English   /   Kannada   /   Nawayathi

پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی

share with us

عدالت کایہ فیصلہ قانونی برادری ، صحافیوں اورسماجیات کے طلباء کے لئے ایک کارآمد دستاویز ہے ۔ نہایت معلومات افزا اور مستحکم دلائل سے آراستہ اس دستاویز میں برسبیل تذکرہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی صورت میں ہی مسلم فرقہ پر اس قانون کو نافذ کیا جاسکتا ہے اور پھر یکساں سول کوڈ کے متعلق سپریم کورٹ کے بعض بہت مشہور فیصلوں کے حوالے سے یہ کہا ہے کہ حکومت کو اس جانب پیش رفت کرنی چاہئے۔لیکن ساتھ میں یہ نشاندہی بھی کردی ہے ملک میں کئی صدیوں تک جاری مسلم حکمرانی کے دورمیں کبھی ہندوؤ ں کے داخلی عائلی معاملات میں مداخلت کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ 
یکساں سول کوڈ کے معاملہ میں موجودہ حکومت نے بھی وہی موقف اختیارکیا ہے جو سابقہ حکومتوں کا تھا کہ یہ معاملہ حساس ہے۔ اس وقت تک ایسا قانون نافذ نہیں کیا جاسکتا، جب تک متعلقہ فرقہ خود اس پر آمادہ نہ ہو۔اس طرح زیرتبصرہ فیصلے میں نہ صرف یہ کہ عدالت نے مسلم پرسنل لاء میں کوئی مداخلت نہیں کی ہے ،بلکہ اسلام میں کثرت ازدواج سے متعلق جو شرعی پوزیشن ہے اس کا بھی تفصیلی جائزہ بھی پیش کردیا ہے۔ اپنی کم علمی کے باوجود ہمیں اس میں شک نظر نہیں آتا کہ عدالت نے جن پہلوؤں کا جس طرح جائزہ لیا ہے، ان میں نہایت زیرکی اورراست گوئی سے کام لیا ہے۔ قرآن اورسنت کے مستند حوالے دئے گئے ہیں اوران کی جو تعبیروتشریح کی گئی وہ وہی ہے جو فقہا اور شارحین اسلام نے کی ہے۔ لیکن اس فیصلے پر بھی ہمارے بعض محترم دانشوروں، قائدین اور صحافیوں نے سخت تنقید کی ہے۔ اس روش کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہم اپنی رائے اخباروں کی سرخیوں پر قائم کرلیتے ہیں ۔حالانکہ یہ بات بخوبی علم میں ہے کہ کسی واقعہ سے، خصوصاً ہمارے شرعی معاملات میں اخبار اورخبررساں ایجنسیاں جو خبریں اٹھاتی ہیں ان میں توازن کا فقدان ہوتا ہے۔ چنانچہ اس خبر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ بیشتر رپورٹوں میں یہ بات آئی ہی نہیں کہ عدالت نے اصل میں ایک اپیل کنندہ کی عرضی کو منظورکرتے ہوئے ، بھاؤ نگر کی عدالت میں اس کے خلاف پہلی بیوی کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر شادی کا جو مقدمہ اس کی پہلی بیوی کی ایک ایف آئی آر پر قائم ہوا تھا اس کو خارج کردیا ہے۔عدالت کی فیصلے کو پورا پڑھنے کے بعد اندازہ ہو ا کہ فاضل عدالت نے ہمارے سماج میں دوسر ی شادی کی حقیقت پر کس قدر بصیرت افروز گرفت کی ہے جس پر ہماری توجہ کم جاتی ہے۔ ان پہلوؤ ں کا تذکرہ کرنے سے قبل مناسب ہوگا کہ کچھ تفصیل کیس کی بیان کردی جائی۔
ایک خاتون مسماۃ ساجدہ بانومرچنٹ نے بھاؤ نگر مہلا پولیس اسٹیشن میں ایک شکایت درج کرائی ہے کہ اس کے شوہر جعفرعباس رسول محمد مرچنٹ نے اس سے اجازت لئے بغیر ممبئی کی خاتون نرگس بانو سے دوسرانکاح کرلیا ہے۔اس شکایت کی بنیاد پر پولیس نے تعزیرات ہند کے متعدد دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرلی اور جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت میں اس ایف آئی آر کی بنیاد پر مقدمہ درج ہوگیا۔ شکایت کندہ ساجدہ بانو نے دعوا کیا کہ سال بھر تو وہ اپنی سسرال ، رائے پور(چھتیس گڑھ) میں خوش رہی ، لیکن اس کے بعد اس کو ستانا شروع کردیا گیا ۔ اس نے یہ شکایت بھی کی کہ سال گزرنے کے بعد اس سے جہیز کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ اس سے مار پیٹ کی گئی جس سے اس کا حمل گرگیا۔ دوسال بعد وہ اپنے بھائی کے ساتھ گھر چلی آئی اوریہاں دوماہ بعد اس کے یہاں لڑکی کی ولادت ہوئی مگر شوہر اورسسرال والوں نے اس کی کوئی خیر خبر نہیں لی۔اگر ساجدہ کا بیا ن جزوی طور سے بھی درست ہے تو یہ واقعی افسوس کی بات ہے کہ نومولود کی بچی کے والد، دادا دادی اور دیگررشتہ داروں نے اس کی خیر خبر نہیں لی۔
جعفرعباس نے ہائی کورٹ میں عرضی گزاری کی کیونکہ وہ اورساجدہ دونوں مسلمان ہیں، ان کا نکاح قانون شریعت کے مطابق ہوا۔ اس کو شریعت کی رو سے دوسری شادی کا حق ہے۔ اس لئے اس کے خلاف درج مقدمہ خلاف قانون مسلم پرسنل لاء ہے ،اس کو کالعدم کیا جائے۔ اس نے عدالت کو یہ دلچسپ اطلاع بھی دی کہ اس کے ساتھ نکاح سے پہلے ساجدہ کی شادی ممبئی کے ایک شخص محمد شریف پروشوتم خان کے ساتھ 17دسمبر 2008کو ہوئی تھی۔مگر چند ہی ماہ بعد 21مئی 2009 کو طلاق ہوگئی اور خان نے اس کو دولاکھ 38ہزار786روپیہ بمد مہر اور نان ونفقہ مدت عدت بھی ادا کیا تھا۔ جس سے ساجدہ کے وکیل نے انکار نہیں کیا۔لیکن اس سے یہ اندازہ بہر حال کیا جاسکتا ہے کہ ساجدہ کی تربیت میں کوئی خامی تھی کہ وہ ایک نہیں دوسسرالوں میں نباہ نہیں کرسکی۔ لیکن اس کے باوجود شوہر کی یہ ذمہ داری تھی کہ اس کی اوراپنی بچی سے لاپرواہ نہ ہوتا۔
عدالت کی اس کیس میں گہری دلچسپی اس سے ظاہر ہوتی ہے کے اس نے 72صفحات پر مشتمل طویل فیصلہ صادر کیا جس میں بہت سے ایسے پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا جن کو آسانی سے نظرانداز کیا جاسکتا تھا۔ اسلام میں ایک سے زاید شادی کی اجازت کا بھی عدالت نے بخوبی جائزہ لیا ہے اوران محاسن کا اعتراف بھی بالواسطہ کیا ہے جو نظام اسلام کی شان ہیں۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے قرآن کی بعض آیات کا حوالہ دیا ہے۔ سورۃ نساء کی آیت 3کاترجمہ بیان کیا ہے اور تفسیر ابن کثیر، احادیث نبوی اوراسلامی قانون کی معتبرکتابوں کے حوالے سے اس نکتہ پر زوردیا ہے کہ اسلام ایک سے زاید شادیوں کی اجازت تو دیتا ہے مگر ساتھ ہی پورے شدومد سے یہ اصرار بھی کرتا ہے کہ بیویوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے اوران میں سے کسی کو اذیت نہ دی جائی، کسی کے ساتھ نا انصافی نہ کی جائے۔ مذکورہ آیت کا ترجمہ ہے: ’’تو ان (یتیم یا بیوہ )عورتوں میں سے جو تم کو پسند ہوں دو ، دو یا تین تین، یا چار چار شادیاں کرلوں لیکن اگرتم کو اندیشہ ہو کہ تم یکساں برتاؤ نہ کرپاؤ گے توایک ہی پر بس کرو۔‘‘ اور پھر متعدد احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے حقوق کی کس قدر تاکید کی ہے۔
عدالت نے اگرچہ اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ مسلمان مرد قرآن کی اس اجازت سے فائدہ اٹھاکر دوسری شادی تو کرلیتے ہیں لیکن اس ہدایت پرعمل نہیں کرتے جواس آیت میں بہت واضح الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ تمام بیویوں کے ساتھ برابر کا سلوک کیا جائے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ، عدالت نے یہ بات نوٹ کی ہے موجودہ قانون میں کوئی ایسی شق نہیں جوایک بیوی کے ساتھ مرد کی زیادتی پر اس کی گرفت کرسکے اوراس کو راہ راست پر لایا جاسکے۔ چنانچہ ایسی صورت میں مظلوم مسلم خواتین کے حق میں قانون سازی کی ضرورت ہے۔ عدالت کی نظر میں یہ ضرورت یکساں سول کوڈ سے پوری ہوجائے گی ،جس کاذکر آئین کے رہنما اصولوں میں کیا گیا ہے۔
ہماری ادنا رائے یہ ہے اس فیصلے پر غیرضروری تنقید اورتحریک اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کی روشنی میں ہمیں اپنے معاشرے کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔ اول بات تو یہ ہے کہ پولیس اورعدالت کا دروازہ ایک مسلم خاتون نے ہی کھٹ کھٹایا جس سے یہ سارا کیس کھڑا ہوا۔ مسلم پرسنل لاء سے متعلق عدالتوں کے فیصلے ایسی شکایات پر آئے ہیں جن میں کوئی مسلم خاتون استغاثہ لیکر عدالت میں گئی ۔ کئی بار اس کا استغاثہ حق بجانب ہوتا ہے مگر قانون اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ اس لئے وہ ادھر ادھر بھٹکتی ہے۔ سوچنا چاہئے کہ آخر وہ کیا مجبوری ہے کہ مسلم خواتین اپنی شکایت کے ازالے کے لئے اس طرح کی کاروائی کو مجبورہوتی ہیں۔ دوسری یہ حقیقت سب سے کے سامنے عیاں ہے کہ دوسری شادی کی اکثر صورتوں میں پہلی بیوی کو ظلم وزیادتی کاسامنا کرنا پڑتا ہے اورمسلمان ہونے کے باوجود آتش غم وغصہ میں مسلمان مرد، اس کا خاندان، مسلم معاشرہ یہاں کہ ہمارے ملی اوردینی قیادت بھی اس کے درد کے مداوا کی فکر نہیں کرتی۔ شریعت کے قوانین کو مشنینی انداز میں نافذ کرنے کا اصرار اس روحانیت، طبیعت کی پاکیزگی اورسب سے زیادہ تقوٰی کی روح کو ہلاک کرتا ہے جس کے بغیر مسلمان ہوجانے کا شاید کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ اللہ معاف کرے، یہی کچھ صورت حال ایک نشست میں تین طلاق اورحلالہ کی اصرار کی بھی ہے۔ اللہ ہم سب کو یوم آخرت کے مواخذہ سے محفوظ فرمائے۔ اس دن یقیناًقانونی موشگافیاں نہیں، کیفیت قلب کام آئیگی کہ ہم اللہ کے احکام اوررسول کی ہدایات کو کتنا احترام کرتے اورکراتے ہیں۔اگر ہم نے یہ سمجھ لیا کی چندمراسم عبادات کافی ہیں تو یہ ہماری بھول ہے۔ اللہ کو ماننے اوررسول سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم اللہ اوراس کے رسول کی ہدایا ت کو ماننے والے بنیں اوراس طرح ان پرعمل کریں کہ ان کی روح مجروح نہ ہونے پائے۔ آمین۔

پیرس میں خون کی ہولی

جمعہ 13نومبرکوفرانس کی راجدھانی پیرس میں بیک وقت تین مقامات پر شدید انسانیت کش حملے ہوئے جن میں کم سے کم 150افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ کوئی ایک سوشدید زخمی نازک حالت میں اسپتالوں میں ہیں۔ دنیا بھرمیں ان حملوں کی شدید مذمت ہورہی ہے ۔ ان کی ذمہ داری ایک اسلام دشمن خونخوار گروہ آئی ایس نے لی ہے جس کو اسلام سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ ترکی میں اس حملے کے دوہی دن بعد برکس چوٹی کانفرنس اورجی 20-چوٹی کانفرنس میں بھی یہ معاملہ چھایا رہا۔ ہمارے وزیراعظم صاحب نے بھی اس کے حوالے سے نمایاں ہونے کی کوشش کی اورایک غیردانشمندانہ بیان دے ڈالا۔ امریکی صدر بش نے جب ’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘‘ کا نعرہ لگایا اورچاہا کہ ہندستان بھی اس میں شریک ہوجائے تو ہند نے اپنا دامن بچالیا تھا۔ لیکن جن ’’بڑی طاقتوں‘‘ نے اورہمارے پڑوسی پاکستان نے کسی بھی وجہ سے اس لڑائی میں شرکت قبول کی وہ سب کم و بیش عالمی دہشت گردی کی زد میں ہیں۔ 
پیرس میں ہی اس طرح کی خونریزی کا ایک واقعہ اسی سال9؍ جنوری کو پیش آیا تھا، جس میں 19افراد مارے گئے تھے۔ اس کا فوری ردعمل یہ ہوا تھا کہ پیرس اوریوروپ کے دیگر شہروں میں ہزارہا کی تعداد میں لوگ گھروں سے نکل آئے اورشمع مارچ میں حصہ لیا ۔ اس کے فوراً بعد پریس میں ہی ایک عظیم ریلی میں دنیا بھر کے قائدین نے شرکت کی تھی اوراس عفریت کے مقابلے کا عزم کیا تھا۔لیڈروں میں اسرائیل کے وزیراعظم بھی شریک ہوگئے تھے حالانکہ ان کی فوج اورموساد کے کارناموں سے کون واقف نہیں۔ اس بار اگرچہ حملہ شدید ہے اوربظاہر اس کی کوئی فوری وجہ نہیں، کہ اس وقت بہانا اہانت آمیز کارٹونس کا تھا ، لیکن اس بار ایسا شدید عوامی ردعمل ظاہر نہیں ہوا۔ غالبا یہ اندیشہ رہا کہ ہجوم میں پھر کوئی واردات نہ کر بیٹھے۔ پیرس کی اس تازہ واقعہ پر حسب روایت دنیا بھر میں لیڈروں، دانشوروں اورہم جیسے عام شہریوں نے اظہار افسوس وملامت کیا ہے۔ او را س احساس کے باوجود کیا ہے کہ اگر مذمتی قراردادوں اوربیانات سے ایسی شیطانی حرکتیں رکنے والی ہوتیں، تو اب تک کب تک رک چکی ہوتیں۔ 
وجہ اس کی صاف ہے۔ جو بڑی طاقتیں سب سے سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے اوردہشت گردی کی عفریت سے متحد ہوکر لڑنے کا عزم کرتی ہیں وہ خود کسی نے نہ کسی پہلو ، براہ راست یا بالواسطہ طور پر انسانی جان کی دشمنی کے واقعات میں ملوث ہوتی ہیں ۔ کچھ احمق ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ اگرچہ کوئی واضح ثبوت ابھی دستیاب نہیں لیکن لیکن قیاس یہی ہے کہ مسلمان نام والے عناصر کو اس طرح کی حرکتوں میں ملوث کرلیا جانا بھی خالی از علت نہیں ہے۔
تاریخ کا جائزہ لیجئے تو یہی بڑی طاقتیں تھیں جنہوں نے گزشتہ صدیوں میں بڑی بڑی مسلم طاقتوں کا شیرازہ بکھیرا۔ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کردئے گئے۔ لیکن جب نئی ریاستیں، اردن، لیبیا، عراق اورشام وغیرہ اورعر ب ممالک مستحکم ہونے لگے تو اب نئی طرح کی جنگ چھیڑی گئی۔ عراق جو سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک تھا، کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا۔ شام کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ لیبیا کو تباہ کردیا گیا اوراب دیگرعرب ممالک کو دہشت گردحملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ 
یہ با ت دنیا جانتی ہے کہ افغانستان پر روسی یلغار سے پہلے طالبان کے نام سے کوئی واقف نہیں تھا۔ امریکا کے حملے کے بعد القاعدہ کا جنم ہوا۔ عراق کو تباہ کرکے جب شام کو نشانہ بنایا گیا تو داعش اورآئی ایس کا جنم ہوا۔ان سب کو طاقت کہاں سے پہنچ رہی ہے؟ کون اسلحہ مہیا کررہا ہے؟ کون ان کی منصوبہ بندی میں مدد کررہا ہے؟ کیا یہ کم حیرت کی بات ہے کہ پیرس پراتنا بڑا حملہ ہوگیا اور امریکا، برطانیہ، فرانس اوردیگرممالک کی خفیہ ایجنسیوں کو اس کے بھنک بھی نہیں ملی؟ سب سے حیرت کی بات ہے کہ اسرائیل خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، حالانکہ اس کی موساد اورخفیہ ایجنسیوں کو حبہ حبہ کی خبر رہتی ہے؟ لب لبا ب یہ کہ جب تک یہ نام نہاد عالمی طاقتیں اپنی پالیسیاں درست نہیں کرتیں، دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اس پوری کہانی میں ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم صاحب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی شرن میں آگئے ہیں ۔ ارے بھائی دنیا کے اوربھی بڑے لیڈرکانفرنس میں موجود ہیں۔ آخرترکی ان کی سیکیورٹی کو بھی تودیکھ رہا ہے۔ ہمارے لئے تو یہ بڑی ہی شرم کی بات ہے ہمارا وزیراعظم اپنے اورمیزبان ملکے کے سیکیورٹی انتظامات سے غیر مطمئن اوراسرائیل پر مطمئن ہے، حالانکہ صہیونیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ پیٹ میں اترنے اورکمر میں چھرا مارنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔مسٹرمودی نے عالمی سطح پر دہشت گردی سے لڑنے کی پرزورآواز آٹھائی ہے۔ ان کو کچھ فکر اندرون ملک ان عناصر کی بھی ہونی چاہئے جو معصوموں کو قتل کرنے اورشراٹھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا