English   /   Kannada   /   Nawayathi

روہت کی موت اور دلت۔مسلم اتحاد

share with us

آزاد ہندوستان میں دلتوں کے ساتھ امتیاز جرم ہے۔ مگر یہ جرم باربار کیا جاتا ہے کیوں کہ طبقاتی تعصب ذہنوں ہے‘ اسے نکالنا آسان نہیں۔ کہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم سے انسان کے ذہنوں کے بند دریچے کھل جاتے ہیں۔ ذہن کشادہ ہوجاتے ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنی زیادہ تعلیم حاصل کی‘ اس کی ذہنیت اتنی ہی پست۔ یہ پستی ہر شعبہ حیات میں نظر آتی ہے۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی اس کی ایک مثال ہے جہاں روہت اور اس کے چار ساتھی ریسرچ اسکالرس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا اور ان کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔ انہیں گزشتہ دسمبر میں یونیورسٹی سے نکال بھی دیا گیا۔ کیوں کہ اے بی وی پی کارکنوں سے ان کی جھڑپ ہوئی تھی۔ یہ جھڑپ کیوں ہوئی؟ اس لئے کہ روہت اور اس کے ساتھیوں نے جو امبیڈکر اسوسی ایشن سے وابستہ ہیں‘ یعقوب میمن کو پھانسی دےئے جانے کے خلاف ریالی نکالی تھی۔ اے بی وی پی بی جے پی کی اسٹوڈنٹس ونگ ہے اور ظاہر ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا لحاظ کرنا ہی ہوتا ہے۔ اے بی وی پی قائد سوشیل کمار کو مبینہ زد و کوب کئے جانے کے واقعہ کے خلاف مرکزی وزیر بنڈارو دتاتریہ نے مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل سے شکایت ہی نہیں کی تھی بلکہ یونیورسٹی کیمپس میں طلباء کی سرگرمیوں کے خلاف کاروائی کی سفارش بھی کی تھی۔ روہت ویمولا نے اپنے فیلوشپ کی رقم کی اجرائی مسدود کئے جانے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اختیار کئے جانے والے امتیازات ہتک آمیز سلوک کے خلاف انتہائی اقدام کا فیصلہ جذبات کی رو میں بہہ کر نہیں کیا بلکہ انہوں نے سوچ سمجھ کر، ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ کیا۔ انہوں نے اس اقدام سے پہلے اپنی ماں سے بھی بات کیا اور خودکشی کا طویل نوٹ بھی لکھا۔ ان کی ہر سطر درد و کرب میں ڈوبی ہوئی ہے جس سے ان کے ساتھ اختیار کئے گئے رویہ اور سلوک کی عکاسی ہوتی ہے۔ وائس چانسلر اپاراؤ کے نام ان کا طنز سے بھرپور مکتوب بڑا فکرانگیز‘ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یونیورسٹی کیمپس میں دلتوں کے ساتھ کیسا سلوک اختیار کیا جارہا ہے۔ روہت نے اپنی جان دے کر ہندوستانی سماج کو جگانے کی کوشش کی‘ کچھ عرصہ تک ملک کی سیاست میں گرماہٹ رہے گی۔ دتاتریہ کو ممکن ہے کہ وزارت سے محروم ہونا پڑے اور مودی وزارت پر دلتوں کے ساتھ بدسلوکی کے داغ دھونے کے لئے شاید یہ ضروری بھی ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا اس واقعہ کے بعد تعلیمی اداروں میں بھید بھاؤ کا ماحول ختم ہوگا‘ روہت کی موت نے ایک بار دلتوں اور پچھڑے ہوئے طبقات کو یہ احساس دلایا ہے کہ انہیں اس ملک کی سیاست کو بدلتے ہوئے اپنی تقدیر بھی بدلنی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران دلت اور مسلمان ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔ روہت کی موت کے غم میں مسلمان بھی شریک ہیں اور انہوں نے دلتوں کے ساتھ یگانگت کا اظہار کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹھوس بنیادوں اور مشترکہ مفادات کی اساس پر مسلم۔دلت اتحاد مستحکم ہو۔ حال ہی میں ایک آئی اے ایس آفیسر نے ذات پات کی بنیاد پر ترقی کے مواقع سے محروم کئے جانے کے خلاف احتجاجی اقدام کے طور پر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس موقع پر مسلمانوں نے بڑی دانشمندی کا مظاہرہ کرکے اس کی واہ واہ نہیں کی تھی کیوں کہ آئی اے ایس آفیسر کا قبولیت اسلام احتجاجی اقدام تھا۔
مسلمانوں نے ہمیشہ ابنائے وطن بالخصوص دلتوں اور دیگر پچھڑے ہوئے طبقات کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام واحد مذہب ہے جہاں ذات پات کا بھید بھاؤ نہیں۔ سنا جاتا ہے کہ بابا صاحب امبیڈکر‘ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے امتیازی سلوک سے قدر دلبرداشتہ ہوکر اسلام قبول کرنا چاہتے تھے‘ تاہم وہ یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ آیا سنی مسلک اختیار کیا جائے یا شیعہ ازم۔ آخرکار انہوں نے اپنے پیروؤں کے ساتھ بدھ مذہت اختیار کیا۔ اب مسلمان کوشش کریں تو دلت بھائیوں کی اکثریت ان کے قریب ہوسکتی ہے بشرطیکہ مسلمان اپنے آپ کو ایک ایسی قوم کے طور پر پیش کرسکیں جو بھید بھاؤ سے پاک و صاف ہے۔
مسلمان بھی ہر دور میں مظلوم رہے ہیں ا ور دلت بھی دونوں کے غم اور مسائل بڑی حد تک مشترک ہیں۔ یہ اگر ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کے لئے متحد ہوجائیں تو پھر چند فیصد استحصال پسندوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ممکن ہے۔
سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر محمد میاں نے اپنے دور میں مانو کیمپس کا حال کچھ ایسا ہی بناکر رکھ دیا تھا۔ دو ملازمین کے ساتھ ان کا رویہ ان کے خلاف کاروائی بدترین مثال ہے۔ اورنگ آباد کے مظفر حسین، کولکتہ کے ڈاکٹر امام اعظم کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا گیا۔ ان سب کو اس قدر ہراساں وپریشان کیا گیا۔ معاشی طور نقصان پہنچایا گیا۔ اگر اسلام میں خودکشی حرام نہ ہوتی اور ان کا یہ ایمان نہ ہوتا کہ جو بھی ہوتا ہے وہ مشیت الٰہی سے ہوتا ہے تو ’’مانو‘‘ میں بھی خودکشی کے واقعات پیش آتے۔ یہ تو ان مظلومین کی دعاؤں کا اثر ہوگا کہ وائس چانسلر کے عہدہ پر معقول شخصیت کا تقرر عمل میں آیا‘ جس کے بعد امید پیدا ہوئی ہے کہ مظلومین کے ساتھ انصاف ہوگا۔
جہاں تک یونیورسٹی کیمپس میں بے چینی کا ماحول ہے یہ سلسلہ علی گڑھ سے جامعہ ملیہ اور حیدرآباد تک جاری ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردار کو سوالیہ نشان بنادیا گیا ہے۔ ایک طرح سے غیرضروری مسئلہ چھیڑ دیا گیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جو ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ دیگر ابنائے وطن کے لئے رواداری یکجہتی اور تہذیب کی ایک روشن مثال ہے گذشتہ 40-45 برس سے اس کے اقلیتی کردار کو موضوع بحث بنایا جاتا رہا۔ کبھی اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے کبھی اقلیتی ادارہ تسلیم نہ کرنے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہندوستانی مسلمانوں کے جذباتی وابستگی ہے۔ اقطاع عالم میں اس کے فرزندان موجود ہیں۔ جب کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خلاف کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے یہ بے چینی ساری دنیا میں محسوس کی جاتی ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہے۔ لگتاہے کہ مسلم طلباء اور ہندوستانی مسلمانوں کو بعض ریاستوں کے الیکشن سے پہلے مشتعل کرکے ملک کی فضاء میں فرقہ پرستی کا زہر گھول دیا جاتا ہے۔ اس نازک مرحلہ پر طلباء برادری‘ مسلم قائدین اور عام مسلمانوں کو دانشمندی، تدبر اور صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہماری ذرا سی غفلت کا خمیازہ طویل عرصہ تک بھگنا ہوگا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا