English   /   Kannada   /   Nawayathi

پھریادآئے کسان

share with us

جس میں سے 900روپے کسان اور 2400روپے سرکار اداکرتی تھی۔سابق پالیسی میں انشورنس کا پریمیم فصل کا تخمینہ قیمت کا15فیصد سے کم نہیں تھا 
فصلوں کے لحاظ سے اداکرنا ہوتا تھا۔پوری فصل برباد ہونے پر بھی صرف15000روپے ہی مل پاتے تھے۔ دوسری بڑی خرابی یہ تھی کہ یہ بیمہ یوجنا صرف کھڑی فصل کے لئے تھی یعنی اگر قدرتی قہر کے چلتے کھڑی فصل برباد ہوتی ہے تبھی اس کے لئے دعویٰ کیاجاسکتا تھا۔ اس کے علاوہ فصل کے نقصان کا صحیح جائزہ لینے میں کئی طرح کی دقتیں آرہی تھیں جن کے چلتے کسانوں کو وقت پر معاوضہ نہیں مل پاتا تھا۔ پھر جو کسان بینک سے لیاگیا قرض واپس نہیں کرتے انہیں انشورنس کی رقم نہیں دی جاتی۔ کسان عموماً تبھی قرض لوٹانے کی حالت میں نہیں ہوتے جب فصل خراب ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ تب ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔ اسی وقت انہیں پیسوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ تبھی انہیں پیسہ نہیں دیاجاتا۔ اس وجہ سے کسان فصل بیمہ لینے سے ہچکتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پالیسی کتنی بھی اچھی ہو وہ زمین پر اتنے اثردار انداز میں لاگو نہیں ہوپاتی۔
نئی وزیراعظم فصل بیمہ یوجنا میں پرانی پالیسی کی کافی ساری کمیوں اورتکنیکی خامیوں کو دورکیاگیا ہے۔ سب سے بڑی الجھن پریمیم کی تھی جسے وزیراعظم نریندرمودی نے ذاتی دلچسپی لے کر حل کیا۔ مثلاً گیہوں ،دھان، دلہن وتلہن کی فصلوں کیلئے الگ الگ پریمیم دینا ہوتا تھا۔انہوں نے ربی وخریف سیزن کی فصلوں میں بانٹ کراس مشکل کو آسان کردیا۔ پریمیم کی جو دریں 15سے 57فیصد تک ہوتی تھیں انہیں گھٹا کرنئی اسکیم کے تحت ڈیڑھ سے ڈھائی فیصد کردیاگیا ہے۔ کپاس اور باغبانی کیلئے پانچ فیصد پریمیم دینا ہوگا۔ باقی سرکار بھرے گی۔ اولے پڑنے، پانی بھرجانے، مٹی کٹنے یاچٹانیں کھسکنے کو مقامی آفت تصور کیاجائے گا۔ ساتھ ہی اس نئی بیمہ یوجنا کا دائرہ بڑھاکربوائی سے لے کر کٹائی کے بعد کے نقصانوں کی بھرپائی تک کردیاگیا ہے۔ پہلے فصل کٹنے کے بعد کھیت میں پڑے رہنے کے دوران اگر کوئی قدرتی آفت (بارش، اولے یاباڑھ)آتی توبیمے سے اس کی بھرپائی نہیں ہوپاتی تھی لیکن اب فصل کٹنے کے 14دن تک فصل کھیت میں ہے اوراس دوران کوئی آفت آتی ہے توکسانوں کودعویٰ رقم حاصل ہوسکے گی اس میں یہ انتظام بھی کیاگیا ہے کہ فصل برباد ہونے پرانشورڈ کی گئی فصل کے نقصان کا 25فیصد بھگتان فوراً کسانوں کے کھاتے میں پہنچ جائے گا باقی رقم زیادہ سے زیادہ 90دنوں کے اندر مل جائے گی۔ یہ اسکیم اس سال خریف کی فصل سے لاگو ہوگی۔ مانا جارہا ہے کہ اس سے پچاس فیصد فصلوں کو بیمہ کے دائرے میں لایاجاسکے گا۔
اس اسکیم کی ٹھیک طرح سے تشہیر کی جائے تو بلاشبہ کسان اس کافائدہ اٹھائیں گے۔ پریمیم کم ہونے سے ممکن ہے درمیانی کسان بھی اپنی فصلوں کا بیمہ کرانے کا من بنائیں۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ چھوٹے، غریب اور بٹائی دار کسانوں کو یہ بھی بھاری لگے۔ سرکار کو اس زمرے کے کسانوں کو بیمہ کے دائرے میں لانے کیلئے کچھ اور طریقہ ڈھونڈنا ہوگا۔ دوسرے یہ کہ اس پالیسی کی کامیابی اس بات پر منحصر کرے گی کہ فصلوں کے نقصان کے جائزے میں کتنی شفافیت Transparencyبرتی جائے گی ۔ حالانکہ اس اسکیم کو جدید تکنیک سے جوڑنے کی منصوبہ سازی کی گئی ہے۔ عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ فصلوں کی بربادی کاتخمینہ ٹھیک سے نہ کئے جانے یا پھر سرکاری ملازموں کے تکنیکی روڑے اٹکانے کی وجہ سے کسانوں کو مناسب معاوضہ نہیں مل پاتا۔ جو ملتا بھی ہے وہ اتنا کم ہوتا ہے کہ اس سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ سرکاری لوگوں کا یہ رویہ عام ہے کہ سوکھے، باڑھ، مٹی یا زمین کے کٹاؤ یااولے گرنے وغیرہ کا تخمینہ کرنے میں وہ بھیدبھاؤ یا پھر اندیکھی کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کھیتی کے لحاظ سے اہم سمجھے جانے والے پنجاب، ہریانہ، مدھیہ پردیش اوراترپردیش میں کھیتی کا انشورنس لینے والے کسان بہت کم ہیں۔ فصلوں کے بیمہ کے معاملہ میں بھی اگر ان کا یہی رویہ رہا تو کسانوں کو مایوسی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔
سرکار نے قدرتی آفت کے تخمینہ کیلئے کمپیوٹر، ای میل اور فون کے استعمال کا بندوبست کیا ہے۔ تحصیلداروں کو اسمارٹ فون کے ذریعہ اپنی رپورٹ بھیجنے کی سہولت مہیا کرانے کا انتظام ہوگا۔ لیکن اس سب کے باوجود شفافیت ضروری ہے تاکہ کسان خود بھی جانچ سکیں کہ ان کی انشورڈفصل کے بارے میں رپورٹ صحیح دی گئی ہے یانہیں۔ اس اسکیم کی کامیابی سے کسانوں کو راحت ملے گی اوران میں کھیتی کے تئیں حوصلہ پیدا ہوگا لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ اس پالیسی کو اثرانداز طریقے سے زمین پر لاگو کیا جائے ورنہ اس کاحال ان ریاستوں کی طرح ہوگا جہاں فصل بیمہ یوجنا میں بڑی تعداد میں کسان شامل ہیں جیسے مہاراشٹر ،کرناٹک یا تمل ناڈو، وہاں دھوکا دھڑی اورفرضی واڑہ بہت زیادہ ہے۔ کسان، بینک اورسرکاری افسران مل کر فرضی دعویٰ بناکر بیمہ کا پیسہ لے لیتے ہیں۔ اس طرح اس وقت ملک میں دوطرح کے علاقے ہیں ایک وہ جن میں بیمہ لگ بھگ ندارد ہے دوسرے وہ جن میں بیمہ کا پھیلاؤ خوب ہے لیکن وہاں دھوکہ دھڑی بھی بہت ہورہی ہے۔
ہرریاستی سرکار کسانوں کے حق کی بات کرتی نظرآتی ہے لیکن زمینی حقیقت اس سے مختلف ہوتی ہے۔ اترپردیش کو دیکھیں جس نے گزشتہ سال کو’’کسان برس‘‘ ہونے کا اعلان کیاتھا۔ کسانوں کی حالت سدھارنے کیلئے ایک ہزار ایگری جنکشن قائم کرنے کا منصوبہ بنایاتھا۔ اس کیلئے چھ کروڑ روپے کا بجٹ بھی مختص کردیاگیا۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ پورے سال میں اس منصوبے پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوپایا۔ جبکہ ان ایگری جنکشنز پر مٹی کی جانچ، کھیتوں کی پیداوار کاجائزہ لینے، اچھے بیج، کھاد، کیڑے مارنے کی دوائیں فراہم کرنااورکسانوں کو منافع بخش کھیتی کے طریقے سکھانے جیسی سہولیات مہیاکرانا تھا۔ اس ریاست کے زیادہ لوگوں کا انحصار کھیتی پرہے اوراسی صوبے میں بندیل کھنڈ جیسا علاقہ بھی ہے جہاں سب سے زیادہ کسان خودکشی کرتے ہیں اس کے باوجود ریاستی سرکار، وزارت زراعت اور شعبہ زراعت کی بے پرواہی انتہائی افسوسناک ہے۔
چناؤ میں ہرپارٹی کسانوں کی ہمدر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ لیکن اقتدار میںآتے ہی کسان نظرانداز کئے جانے لگتے ہیں۔ بھاجپا نے لوک سبھا چناؤ کے اپنے منشور میں کہا تھا کہ اگر وہ اقتدار میںآئی تو ایم ایس سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کے مطابق یہ یقینی بنائے گی کہ کسانوں کو ان کی پیداوار کی لاگت سے ڈیڑھ گنا قیمت ملے۔ بی جے پی کے اقتدار کو دوبرس ہونے کو ہیں لیکن اس طرف پہل نہیں ہوسکی ۔ کسانوں کی خودکشی ویسے ہی جاری ہے۔ واقعات پنجاب جیسی ریاست میں بھی ہورہے ہیں۔ پنجاب کے کسان بھی بحران کا شکار ہیں۔ کھیتی گھاٹے کا کاروبار ہوگئی ہے۔
بہر حال فصل کو سچ مچ حفاظت ملے، اس کیلئے زراعت کے میدان میں سدھاروں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ آب پاشی کی اچھی سہولت اورسائنسدانوں کی صلاح اور مدد سے کھیتی میں بے یقینی کو کافی حد تک کم کیاجاسکتا ہے۔ موسم پرتوانسان کا کوئی بس نہیں لیکن اس کی وجہ سے ہونے
والے نقصان کی بھرپائی کا معقول انتظام ہو اس کیلئے فصل بیمہ کی افادیت بنی رہے گی۔ اس یوجنا کی مزید تفصیلات آناابھی باقی ہیں ہم یہی امید کریں گے کہ کھیتی کی ترقی ہو اورکسانوں کی آمدنی بڑھے تاکہ وہ فصل بیمہ کافائدہ اٹھاسکیں۔ ملک کی ترقی میں کسانوں کا حصہ رہا ہے بس اسے اوربہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا