English   /   Kannada   /   Nawayathi

نریندر مودی جی! کیا ہوا تیرا وعدہ؟

share with us

اسی کے ساتھ جہاں مدھیہ پردیش کے ویاپم گوٹالہ نے ’’کرپشن فری حکومت‘‘ کے وعدوں کی پول کھول دی وہیں راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھراراجے سندھیا اور سابق کرکٹ کمشنر للت مودی کے تعلقات بھی زیر بحث رہے۔دوسری طرف مودی حکومت کے وزراء کے خلاف بھی سنگین الزامات سامنے آئے۔ وزیرخارجہ سشما سوراج، وزیر برائے فروغ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی ، وزیر مملکت وی کے سنگھ متعدد تنازعات میں گھرے رہے وہیں یہ سال جاتے جاتے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو بھی جھٹکا دیتا گیا۔ہر سال کی طرح 2015 میں بھی کچھ تناعات رہے اور ان سے اپنے حساب سے نمٹنے کی کوشش بھی ہوئی، لیکن کچھ ایسے مسئلے چھائے رہے جو تقریبا پورے سال ہی لوگوں کی توجہ کھینچتے رہے۔ رادھے ماں کے ویڈیو سے لے کر مارک زکربرگ اور مودی کی ملاقات تک شاید ہی کوئی موقع بغیر تنازعہ کے گزرا ہو۔ یہ سال ملک کے سابق صدر اور معروف سائنس داں اے پی جے عبدالکلام کی جدائی کا سال بھی رہا۔ یعقوب میمن کی پھانسی بھی سرخیوں میں رہی اور حقوق انسانی کی تنظیموں کی طرف سے پھانسی کی سزا پر سوال اٹھائے گئے۔ ملک کے زیادہ تر گھروں کے باورچی خانے میں جگہ بنا چکی میگی نوڈلز پر تب اچانک بجلی گری جب اس کی پیداوار سے لے کر فروخت تک پر پابندی لگا دی گئی۔ ویسے، میگی کی الوداعی ،بھارتی مارکیٹ سے جتنی بحث
میں رہی، اسی طرح ٹیسٹ میں پاس ہونے کے بعد اس کی واپسی بھی ہوئی۔یونہی ’’عدم برداشت ‘‘ ’’ایوارڈ واپسی ‘‘اور ’’بیف‘‘ کے تنازعات نے لوگوں کی توجہ کھینچی۔
مودی سرکار کے خلاف مایوسی
مودی حکومت کے خلاف عوام و خواص میں مایوسی رہی۔ عام لوگوں کو جہاں پیاز، دال اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کے سبب پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا وہیں ارون شوری اور رام جیٹھ ملانی جیسے بی جے پی کے لیڈران بھی اس کے خلاف کھڑے دکھائی دیئے۔ شوری نے اپنے ہی وزیر اعظم کو ہر محاذ پر ناکام قرار دیا تورام جیٹھ ملانی اس قدرناراض دکھائی دئے کہ انھوں نے بہار میں بی جے پی کو شکست دینے کی عام سے اپیل کی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے اس لئے اچھا رہا کہ انھوں نے دنیا بھر کے دورے کئے اور خوب مزے لئے مگر بی جے پی کے لئے خراب سال رہاہے کہ پہلے دلی اور پھر بہار میں اسے عوام نے بری طرح شکست دیا۔
کانگریس کے لئے امیدوں کا سال
جہاں ایک طرف بی جے پی کو اس سال کچھ خاص حاصل نہیں ہوا وہین کانگریس کے لئے یہ امیدوں کے جاگنے کا سال رہا۔ گزشتہ سال اسے بری طرح شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ لوک سبھا الیکشن ہارنے کے بعد اس نے مہاراشٹر اور ہریانہ میں بھی ہار کا منہ دیکھا تھا اور سمجھا جارہاتھا کہ وہ ملک سے ختم ہوجائیگی مگر ایسا نہیں ہوا اور اب بی جے پی کی ناکامیوں میں وہ اپنے لئے زندگی کی کرن تلاش کر رہی ہے۔ بی جے پی سرکار کے خلاف عوام کا خم وغصہ بڑھ رہاہے اور کانگریس کو لگتا ہے کہ اسے موجودہ ماحول کا فائدہ ملے گا۔ راہل گاندھی بھی اب نئے اوتار میں دکھائی دے رہے ہیں اور بہار میں کانگریس کو ملنے والی سیٹوں میں ان کا کچھ عمل دخل ہو یا نہ ہو مگر کانگریسیوں کے اندر ہمت ضرورآئی ہے۔
ویاپم گھوٹالہ 
مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال واقع کاروباری امتحان بورڈ (ویاپم) ایک قومی مسئلہ بن گیا جب اس سے منسلک گھوٹالے کی رپورٹنگ کر رہے ایک نیوز چینل کے رپورٹر کی مشکوک حالت میں موت ہو گئی۔ مختلف ملازمتوں کے لئے مدھیہ پردیش کے امتحان بورڈ ’’ویاپم‘‘ کے امتحانات میں ہوئی مبینہ دھاندلیوں میں ریاست کے گورنر سے لے کر وزیر اعلی تک تمام الزامات کے گھیرے میں آتے گئے۔ اوپر سے اس گھوٹالے سے وابستہ لوگوں کی اچانک ہو رہی اموات نے بھی اس پورے معاملے کو سنسنی خیز بنا دیا۔یہ معاملہ کتنا بڑا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں گورنر، وزیر، سنتری، ڈاکٹر، ٹیچر تمام ملزم ٹھہرائے گئے ہیں۔ اس کیس میں اب تک ہزاروں لوگ ملزم بنائے جا چکے ہیں، سینکڑوں لوگ جیل کے پیچھے ہیں اور سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کی جان گئی ہے۔معاملے کی تحقیقات اب سی بی آئی کے ہاتھوں میں ہے۔

بیف کو لے کر سڑک پر اشتعال
مارچ میں مہاراشٹر حکومت نے بیف کے استعمال، فروخت پر پابندی لگا دی تھی جس کی حمایت اور مخالفت میں ملک بھر میں آوازیں اٹھنے لگیں۔ معاملہ اس وقت اور بحث میں آیا جب ستمبر میں بامبے ہائی کورٹ نے عیدبقرعید کے دوران بیلوں اور بچھڑوں کی قربانی کی اجازت مانگنے والی درخواست کو خارج کر دیا۔ مہاراشٹر کی دیکھا دیکھی بہت سی ریاستوں نے بھی بیف پر پابندی کا اعلان کر دیا۔ اس وقت بات کچھ پھیل گئی جب دہلی سے ملحق دادری علاقے میں ہجوم نے بیف کھانے کے شک میں اخلاق نام کے شخص کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا۔اس سلسلے میں بی جے پی لیڈروں کی طرف سے متنازعہ بیانات نے آگ میں گھی ڈالنے اکا کام کیا۔ اس کے بعد گائے کے گوشت کو لے کر مسلسل تشدد کی خبریں آتی رہیں۔ جموں و کشمیر کے آزاد ایم پی انجینئر راشد نے گوشت پر پابندی کے خلاف بیف پارٹی دی جس کی وجہ سے اسمبلی میں بی جے پی ممبران نے ان کی پٹائی کر دی۔
عدم برداشت کا مسئلہ
کیا ملک میں عدم برداشت کا ماحول بنتا جا رہا ہے؟ 2015 میں بھارت کے سامنے یہ سب سے بڑا سوال تھا ،جس کے جواب کی تلاش میں پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس بھی گزر گیا۔ عدم برداشت یا ’’انٹارلیرینس‘‘ نے 2015 میں اخبار کے پہلے صفحے پر سب سے پہلے کب جگہ بنائی، بتانا تھوڑا مشکل ہے، لیکن اس سال ہوئی تشدد کی وارداتوں نے مل جل ایک سوال کھڑا کیا کہ کیا واقعی میں ملک میں عدم برداشت کا ماحول بنتا جا رہا ہے؟ کنڑ ادیب ایم ایم کلبرگی کے قتل سے لے کر دادری میں اخلاق کی موت اور عامر خان کے ’’ملک چھوڑنے‘‘ والے بیان نے یہ بحث شروع کر دی کہ ہندوستان کی شناخت رواداری کا رنگ برقرار ہے یا بیکار ہے؟ عدم برداشت کے مسئلے پر ملک دو خیموں میں بھی تقسیم ہوگیا۔ جہاں روشن خیال طبقے کے بہت سے لوگوں نے ملک سے برداشت کا جذبہ ختم ہونے پر تشویش کا اظہار کیا، وہیں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جو ان سے متفق نہیں تھے۔
160ایوارڈ واپسی کا دور
ملک میں مبینہ طور پر پھیل رہی عدم برداشت نے ہی 2015 کے ایک اور بڑے معاملے کو جنم دیا جسے ’’ایوارڈ واپسی‘‘ کا نام دیا گیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں ادیبوں، قلم کاروں اور فلم ، تاریخ، سائنس ودوسرے شعبوں سے وابستہ ہستیوں نے اپنے ایوارڈ واپس کئے۔اس کے خلاف حکومت اوراس کے حامیوں کی طرف سے جو رویہ اپنایا گیا وہ مسئلے کو سلجھانے کے بجائے مشتعل کرنے والا تھا۔ حالانکہ ایک طبقہ احتجاج سے متفق تھا مگر احتجاج کے طریقہ کے خلاف تھا۔وہیں انوپم کھیر کھل کر حکومت کی حمایت میں کھڑے نظر آیا اور ’’ایوارڈ واپسی مہم‘‘ کی مخالفت میں دہلی میں ایک مارچ کی قیادت کی اور صدر سے ملاقات کی۔ اسی کے ساتھ سب سے متنازعہ مسائل میں سے ایک بھارتی فلم اور ٹیلی ویڑن انسٹی ٹیوٹ (پونے) کے نئے صدر کے طور پر گجیندر چوہان کی تقرری کا بھی رہا جس پر طلبہ نے سخت احتجاج کیا۔

گجرات کی پٹیل تحریک 
وزیراعظم نریندر مودی کے گڑھ کہے جانے والے گجرات میں ہاردک پٹیل کی قیادت میں پٹیل تحریک نے جنم لیا جس نے ریاستی حکومت کو خوفزدہ کیا۔ اس کی مانگ تھی کہ پٹیلوں کو ریزرویشن دیا جائے۔ 25 اگست کو احمد آباد میں ریلی منعقد ہوئی جس میں تقریبا پانچ لاکھ لوگ پہنچے۔ریلی میں تب تشدد بھڑک گئی جب پولیس نے ہاردک کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد تو گجرات میں توڑ پھوڑ اور آتش زنی کا دور شروع ہو گیا۔ تقریبا سوا سو گاڑیاں پھونک ڈالی گئیں، 16 تھانے جلائے گئے اور ایک شخص کی موت ہو گئی۔
یوگا میں سیاست کے رنگ
وزیر اعظم نریندر مودی کی درخواست پر اقوام متحدہ نے 21 جون کو بین الاقوامی ’’یوگا ڈے‘‘ اعلان کیا۔ اس موقع پر دہلی میں ایک بہت بڑا انعقاد کیا گیا جس میں راج پتھ پر وزیر اعظم کے ساتھ ہزاروں لوگوں نے حصہ لیا مگر یہ بھی تنازعہ کا شکار رہا اور خاص طور پر مسلمانوں کی طرف سے اس پر کئی اعتراضات کئے گئے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا