English   /   Kannada   /   Nawayathi

یہ عدم تحمل نہیں،کھلی جارحیت اورظلمت پسندی ہے

share with us

جس کی لئے کو اٹھانے والوں میں ڈاکٹرامبیدکر نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ ’ہندتووا‘ اور’ہندوراشٹر ‘کے نظریہ میں اوراس نظریہ میں جس سے ڈاکٹرامبیدکر پہچانے جاتے ہیں، آگ اورپانی کا بیر ہے۔ اس کے باجود سرکار میں بیٹھے آرایس ایس کے پرچارکوں نے اس اجلاس کا اہتمام کیا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے:’’ یہ لوگ کیوں میرے زخم جگر کو دیکھتے ہیں ؟‘‘ جواب آتا ہے: ’’کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں۔‘‘ اپنے ارادوں اورمنصوبوں پر یہ پردہ داری بہاراسمبلی اور مدھیہ پردیش میں رتلام ۔جھبوا پارلیمانی سیٹ کے نتائج کے بدولت ہے۔مودی، شاہ، جیٹلی اورراجناتھ کی چوکڑی اور ناگپور میں تشریف فرما ان کے سپرباس کی سمجھ میں شاید یہ بات آگئی ہے کہ عوام نے یہ جواب ان کی ہیکڑی کا دیا ہے۔جبراورتشدد کی حکمت عملی کا دیا ہے۔ تبھی تو سنگھ نے بھی کلبرگی کی ہتیا پر اب جاکر تعزیت کردی ہے۔ ہرچند کہ درد کا اظہار بروقت ہوتا ہے مگر دیرآید درست آید۔
ڈاکٹرامبیدکرایک غریب دلت خاندان میں پیدا ہوئے۔وہ اپنے 14بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے والد رام جی مالوجی سکپال فوج میں صوبیدار تھے ۔آمدنی کم تھی اورخرچہ زیادہ۔ اس دور میں تعلیم کا چرچا بھی عام نہ تھا۔ مگر خداداد ذہانت اور لگن سے لیاقت کی وادیاں عبور کرتے چلے گئے۔ ان کا عزم اورحوصلہ کے سامنے مشکل راہیں کھلتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ وہ اعلا تعلیم کے لئے برطانیہ چلے گئے، جو اس دور میں بڑے بڑوں کے لئے بھی طر�ۂامتیاز تھا۔ وہاں کے اعلا ترین تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کیں۔ دلت اوراچھوت ہونے کے باوجود اپنی علمیت اور عزیمت کی بدولت وہ تحریک آزادی اورآزاد ہندستان کے مستقبل کے معماروں شامل ہوگئے ۔ان کے درمیان نمایاں مقام حاصل کرسکے۔ سماجی انصاف کے لئے ان کی جدوجہد کے سامنے گاندھی جی کو بھی سپرانداز ہونا پڑا۔1932میں پونا معاہدہ کرکے دلتوں کے لئے ڈاکٹربھیم راؤ امبیدکر کی فکرمندی پر گاندھی جی اورکانگریس قیادت نے جس جرأتمندانہ فراخدلی کا مظاہرہ کیاتھا، ہم اس کا احترام کرتے ہیں، لیکن اس تاسف کے ساتھ کہ اگر گاندھی جی نے مسلم اقلیت کی فکرمندی کو بھی ایسی ہی اہمیت دیدی ہوتی، متناسب نمائندگی کی تدبیر کو ٹھکرایا نہ ہوتا تواس خطے کواس کرب سے نہ گزرنا پڑتا جس کو ہم تقسیم ہند کے نام سے جانتے ہیں۔
27نومبر بروز جمعہ لوک سبھا اوریکم دسمبر بروزمنگل راجیہ سبھا سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے آئین کے تحفظ ، اس میں درج حقوق اورذمہ داریوں کے تحفظ کی جو یقین دہانیاں کرائی ہیں، ان کے الفاظ اوراندا ز بیان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ہرچند کہ اس سے پہلے انہوں نے گزشتہ دو سال یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے جو باتیں کہیں وہ بھی لاجواب تھیں۔ لیکن ان پر اظہار اطمینان و مسرّت کرتے ہوئے غالب ؔ یہ شعرآڑے آتا ہے:
تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا 
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
مودی صاحب نے آئین کے نفاذ کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر گجرات میں منائی گئی تقریب کا ذکر کرتے ہوئے یاد دلایا کہ آئین کو ایک ہاتھی پر سجا کر ریلی نکالی گئی تھی ،جس کے آگے آگے وہ وزیر اعلا کی حیثیت سے پیدل چلے تھے، تاکہ آئین کے تئیں احترام کا اظہارہوسکے اورعوام تک یہ پیغام پہنچ سکے۔ جب ہم ان کے یہ الفاظ سن رہے تھے، تبھی بیک گراؤنڈ میں واجپئی جی کے الفاظ گونج رہے تھے: ’’مکھیہ منتری جی اپنا راج دھرم نبھائیں۔انہوں نے اپنا راج دھرم نہیں نبھایا۔ میں دنیا کو کیا منھ دکھاؤنگا؟‘‘
ہاتھی کو سجا کر، اس پرآئین کو بٹھا کراظہار احترام کا یہ تماشہ صرف علامتی تھا ۔ یہ اقدامی اورعملی احترام نہیں تھا جوآئین میں درج الفاظ سے مطلوب ہے۔ کاغذ کی کتاب کو نمن کرلیا اوراس میں جو لکھا ہے اس کا دمن کردیا، آئین کا احترام نہیں ہے۔
واجپئی جی کی یہ نصیحت 13سال پرانی ہے۔اس دوران مودی جی نے سیاست میں لمبی چھلانگ لگائی ہے۔ وہ گاندھی نگر سے نئی دہلی پہنچ گئے ہیں۔ ایک چھوٹی ریاست کے وزیراعلا سے، ایک بڑے ملک کے وزیراعظم بن گئے ۔ انہوں نے واجپئی جی کے اس نصیحت کا کیا اثرلیا ؟ کتنا قبول کیا؟ ان سوالوں کا جواب ہمیں ان کی خاموشی میں بھی ملتا ہے اوران کی گویائی میں بھی۔ پچھلے 16ماہ کے دوران اکثریت کی ثقافتی جارحیت پسندی، غنڈہ گردی، ظلم وزیادتی، بدکلامی اورہلاکتوں کے ایک دو نہیں، کتنے ہی واقعات ہو ئے ہیں۔ مگر مودی جی خاموش رہے۔ان کا ٹوئیٹر ہرچھوٹی بڑی بات پر بول اٹھتا ہے۔ مگر ان واقعات کا انہوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ انہوں نے جس آئین کاحلف لیکر وزیراعظم کا منصب سنبھالا، اس نے ملک کے تمام باشندوں کو کچھ بنیادی حقوق عطا کئے ہیں۔ان حقوق کی حفاظت ان کی آئینی ذمہ داری ہے۔ تشدد کے یہ تمام واقعات عوام کے ان حقوق پر گھاتک حملہ ہیں۔ اگر آئین کا احترام دل میں ہوتا تو وہ ان پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔ بیچین ہوجاتے۔ نہیں ہوئے اورخاموش رہ کر ان کو صاد کردیا۔ یہ ان کی خاموشی تھی ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بہار کے اسمبلی انتخابات کے دوران انہوں نے تقریبا ڈھائی درجن ریلیوں سے خطاب کیا۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ملک کے وزیراعظم نے اپنی پارٹی کو ریاستی انتخابات میں جیت دلوانے کی نیت سے اقلیتوں کے بنیادی حقوق کو زد پہنچانے والی اورملک میں ان کے خلاف ماحول کومکدرکرنے والی باتیں کہیں۔ان کو اپنے منصب کے شایان شان آئین کے عملی احترام کا مظاہرہ کرنے میں بیشک چوک ہوئی ہے۔ دل میں جو ہے وہ تو دنیا کو معلوم ہے۔ کم از کم دکھاوا ہی کرلیتے ۔ مگر وہ بھی نہیں ہوسکا۔ اس سے ان کے قلب و ذہن کی سیاہی عیاں ہوتی ہے۔
یہ درست ہے کہ اقلیتوں کے خلاف اس طرح کی حرکتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔چشم پوشی سے کام گزشتہ حکومتوں نے بھی لیا۔ اقلیتوں کی شناخت اورساکھ کو مٹانے کی تدابیر ہوتی رہی ہیں، ان کے خلاف فضاسازی ہوتی رہی ہے،لیکن مودی جی کے برسراقتدارآنے کے بعد ان کے پریوار کے درجنوں دلوں اورسیناؤں نے جس مجرمانہ حوصلہ مندی سے اقلیتوں اوردلتوں پر حملے کئے ہیں، ان کی کوئی مثا ل نہیں ملتی۔ان کا نوٹس یہاں کے دانشوروں، ادیبوں اور صاف ذہن برادران وطن نے ہی نہیں بلکہ بیرون ملک کے تجزیہ نگاروں اورمشاہدین نے بھی لیا ہے۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ جبر و تشدد اور ثقافتی جارحیت کی اس ذہنیت اوراس کے زیراثر ان سنگین جرائم کو ہلکا کرنے کے لئے ان کو دانستہ یا ناداستہ طور سے intolerance یا عدم تحمل ، عدم رواداری اورعدم برداشت کا نام دیدیا گیا ہے۔ہم ببانگ دہل یہ کہنا چاہتے ہیں ہندستان کی غیرہندو اقلیتیں،خصوصاعیسائی اورمسلمان اپنے برابر کے حق سے اس ملک کے شہری ہیں۔ ہمیں اس ملک کے آئین نے کچھ حقوق دئے ہیں، ہم ان سے زیادہ طلب نہیں کرتے۔ہمارے درمیان کوئی ہردیک پٹیل نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی سکھائی اورپڑھائی ہوئی متعصب طاقتوں کی منھ بھرائی کے لئے ہم اپنے حقوق سے دستربرداری منظورکرلیں، ان سے کم پر راضی ہوجائیں اور نہ ہوں تو آپ کہیں کہ ہماری برداشت اور رواداری کی حد ختم ہوگئی اورآپ ہم پر حملہ آور ہوجائیں اوراس عسکریت اورجارحیت پسندی کو عدم رواداری اورعدم برداشت کا نام دے کراس جرم کو ہلکا کرلیں، ہمیںیہ بات کیسے منظورہوسکتی ہے؟ ہمیں دوٹوک الفاظ میں کہنا چاہئے آئین اورقانون کے حدود میں جو حقوق ہر ہندستانی شہری کو حاصل ہیں، ان سے متصادم آپ کے مطالبات کو تسلیم نہ کرنا نہ کوئی جرم ہے اور نہ کسی حق کی پامالی ، اس لئے آپ کو ہرگز یہ حق نہیں کہ کسی کو اس کے گھر سے نکال کر مارڈالیں اوراس سنگین جرم کو گائے کا لبادہ اڑھاکر صرف عدم رواداری اورعدم برداشت کا نام دیدیں۔جناب وزیراعظم صاحب، آپ اسی آرایس ایس کا انگ ہیں جس نے ہندستان کے مٹھی بھر بھولے بھالے باشندوں کوورغلا کر ان کے ذہنوں میںیہ خناس بٹھادیا ہے کہ ہندستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے۔ ہمیں اپنے ہندو بھائیوں سے کوئی شکایت نہیں۔ شکایت ان مٹھی بھر لوگوں سے ہے جو آئین کا احترام نہیں کرتے (عملاً آپ بھی نہیں کرتے) اورچاہتے ہیں ہرفرقہ، ہرمکتب فکر آپ کے غیر واجب جذبات کے احترام میں سرنگوں ہوجائے؟یہ ممکن نہیں۔ 
اس بحث کے دوران وزیرپارلیمانی امور نے یہ تسلیم کیا کہ ہاں ’عدم برداشت‘ ( جس کا صحیح نام ثقافتی جارحیت پسندی ہی ہے) پائی جاتی ہے لیکن اس کی مذمت کی ضرورت نہیں سمجھی بلکہ وزیرداخلہ نے کچھ سابقہ تکلیف دہ واقعات کا حوالہ دے کر اس ذہنیت کا دفاع کرنے کی کوشش کی جس کو ان کی پارٹی ہوا دیتی رہی ہے۔ ارن جیٹلی نے ان واقعات پر پرامن احتجاج اور ایوارڈس واپس کئے جانے کو ’’مصنوعی الزام تراشی‘‘ قرار دیکر اس حقیقت کو جھٹلانا چاہا جس کا مسٹرنائیڈو نے دبے لفظوں میں اعتراف کیا تھا۔ وزیرداخلہ اور وزیر مالیات کے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی پارٹی کو اس جارحیت پسندی سے کوئی تکلیف نہیں، البتہ اس کے خلاف آواز اٹھایا جانا ان کو ناگوار ہے۔ تاہم پارٹی کے ترجمان ایم جے اکبر نے انتخابات کے دوران فرقہ ورانہ بیانات پر شائستہ انداز میں گرفت کی اوران سے ملک کو نجات دلانے کا صائب مشورہ بھی دیا۔ اس بحث کے دوران پہلی مرتبہ راہل گاندھی جوش سے بولے مگر ہوشمندی کے ساتھ۔ اس کا سب سے افسوسناک پہلو راجناتھ سنگھ کا سیکولرزم پر اعتراض اور یہ بیان ہے کہ اس پر غورہونا چاہئے۔ یہ درست ہے آئین کے ابتدائیہ میں یہ لفظ بعد میں شامل ہوا، مگر پورے آئین کی روح تو یہی ہے۔ سیکولر ہونے کا مطلب مذہب بیزاری نہیں، بلکہ تمام باشندوں کی آزادی کا احترام ہے کہ ان کا عقیدہ کچھ بھی کیوں نہ ہو ، ان کے شہری حقوق پر آنچ نہیں آئیگی ۔ جیٹلی جی کو ہم جنس پرستوں اوراغلام بازوں کے حقوق تو یاد رہے، اقلیتوں، دلتوں اورخواتین کے حقوق کو وہ بھول گئے۔ 
اہم اورآخری بات یہ ہے آئین کی بالادستی کی یہ باتیں بہار اورجھبوا۔رتلام نتائج کے پس منظر میں ہورہی ہیں۔ ابھی عنقریب چند ریاستوں میں اورچناؤ ہونے والے ہیں اوربھاجپا کے ارباب حل وعقد کو یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ ملک کے عوام ابھی بھگوا رنگ میں نہیں رنگے گئے ہیں۔ اس لئے کچھ چال بدلنی ہوگی کہ چناؤ میں شرمناک شکستوں سے بچا جاسکے۔ مگر ہندستا ن کے عوام بے وقوف نہیں۔ انہوں نے وہ باتیں بھی سنی ہونگی جو نہایت ہوشمندی اورسلاست کے ساتھ اسدالدین اویسی نے کہیں، کماری شیلجا نے کہیں اور دیگر مقررین نے کہیں۔ اس کا ایک خوش آئند پہلو یہ ہے کہ بھاجپا نے اپنے منھ پھٹ ممبران کو آگاہ کردیا ہے کہ وہ منھ کھولنے سے پہلے سوچ لیا کریں ۔ امید کہ اس انتباہ کا کچھ اثر ہوگا اور زہرافشانی میں کمی آئیگی۔
اپنی تقریر کے دوران مودی جی نے دوافراد کی مثالیں بھی دیں۔ ایک کشمیر کا نوجوان ہے جس نے معذووری کے باوجود حوصلہ نہیں ہارا۔ ایک کانپور کی ایک دیہی خاتون ہیں جو سولر لالٹین چارج کرکے اپنا گزارہ چلاتی ہیں۔یہ دونوں مسلمان ہیں۔ ان کا یہ انتخاب قابل ستائش ہے۔ہم ان کے اس اعلان کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں کہ ہندستان کے کسی باشندے کی قوم پرستی پر سوال اٹھانے کا کسی کو حق نہیں۔ کاش یہ باتیں ان کی جماعت اور پریوار کے لوگوں تک بھی پہنچیں۔ لیکن ہم پھر کہیں گے کہ قول اورفعل کا تضاد جب تک ختم نہ ہوگا ان تقریروں کا مطلوبہ اثر نہ ہوگا۔امید ہے کہ مودی جی تک اقبال ؔ کا یہ شعر پہنچادیا جائیگا۔ جو ان کا نام آتے ہی خود بخود لبوں پر مچلنے لگتا ہے؛
اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں سے موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا