English   /   Kannada   /   Nawayathi

مصر :روحِ امم کی حیات کشمکشِ انقلاب

share with us

یہاں تک کہ اخوان کے کٹر مخالفین کو اس کی مذمت پر مجبور ہونا پڑالیکن اس کے باوجود مصری حکمرانوں کے طرزِ عمل میں کوئی تبدیلی نہیں ائی۔ ان لوگوں نے اخوان کوبزورِ قوت کچلنے کی ایک نئی سازش رچی۔ اس کیلئے ایک طرف تو وزیر داخلہ نے دھمکیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ عوام کے اعتراض کا ہواّ کھڑا کیاگیا۔ عدم استحکام پھیلانے کا الزام لگایا گیا اورذرائع ابلاغ میں اخوانیوں کو دہشت گرد کے نام سے پکارا جانے لگا۔ اس لئے کہ دورِ حاضر میں کسی کا ناحق قتل کرنے کیلئے اس معصوم کو دہشت گرد ٹھہرا دینا کافی ہے۔
اس دوران صدر محمد مورسی کے خلاف طرح طرح کے مضحکہ خیز الزامات لگائے گئے جن میں سب سے اہم حماس کے ساتھ ساز باز کرنے کا الزام تھا۔ اسے دہشت گردوں کی پشت پناہی اور ان کی مدد سے مصر میں دہشت گردی کے فروغ کی سعی قرار دیا گیا حالانکہ نہ حماس دہشت گرد ہے اور نہ اس سے تعلقات کی بحالی کا دہشت گردی سے کوئی سروکار ہے بلکہ وہ تو اسرائیلی دہشت گردی کو لگام لگانے کی کوشش ہے۔صدر مورسی پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ 12 دسمبرکو برپا ہونے والے انقلاب کے وقت وہ جیل توڑ کرفرار ہوگئے تھے۔ دنیا بھر میں انقلاب سے قبل گرفتار ہونے والے کو ہیرو قراردیا جاتا ہے اور اس کی تکمیل کیلئے جیل کی سلاخوں کو توڑ کر باہر ا?نے والوں کی تعظیم و تکریم کی جاتی ہے لیکن مصر میں اس کے برعکس ایسا کرنے والے سابق صدر قابلِ گردن زدنی ٹھہرا۔
اس طرح گویا موجودہ انتظامیہ نے حسنی مبارک کے تاریک دور میں مورسی جیسے قیدیوں کی گرفتاری کو جائز قرار دے دیا جو اپنے اپ میں حسنی مبارک کے نامبارک دور کے ابتداء کا بلاواسطہ اعلان تھا۔ صدرمحمد مورسی پر اپنیزنداں کے ساتھیوں کو قتل کرنے کی سازش رچانے کا بھی الزام جڑ دیا گیا۔ اب بھلا ایک انقلابی اپنے دوسرے ہم نفس انقلابیوں کو کیوں ہلاک کرے گا؟ اس سوال کا جواب انتظامیہ کے پاس نہیں تھا۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے اسلام مخالف جماعتوں پر غیرآئینی راستوں سے باہر کی دولت سمیٹنے کے ثبوت توان کے اقتدار میں ا?نے سے قبل ہی سامنے اگئے لیکن صدر محمدمورسی پر بدعنوانی کا ایک جھوٹا الزام بھی نہیں لگایا جاسکا۔
دہشت گردی کی ہوا بنانے کے بعد وزیر دفاع اور نائب وزیر اعظم عبدالفتاح السیسی نے ایک ۲ اگست کے دن مظاہرے کا اعلان کیا تاکہ عوام اس اقدام کے ذریعہ دہشت گردی سے نبٹنے بمعنیٰ اخوان کو کچلنے کی توثیق کرے۔ وزیر دفاع اور فوجی سربراہ کا کام بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے اور اس کام کیلئے اسیکسی توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اپنے فرض منصبی سے روگردانی کرتے ہوئے اس نے اندرونِ ملک پرامن مظاہرین کے خلاف کارروائی کرنیکیلئے عوام کی توثیق طلب کی جو اپنے اپ میں ایک دلچسپ سیاسی تماشہ فیصلہ تھا۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والینائب صدور یا وزیراعظم خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے اور فوجی جنرل جلسے جلوس منعقد کروا رہا تھا۔ ذرائع ابلاغ میں پہلے اس طرح کی ہوا گرم کی گئی کہ ان مظاہروں میں شامل پولس اہلکار اخوانی مظاہرین پر حملہ بول دیں گے اور انہیں تتر بتر کردیں گے لیکن اخوان اس پرپگنڈے سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ انہوں اس کے خلاف اپنے مظاہروں کا اعلان کردیا اور السیسی کے مظاہرے والے دن قاہرہ شہر میں ۲۴ مقامات سے جلوس نکلے اس کے علاوہ ملک بھر میں اخوانیوں نے فوج کی دھاندلی کو بھرپور طریقے پر چیلنج کیا اور ستمگروں کی ہوا اکھاڑ دی۔بقول شاعر
بڑے ادب سے غرورِ ستمگراں بولا
جب انقلاب کے لہجے میں بے زباں بولا
قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے السیسی کے مظاہرے کوخوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جس میں ناچنے گانے والے لوگوں کی مدد سے عوام کو بلایا گیا تھا۔ اس تحریر چوک پر جہاں کل تک پولس اور فوج کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا ۲ اگست کو مظاہرین فوجیوں اور پولس والوں کے ساتھ تصویر کھنچوا رہے تھے۔ گویا کہہ رہے ہوں ہم ساتھ ساتھ ہیں۔السیسی کی تصاویر والے پوسٹر اور بلیّ مفت تقسیم کئے جارہے تھے۔ یہ اپنی مقبولیت کومصنوعی طریقے سے بڑھانے کی ایک بھونڈی کوشش تھی۔ اس بیچ بے اختیارکارگذار صدر نے اپنے اختیارات پارلیمان کو سونپے اور پارلیمان نے وزیر داخلہ کو جو حسنی مبارک کے زمانے کی بدنام زمانہ پولس فورس کو بحال کرنے کا اعلان کرچکا تھا دہشت گردوں سے نبٹنے کا کام سونپا گیالیکن اس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی۔
یوروپی یونین کی وزیر خارجہ کا دوسری مرتبہ مصر کا دورہ اور اس میں صدر مورسی سے ملاقاتنے سیاسی منظر نامے کی تبدیلی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد جرمنی کے وزیر خارجہ نے مورسی سے ملاقات کی اجازت طلب کی جسے مصری حکمرانوں نے مسترد کردیا لیکن امریکی ارکانِ پارلیمان کو منع کرنے کا دم خم ان میں نہیں تھا۔ اس نئی صورتحال میں دھمکیوں کا سلسلہ اور دہشت گردی کا الزام اپنے اپ پسِ پشت چلا گیا اس لئے کہ دہشت گردوں سے غیر ملکی وزراء کی ملاقات نہیں کرائی جاتی۔ یوروپی وزیر خارجہ نے اخوانی رہنماوں سے بھی ملاقات کی جن میں سابق وزیر اعظم ہشام قندیل بھی شامل تھے۔ اس طرح گویا اخوان کو سمجھانے منانے کی بین الاقوامی کوششوں کا اغاز ہوا۔ اس کے فوراً بعد افریقی یونین کے بزرگ رہنماوں نے مصر کا دورہ کیا۔ یہی وہ تنظیم ہے جس نے فوجی بغاوت کے بعد مصر کی رکنیت کو معطل کردیا تھا۔ وہ لوگ چونکہ نئے غیر ائینی سربراہوں کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے اس لئے فطری طور پر صدر محمد مورسی سے ملاقات کی خاطر ان کے پاس گئے۔
امریکہ نے اس موقع پر کمال منافقت کا مظاہرہ کیا۔ امریکی صدر اسے بغاوت تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے اوردونوں فریقوں کو صبر و تحمل سے کام لے کر امن وامان قائم رکھنے کی تلقین کرتے رہے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ظالم ومظلوم کے درمیان کا فرق سے پوری طرح نااشنا ہیں۔ لیکن پاکستان کے اندران کے سکریٹری اف اسٹیٹ جان کیری نیمصری فوج کی حمایت کا اعلان کردیااور کہا کہ وہ جمہوریت کو بحال کرنے کی ذمہ داری بخیر و خوبی نبھا رہی ہے۔ جان کیری فی الحال امریکہ میں اوبامہ کے بعد دوسرے نمبر کے رہنما ہیں اور ان کی حیثیت وزیر اعظم ہے۔ اخوان نے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے سوال کیا کہ اگر عوامی مظاہروں کے پیشِ نظر امریکی وزیر دفاع چک ہیگل صدر اوبامہ کو گرفتار کرکے پارلیمان تحلیل کردیں اور دستور کو منسوخ کردیں تو کیا وہ اسے امریکہ میں جمہوریت کی بحالی قراردیں گے؟اس تمام عرصے میں اخوانیوں کے مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اورعام لوگ ان مظاہروں میں شریک ہوکر شہداء کے پسماندگان کی تعزیت کرتے رہے۔
امریکی انتظامیہ نے بالآخر یہ محسوس کرلیا کہ یہ سیلاب اب رکنے والا نہیں ہے اج نہیں تو کل پھر مصری عوام جبر استبداد کے خلاف پھر کھڑے ہو جائیں گے اور جب دوبارہ انتخابات کا انعقاد ہوگا تو اخوان زبردست اکثریت کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار ہوں گے اس لئے کہ ان کے تئیں عوام کے اندرزبردست ہمدردی پیدا ہوگئی ہے نیزان کے مخالفین کے چہروں پرپڑی جمہوریت اور عدل وانصاف کی نقاب تار تار ہو چکی ہے۔ امریکی دباؤکا برملااعتراف السیسی نے واشنگٹن پوسٹ کو دئیے گئے اپنے انٹرویو میں کیا اور کہا اپ لوگوں نے ہمیشہ ہی مصریوں سے دھوکہ کیا ہے کبھی مصری عوام کا ساتھ نہیں دیا اور اب بھی یہی کررہے ہیں۔السیسی اس فوج کا سربراہ ہے جو ہرسال ۰۱۲ کروڈ ڈالرکی مدد امریکہ سے لیتی ہے اور جسے جاری رکھنے کیلئے امریکہ نے اس کیاقتدار پر قابض ہونے کو فوجی بغاوت نہیں کہا۔ السیسی کے مطابق وہ روزانہ کی بنیاد پر امریکی وزیر خارجہ چک ہیگل کے رابطے میں ہے اس پس منظر میں السیسی کا مذکورہ بیان خود اپنے ہاتھوں سے اپنے چہرے پر طمانچہ مارنے جیسا ہے۔
اس نئی صورتحال میں جب اوبامہ نے محسوس کیا یوروپی یونین اور افریقی یونین کے اثرات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ان کی حیثیت ثانوی درجے کی ہو کررہ گئی ہے تو اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کیلئے حزب اختلاف کے دو اہم ارکان کواپنا نمائندہ بنا مصر کے دورے پر روانہ کیا۔ ان لوگوں اخوان کے معمر رہنماخیرط الشاطر سے بھی جیل میں ملاقات کی اور اخباری کانفرنس میں صاف طور السیسی کی حرکت کو فوجی بغاوت قرار دے دیا۔ اسی کے ساتھ جان میک کین نیعلی الاعلان کہا انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والے جیل میں ہیں اور جو لوگ قوم کی نمائندگی نہیں کرتے ایوانِ اقتدارپر فائز ہیں۔ میک کین اور اس کے ساتھی لنڈسے گراہم نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا جمہوریت میں بات چیت سے مسائل حل ہوتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا جن سے بات کرنی ہو وہ جیل میں ہوں۔گراہم نے یہ بھی کہا کہ امریکی پارلیمان کے باز ارکان مصر سے قطع تعلق کرنا چاہتے ہیں اور کچھ امداد بند کرنے کے حق میں ہیں۔ ہمیں باہمی تعلقات کی بابت ایماندار ہونا چاہئے اور ہم ایک ایسے مصر کی حمایت نہیں کرسکتے جو جمہوریت سے دور جارہا ہو۔ ویسے ان امریکہ کے ان بیانات کی اہمیت سوائے اس کے کچھ اور نہیں ہے کہ اب وہ فوجی ٹولے کی صلاحیت سے مشکوک ہو گئے ہیں اور اس کی حمایت کو اپنے لئے مضر سمجھتے ہیں۔ یہ دراصل گزشتہ ایک ماہ کے دوران اپنائی جانے والی ناقص حکمت عملی کی تبدیلی کا اعتراف ہے۔ اس میں شک نہیں کہ امریکی استعمار کیاس شکست فاش کا سہرہ صرف اور صرف اسلام پسندوں کے صبرو استقامت کو جاتا ہے۔
نظریاتی تحریکات کے اندر انقلاب اور انتخاب کے حوالے سے ایک لامتناہی بحث جاری رہتی ہے جو حالات کے لحاظ سے مختلف ڈگر پر چل پڑتی ہے۔ مصر کی موجودہ صورتحال سے انقلابی و انتخابی جدوجہد کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو سمجھا جاسکتا ہے۔انتخاب کے میدان میں دوطرح کی تحریکات برسرِ عمل ہوتی ہیں۔ایک وہ جنہیں نظام کو تبدیل کرنا ہوتا ہے اور دوسرے وہ جو نظام کو تبدیل کرنے کے بجائے صرف قائم شدہ نظام کے تحت اقتدار میں حصہ دار بننا چاہتی ہیں۔ ان دونوں قسم کی تحریکات کیلئے دعوت و خدمت نیز انتخابی عمل میں شرکت لازمی ہے لیکن جو تحریک نظام کو تبدیل کرنے کی خواہشمند ہوتی ہے اسے ایک اضافی مرحلے یعنی ابتلاء وآزمائش سے بھی ہو کر گزرنا پڑتا ہے اس لئے جس نظام کو وہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں اس کے علمبردار ا?سانی سے اس کیلئے تیار نہیں ہوتے اور بھرپور مزاحمت کرتے ہیں چونکہ اقتدار کے مختلف ادارہ جات مثلاً فوج،انتظامیہ اور عدلیہ وغیرہ انقلاب کے خلاف ہوتے ہیں اس لئے ان سب کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔
انقلاب اور انتخاب کے تعلق کو طالبعلم کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ایک طالبعلم سال بھر محنت کرکے علم حاصل کرتا ہے۔ اس کے بعد امتحان کے مرحلے سے گزرنے کے بعد وہ نتیجے سے ہمکنار ہوتا ہے۔ دعوت و خدمت کی مثال گویاعلم کا حصول کی سی ہے کہ یہ سال بھر کرنے کا کام ہے۔انتخاب کی مثال امتحان اور نتائج کی سی ہے جو سال بھر کی جانے والی محنت کا ثمر ہوتا ہے۔ انتخاب کے نتائج سے تو صرف یہ پتہ چلتا ہے تحریک نے کس قدر میدان سر کرلیا ہے اور مزید کتنا کام باقی ہے۔ انتخابی عمل گویا تبدیلی کا ذریعہ نہیں بلکہ اس میدان میں کامیابی و ناکامی کے جانچنے کا پیمانہ ہے۔ جو تحریک صرف انتخاب کوتبدیلی کا سرچشمہ سمجھتی ہے اس کی مثال ایک ایسے طالبعلم کی سی ہے جو امتحان کوعلم کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے ایسے طالبعلم کے حصے میں ناکامی و نامرادی کے سوا کچھ بھی نہیں آسکتا۔
اخوان کی انتخابی کامیابی کا انحصار اس کی انتخابی مہم سے نہیں بلکہ اس کی دعوت و خدمت کی سرگرمیوں سے ہے۔ ان مراحل میں کامیابی درج کرلینے کے بعد اخوان فی الحال ایک اضافی مرحلے یعنی ابتلاء و آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ اگر اخوان کے پیشِ نظرنظام کی تبدیلی کا کام نہیں ہوتا تو اس کو یہ مرحلہ پیش نہ آتا لیکن اس مرحلے میں میں استقامت وعزیمت کا رویہ اختیار کرنے کیلئے وہ تربیتی و تزکیہ کا نظام درکارہے جس سے تحریک کے کارکنان گزارے گئے ہیں۔ جس کی بدولت ان کے اندراپنے مقصد کا عشق اور جہاد و شہادت کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔اگر دعوت و خدمت میں کمی ہو تو عوام کا اعتماد حاصل نہیں ہو پاتا اور تربیت و تزکیہ کا نظام ناقص تو ا?زمائش کے مرحلے میں تحریک دم توڑ دیتی ہے۔ اخوان المسلمون نے اس رمضانِ مبارک کے اندر ساری دنیا کے سامنے اس حقیقت کا بھی مظاہرہ کردیا کہ اگرکارکنانِ تحریک کی تربیت صحیح خطوط پر ہوئی ہوتواوراس کے بعد ان پر آزمائش اس طرح آئے کہ جیسے غزوہ احزاب کے وقت آئی تھی یعنی’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، یاد کرو اللہ کے احسان کو جو (ابھی ابھی) اْس نے تم پر کیا ہے جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے اْن پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اس وقت کر رہے تھے۔جب وہ اْوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آ گئے، اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔اْس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور بْری طرح ہلا مارے گئے‘‘
ان شدید ترین حالات میں بھی سچے اہلِ ایمان نے منافقین کا سا مظاہرہ نہیں کیا جن کے بارے میں کہا گیا کہ ’’یاد کرو وہ وقت جب منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا صاف صاف کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اْس کے رسول نے جو وعدے ہم سے کیے تھے وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے۔جب اْن میں سے ایک گروہ نے کہا کہ ‘‘اے یثرب کے لوگو، تمہارے لیے اب ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، پلٹ چلو‘‘ جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبی سے رخصت طلب کر رہا تھا کہ ‘‘ہمارے گھر خطرے میں ہیں،‘‘ حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے، دراصل وہ (محاذ جنگ سے) بھاگنا چاہتے تھے‘‘ بلکہ ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ ’’اور سچے مومنوں (کا حال اْس وقت یہ تھا کہ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ ‘‘یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اْس کے رسول? کی بات بالکل سچّی تھی‘‘ اِس واقعہ نے اْن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔(یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو اْن کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کر لے، بے شک اللہ غفور و رحیم ہے۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں مصر کاسیاسی مستقبل کا کچھ اس طرح کا نظر ا?تا ہے کہ ’’اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے، اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا، اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے‘‘۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا