English   /   Kannada   /   Nawayathi

آسمان سے آگ برسے یا بم گریں -مذاکرات کو جاری رہنا چاہئے

share with us

پارلیمنٹ پر حملہ ہو یا 26/11ہو یا ہمارے جوانوں کا سرکاٹ کر لے جانے کی وجہ سے ہمارے دلوں میں آگ لگاناہو یا کارگل ہو ۔ یہ واقعہ اس وجہ سے ہوا کہ دونوں دشمن دوست نہ بن سکیں ۔ پاکستان میں جو طاقتیں اس کی مخالف ہیں وہ ان کا کاروباور اور روزی روٹی ہے ۔ مشترک ہندوستان میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کا مرجع اجمیر،بہرائچ،دیوہ،سرہند،بریلی اور دیوبند تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد اور آمد ورفت پر پابند ی کے بعد پاکستان کے مسلمانوں نے مجبور ہو کر انہیں اپنا آقا مولیٰ بنالیا جس نے انہیں اپنے لچھے دار باتوں میں انہیں پھانس لیا ۔ 
تاریخ سے باخبر حضرات کو یادہوگا کہ جس وقت غلام محمد صاحب کے گورنر جنرل تھے اس وقت وہ اپنے پیر صاحب کے مزاردیوہ(بارہ بنکی )آئے تھے ۔ اور یہ تو زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ پرویزمشرف اور اٹل جی کی گفتگو جب آگرہ میں ناکام ہوئی تو مشرف صاحب نے کہا تھا کہ غلطی یہ ہوئی کہ میں نے مذاکرات کے بعد اجمیر جانے کا پروگرام بنایاتھا ۔ اس کے بعد وہ دوبارہ آئے تو پہلے اجمیر گئے وہاں چالیس میٹر کی چادر چڑھائی نقد روپئے برسائے ۔ اس کے بعد مذاکرات کی میزپر آئے ۔ پاکستان کے نئے صدر اجمیر آئے تو وزیراعظم منموہن سنگھ نے سلمان خورشید کو جے پور بھیجا جس پر مودی صاحب نے برسوں شور مچایا کہ ہمارے جوانوں کے سرکاٹنے والوں کو سلمان خورشید بریانی کھلانے کے لئے اجمیر گئے تھے ۔ اور یہ کون بھول سکتاہے کہ آصف زرداری اجمیر آئے اور پانچ کروڑ روپئے مزار کو دے گئے ۔ 
پاکستان کے پیروں فقیروں اورسجادہ نشینوں کو اس کا خطرہ ہے کہ اگر ہندوستان جانا اتنا ہی آسان ہوگاکہ ہرکوئی جاسکے تو ہماری تعویذ گنڈوں اور دوسری دوکانیں بند ہوجائیں گی۔ اس کے لئے وہ ایک پٹھان کوٹ نہیں دس پٹھان کوٹ کرڈالیں گے لیکن دوستی نہیں ہونے دیں گے ۔ 
شری نریندرمودی نے بہت صحیح طریقہ اپنا کہ براہ راست نوازشریف کو ٹیلی فون کیا ۔ اور جوکچھ اور جس لہجہ میں کہنا تھا وہ کہا اور جس کی تو قع تھی وہ جواب بھی مل گیا ۔ جہاں تک
بات ان تین اور لکھوی کوشامل کرلیا جائے تو چارشیطانوں کی ہے تو ان کی حیثیت پاکستان میں وہی ہے جو ہمارے ہندوستان میں نکسلیوں اور ماؤوادیوں کی ہے۔ نکسلیوں نے سیکڑوں جوانوں کو موت کی نیندسلادیا ۔ برسوں سے یہ سلسلہ چل رہاہے اور حکومت جس کی بھی ہو وہ خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتاہے ۔ جب کہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ انہوں نے گھنے جنگلوں کواپنی پناہ گاہ بنا رکھا ہے۔ اور اگر ماہرکمانڈوز کے سپردیہ کام کیا جائے کہ وہ ہرٹھکانے پر بم برسائیں او رسب کو ٹھکانے لگادیں تو یہ ناممکن نہیں ہے ۔ لیکن 1998سے2004تک اٹل جی حکومت کر کے چلے گئے پھر دس بررس درپردہ سونیا حکومت کے چلی گئیں اور اب 19مہینیس ے مودی صاحب برسراقتدار ہیں ۔ کسی کی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ نکسلیوں سے آرپارکی لڑائی لڑیں ۔ رہی یہ بات کہ اس کا سبب کیا ہے تو یہ معلوم سب کو ہے لیکن زبان سے کوئی نہیں بتائے گا۔ جھارکھنڈ میں ایک ملیٹری وین میں 22افسر اور جوان گھوم رہے تھے ۔ ایک بارودی سرنگ پھٹی اور سب کے ٹکڑے اڑے گئے ۔ اس وقت شیبوسرین وزیراعلیٰ تھے ۔ انہوں نے روتے روتے کہا کہ یہ سب اپنے ہی بچے ہیں ۔ ناراض ہوگئے ہیں ۔ لیکن دیرسویر ہی ہم انہیں منالائیں گے۔ 
یہی حال پاکستان کا ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ان چاروں کو بند کر وان کے اوپر سیکڑوں بے گناہوں کے قتل کے مقدمے چلاؤ۔ اوروہ دل ہی دل میں کہہ دیتے ہیں لکہ یہ اپنے ہی بچے ہیں ۔ 
شری مودی جی نے جس طرح پیرس میں کان سے منھ لگا کر گفتگوکی تھی یا جیسے سشماسوراج نے دل کو موہ لینے والی اردومیں بات کی ‘یا جیسے مودی صاحب دھم سے لاہورمیں جاکودے۔ اور ثابت کیا کہ 
ع جو کام کیا ہم نے وہ رسم سے نہ ہوگا
اس طرح یہ فیصلہ کرلیں کہ ہندوستان میں بم کے دھماکے ہورہے ہوں ۔ یا پاکستان میں نواز اورمودی مردہ باد کے جلوس نکل رہے ہوں ۔ مذاکرات کو انجام تک پہنچاکر ہی اب اٹھنا ہے۔ اس لئے کہ اگر اس بارپٹھان کوٹ کے ذریعہ مذاکرات ملتوی کرانے میں شیطان کامیاب ہوگئے تو پھر کوئی ایسانہیں ہے جسے پوری بی جے پی اور پورے سنگھ پریوار کی حمایت بھی حاصل ہو اورلوک سبھا میں اس کی حمایت میں ووٹ دینے والوں کی تعداد بھی 300ہو اور اسے امریکی صدر کی ایسی حمایت بھی حاصل ہو ۔ 
این ڈی ٹی وی انڈیا کی سنجیدگی کے ہم برسوں سے قائل ہیں ۔ لیکن وگیان پرکاش جو ممتازصحافی ہیں وہ اس نازک موقع پر بھی ہر دن 2013میں دئے گئے مودی کے بیانات کہ لولیٹر پاکستان کو لکھناچھوڑو۔پاکستان سے اس زبان میں بات کروجس میں وہ بات کرتاہے ۔ وہاں کے دہشت گردوں سے بھی ان کی ہی زبان میں بات کرو۔ ایسے تمام بیانات ہم نے بھی سنے ہیں ۔ لیکن یہ سب وہ ہیں جو حزب مخالف میں رہتے ہوئے ۔ اور حکومت حاصل کرنے کیلئے سب دیتے ہیں ۔ لیکن جب حکومت کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں تو مودی ہی نہیں ہرکوئی بدل جاتاہے ۔ اس ٹی وی کو اپنا رویہ بدلنا چاہئے کیوں کہ وہ اس کی روایت کے خلاف ہے۔ 
کابل سے اچانک مودی کا لاہورآناایساہی فیصلہ تھا جیسااٹل جی نے دوستی بس لاہور سے جاکر کیا تھا ۔ وہ جب حزب مخالف کے لیڈر تھے تو کیا کم زہر برساتے تھے؟اور یہ توخبروں میں آچکا ہے کہ مودی واپس آکر اٹل جی سے ملے اور ان کی طرف سے انہیں شاباشی دی گئی ۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ آرایس ایس کے سابق ترجمان اوراب بی جے پی کے بہت طاقت ور جنرل سکریٹری رام مادھونے کہہ دیا کہ پاکستان سے تعلقات اچھے ہوجائے تو بنگلہ دیش سے بلوچستان تک سب ایک اکھنڈ بھار ت بن جائے گا۔ انہیں یہ اس لئے کہنا پڑاکہ ان کے خیمہ میں جورام مندر کی ڈگڈگی بجانے والے ہیں وہ پاکستان کی دوستی کے نام پر بھڑک نہ جائیں ۔
رام مادھو کے بیان سے مسلمانوں پر تو کوئی اثر اس لئے نہیں ہوگا کہ اگر ڈاکٹرلوہیا اور سماجوادی پارٹی کے نظریہ کے مطابق تینوں ملک ایک ہوجاتے ہیں تو مسلمانوں کی آباد ی 60فیصد ہوجائے گی ۔ اور اگر انہوں نے اونچی ذات کے ہندوؤں کے مظالم برداشت کرنے والے دلتوں کو ملالیا توآسانی سے مسلمان حکومت بھی بناسکتے ہیں ۔ اور پھر وہ ہوسکتاہے کہ جس کا ہندوتصوربھی نہیں کرسکتا۔ پوری دنیا میں اکھنڈ نیپال جب اکھنڈ نہ رہ سکا تو ہندوستان کو اکھنڈ بنانے کا خواب دیکھنے والوں کو اس کا نقشہ ملک کے سامنے پیش کردیناچاہئے۔
کانگریس اور دوسری پارٹیوں کے حلق سے مودی صاحب کا یہ اقدام نہیں اتررہا ۔ ان کا ایک ہی اعتراض ہے کہ وہ اکیلے کیوں کررہے ہیں ؟ہماری طرح سوچنے والے یہ سوچ رہے ہیں کہ پچاس برس سے جوہوتا رہا وہ ایسا ہی عمل تھا جیسے دفتروں میں فائل چلتی ہے۔ اٹل جی نے پہلے ایک انقلابی قدم اٹھا یا ۔اور اب مودی صاحب آکر اٹھارہے ہیں تو ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ مقصد توپھل کھانا ہے پیڑ گنتے گنتے تو آدھی صدی ہوگئی ۔ رہا یہ مسئلہ کہ پہلے دہشت گردی بند ہو اور پہلے کشمیر کا مسئلہ حل ہو اس کے انتظارمیں یہ حکومت بھی اگر چلی گئی یا نواز شریف کے بجائے کوئی غیر شریف آگیا توکیا ہوگا۔؟اس لئے جوہورہا ہے اسے ہوجانے دیا جائے ۔ اس لئے کہ دونوں کی ترقی اور زندگی دوستی میں ہی ہے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا