہرا کیسر یا رنگ قربانی، ہمت اور طاقت کی علامت۔سفید رنگ امن اور صداقت کی علامت اور ہرا رنگ پیداوار اور کامیابی کی علامت ظاہر کرتا ہے۔سفید پٹّی کے بیچ میں ’نیوی بلیو‘ رنگ کا ’اشوک چکر‘ ظاہر کرتا ہے کہ ’زندگی ہرکت میں ہے اور موت جامد ہے‘۔ ۲۰۰ ؁ ق.م. یہ چکر بدھ مذہب کے ماننے والوں کا مذہبی نشان تھاجسے سار ناتھ کے ’اشوک استمبھ‘سے لیا گیا۔اس چکر کا قطرسفید پٹی کی چوڑائی کا تین چوتھائی ہوتا ہے۔ پرچم کی لمبائی اور چوڑائی کی نسبت۲:۳ کی ہوتی ہے۔
قومی جھنڈے کی تیاری کا کام’بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈس(' Bureau of Indian Standards')‘ نام کی ایک کمیٹی کرتی ہے جو اس کے رنگ، فرما، دھاگا، کپڑا اور پیمائش وغیرہ کے ضابطہ کی پابندی کرتی ہے۔مندرجہ ذیل کی پیمائش میں ترنگے تیار کیے جاتے ہیں:
نمبر شمار
لمبائی
(ملی میٹر میں) 
چوڑائی
(ملی میٹر میں) 
اشوک چکر کا سائز (ملی میٹر میں) 
1
6300
4200
1295
2
3600
2400
740
3
2700
1800
555
4
1800
1200
370
5
1350
900
280
6
900
600
185
7
450
300
90
8
225
150
40
9
150
100
25
قومی پرچم ضابطہ: ۲۶؍جنوری ۲۰۰۲ ؁ء کو قومی پرچم سے متعلق ضابطہ میں تبدیلی سے اب عام شہری بھی ، کہیں بھی اور کبھی بھی،قومی پرچم ، ذیل کی پابندی کے ساتھ ،پھہرا سکتا ہے :
* جب بھی جھنڈا پھہرایا جائے تو کیسریا رنگ اُوپر ہونا چاہئے۔
* فرقہ پرستی میں فائدے کے لیے قومی پرچم کا استعما ل نہیں کیا جاسکتا۔ 
* جہاں تک ممکن ہوآفتاب کے طلوع سے غروب ہونے تک ہی پھہرایا جائے۔
* کسی بھی حالت میں جان بوجھ کر زمین سے نہ چھونے پائے ، نہ اس کو فرش پر بچھایا جائے اور نہ ہی انکے پردے لٹکائے جائیں اور نہ اسے کسی سواری کے اُوپر یا دائیں بائیں پردے یا چھتری کی طرح استعمال کیا جائے۔
* قومی پرچم کے اوپر یا داہنے کوئی بھی نشان،ہار،پھول یا کوئی دوسرا جھنڈا یا جھنڈی نہ رکھی جائے۔
* قومی پرچم سے کوئی اور چیز نہ بنائی جائے مسلاً جھولے و جھنڈی وغیرہ۔
* کسی کاروباری جلوس یا جلسہ میں اس کا استعمال نہ کیا جائے۔
ترنگے کی بے حرمتی پرایک سال کی سزا اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔
ترنگے کا اہم و دلچسپ:
* دنیا کا سب سے اونچا پہاڑ ’ماؤنٹ ایوریسٹ‘ کی چوٹی پر ۲۹؍مئی ۱۹۵۳ ؁ء ترنگا پھہرایا گیا۔
* میڈم بھیکا جی کاما نے ۲۲؍اگست ۱۹۰۷ ؁ء کوہندوستان کے باہر ملک جرمنی میں ہندوستانی جھنڈے کو پھہرایا۔
* ۱۹۸۴ ؁ء میں ونگ کمانڈر راکیش شرماکے ساتھ خلاء میں بھی ترنگے نے پرواز کیا۔

ooOoo

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا