English   /   Kannada   /   Nawayathi

دیوالی میں الّو نہ بنیں نہ بنائیں بلکہ الّو کے بارے میں جانیں

share with us

اور لوگ زیرِ لب مسکرا کر اعتراف کر لیا کرتے تھے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ کسی کو عقل کا کمتریا بیوقوف کہنے کے لیے اِس پرندے کا نام کیوں لیا جاتا ہے؟حالانکہ انسانی نفسیات میں یہ بات شامل ہے کہ بڑی آنکھوں والا اور بڑے سر والاانسان ذہین سمجھا جاتا ہے۔لیکن الّوکی آنکھیں بھی بڑی ہوتی ہیں اور سر بھی بڑا ہوتا ہے پھر بھی بیوقوف لوگوں کی مثال اکثر الّو سے ہی دی جاتی ہے۔ عام طور سے عوام الّو کو منحوس پرندہ مانتے ہیں لیکن انگریزی ادب کی بچوں کی کہانیوں( جیسے ’ہیری پاٹر‘ )میں الّو کواعلی خوبیوں والااور عقلمند پرندہ مانا گیا ہے۔ 
ہندو مذہب میں الّو کو ’لکشمی دیوی‘ کی سواری مانا جاتا ہے اورکہا جاتا ہے کہ وہ اُسی پر بیٹھ کر اپنے بھکتوں کے یہاں جاتی ہیں۔ انٹر نیٹ پراسی سلسلہ کا ایک لطیفہ پڑھنے کو ملا ، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’ایک بارلکشمی جی کی سواری کا الّو ان سے ناراض ہو گیا اور بولا ’آپ کی پوجا تو سبھی کرتے ہیں مجھے کوئی نہیں پوچھتا‘۔بہتر ہے آپ سواری کا کوئی دوسرا انتظام کر لیں اور مجھے معاف فرمائیں۔ لکشمی جی بھی اُس وقت مذاق کے موڈ میں تھیں کہنے لگیں اب ہر سال میری پوجا سے آٹھ دس دِن پہلے تمہاری پوجا ہوا کرے گی، اس دِن صرف الّو ہی پوجے جائیں گے اور اس تیوہار کا نام ہوگا ’کروا چوتھ‘۔الّو کو تسلّی ہو گئی یا یوں کہا جائے بیچارہ الّو بن گیا۔
حالانکہ دنیا میں کل ۲۰۵؍ قسم کے الّو پائے جاتے ہیں لیکن ان کی پوری قوم کو دو خاص قبیلومیں ہی بانٹا گیا ہے:
۱۔بارن الّو(Barn owls) :
اس کا سائنسی نام Strigiformes ہے۔ یہ اوسط جسامت کا اور ہلکے سرمئی رنگ کا پرندہ ہوتا ہے۔ جسم کا اوپری حصہ لالی لیے ہو�ؤ اورپنکھ و پر سفید رنگ کے ہوتے ہیں۔اس کے پروں اور سرپر بھورے رنگ کے دھبّے ہوتے ہیں۔چہرے کی بناوٹ گولائی لیے ہوئے دِ ل کے شکل کی ہوتی ہے جو بھورے رنگ کے بارڈر سے گھری ہوتی ہے ۔بارڈر سے گھرا ہوا حصہ سفید ہوتا ہے۔اس کے پیروں کی رنگت پیلا پن لیے ہوئے یا بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔ مادا کے جسم پر دھبے کچھ زیادہ ہوتے ہیں۔ پیر قدرے بڑے اور پروں سے ڈھکے ہوتے ہیں۔شکاری پرندہ ہونے کی وجہ سے اُلّو کے پنجے اور ناخُن بڑے مضبوط ہوتے ہیں۔پروں کا پھیلاؤساڑھے تین فِٹ تک ہوا کرتا ہے۔ان کا وزن ڈھائی سو گرام سے لے کر ۴۸۰؍گرام تک ہوتا ہے۔مادا، نر کی بنسبت کچھ زیادہ بھاری ہوتی ہے۔اس طرح کے الّو ۱۶؍قسم کے ہوتے ہیں۔ان میں سے صرف تین قسمیں ہی ہندوستان میں پائی جاتی ہیں۔
اس قبیل کے الّوؤں کے نام کچھ اس طرح سے ہیں:’Monkey-faced Owl, Ghost Owl, Church Owl, Death Owl‘وغیرہ۔
۲۔ٹُرو الّو(True owls):
بارن الّوؤ ں سے یہ کافی مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا سائنسی نام Striginae ہوتا ہے۔ویسے تو یہ ۱۹۰؍خاندانوں میں بٹے ہوتے ہیں لیکن ۲۳؍ خاندان نما یاں ہوتے ہیں ان میں درجِ ذیل معروف ہیں:
’اسکریچ الو(Screech Owls)‘،’ہارنڈ الّو(Horned Owls)‘اور ’سا۔وہیٹ'(Saw-whet Owls) ۔یہ مختلف جسامت والے ہوتے ہیں،بہت چھوٹے بونے الّو سے لیکر بھاری بھرکم اور مختلف رنگوں میں پائے جاتے ہیں۔اس طرح کے الّوؤں کا چہرا گول و بڑا ہوتا ہے دُم چھوٹی ہوتی ہے۔ الّو کے پردھبّے دارہونے کی وجہ سے بڑے شکاری پرندوں ، باز وغیرہ کی نظران پر جلدی نہیں پڑتی۔اُلّو اپنے سے چھوٹوں کا شکار کرتا ہے اور خود کو شکار ہونے سے بچاتا ہے۔چوہے،گلہریاں، خرگوش،چڑیاں، کیڑے مکوڑے وغیرہ کسانوں کے دشمن ہوتے ہیں لیکن الّوان کو اپنی خوراک بنا کرکروڑوں کا اناج بچاتا ہے اور لوگو کی مالی مدد کرتا ہے اس لیے الّو کسانوں کا دوست کہلاتا ہے۔عام طور سے ان کی عمر ایک دو سال ہی ہوتی ہے۔
الّوچھوٹے شکار کو پورا پورا نگل جاتا ہے اور بڑے شکار کو ٹکڑے کر کے نگلتا ہے۔نہ ہضم ہونے والی اشیاء جیسے ہڈیاں،بال اور پر وغیرہ پورے کا پورا ملغوبہ بیلن نما ٹھوس کی شکل میں اُگل دیتا ہے۔ 
عام طور سے ’ الّو ‘ اپنا گھوسلہ پیڑوں کے کھوہ میں بناتے ہیں جو زمین سے تقریباً بیس میٹر کی اونچائی پر ہوتا ہے اس کے علاوہ کھنڈہر یا ویران عمارتوں، کنووں میں بھی گھوسلہ بناتے ہیں۔
الّوسے متعلق دیگر باتوں کے علاوہ انسان کو مخاطب کرتے ہوئے ایک غلط بات یہ بھی بولی جاتی ہے: ’’ الّوؤں کی طرح دیدے نچا رہے ہو!‘‘۔جبکہ الّو بیچارہ اپنی آنکھوں کوگھمانے میں معذور ہوتا ہے وہ صرف سامنے دیکھ سکتا ہے لیکن ۲۷۰؍ ڈگری تک اپنی گردن گھماکر ایک ہی جگہ پر بیٹھ کرچاروں طرف دیکھ سکتا ہے۔
اس کے جسم کے پَردیگر پرندوں کی بنسبت بہت ہلکے اور ملائم ہوتے ہیں اور اسی لیے جب یہ اُڑتا ہے تو اس کے اُڑنے کی آواز بالکل نہیں ہوتی اور یہ آسانی سے اپنے شکار پر جھپٹ سکتا ہے۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ پندرہ سے بیس ہزار سال پہلے الّوؤں کا رشتہ انسانوں کے ساتھ قائم ہو چکا تھا جس کی شہادت فرانس کے غاروں میں کنندہ فنکاری میں پائی جاتی ہے۔
ہندوبرادرانِ وطن کی مذہبی کتاب’بالمیک رامائن‘ میں الّو کو بے وقوف کے بجائے بہت ہی دانا پرندہ کہاگیا ہے۔ لکھا ہے کہ ’’رام چندر جی‘‘ کا جب راون سے معرکہ ہورہا تھا اور اِسی بیچ جب ’وبھیشن‘ رام چند جی سے آکر ملے تو’ سُگریو‘ سمجھے کہ وہ کسی چالاکی سے آئے ہیں لہذا نھوں نے ’رام چندر جی‘ سے کہا کہ اُنہیں دشمنوں کی ’mywd prqjkbZ(الّو کی ہوشیاری)‘ سے بچنا چاہئے۔یہ بھی لکھا ہے کہ’ رشی، مُنیوں ‘نے بہت سوچ سمجھ کر کے الّو کو’لکشمی‘ کی سواری بنایا ہے۔
الّوؤں کی قوت سماعت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن ان کے کان دکھائی نہیں دیتے کیونکہ وہ آنکھوں کے پیچھے پروں کے گچھے میں یہ چھپے ہوتے ہیں۔رات کے اندھیرے میں اپنے شکار کی ہلکی سی آوازسے سمت کا اندازہ لگا کرا س پرحملہ آور ہو جاتے ہیں۔
ان کے پنجے خاص قسم کے ہوتے ہیں جس میں چار نوکیلی انگلیاں دو آگے اور دو پیچھے کی جانب ہوتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر پیچھے والی انگلیوں میں سے ایک کو گھما کر آگے کی جانب کیا جا سکتا ہے۔ان کی چونچ دیگرگوشت خور پرندوں کی طرح نوکیلی اور ٹیڑھی ہوتی ہے۔ پروں سے ڈھکی ہونے کی وجہ سے چھوٹی دکھائی دیتی ہے۔ 
الّو سے تعلق رکھنے والی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے جُھنڈ کوانگریزی میں پارلیمنٹ کہا جاتا ہے۔(A Group of owls is called a parliament.)
مختلف ممالک میں الّو سے متعلق کچھ دلچسپ عقیدے:
* ’برطانیہ‘ میں الّو کے بولنے یا اُس کے رونے کی آواز کومنحوس سمجھا جاتا ہے۔
* جنوبی افریقہ میں الّو کی آواز کو موت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
* کناڈا میں تین رات لگاتاراُلّو کے بولنے پر خاندان میں کسی کے موت یقینی سمجھی جاتی ہے۔
* امریکہ کے جنوبی اور مغربی دونوں حصوں میں الّو کا دیکھا جانا منحوس سمجھا جاتا ہے۔
* چین میں الّو دکھائی دینے پر پڑوسی کی موت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
* ایران میں الّوکی اچھی آوازکو خوشی کی علامت مانتے ہیں، رونے جیسی آواز کو بُری علامت مانی جاتی ہے۔
* ترکی میں بھی الّو کی آواز کوتو منحوس ہی سمجھا جاتا ہے لیکن سفید الّو کوسعد مانا جاتا ہے۔
* ہندوستان میں گھروں پر الّو کا بیٹھ کر بولنا اچھا شُگُن نہیں مانا جاتا لیکن دیوالی میں گھروں میں خوشحالی لانے کے لیے جادو منتر کرنے،صحت یابی کے لیے الّوؤ ں کی بلی چڑھائی جاتی ہے۔اخباروں میں اس طرح کی خبریں بھی پڑھنے میں آتی ہیں کہ گذشتہ دیوالی کے موقع پر ’’ایک الّو تیس لاکھ کا بکا‘‘۔عقل کے اندھوں سے کوئی کیا کہے کہ تم نے تیس لاکھ روپئے غرباء پر خرچ کرتے تو وہ سال بھر تمہاری جے جے کار کرتے او رتمہاری بھلائی کے لیے دعا کرتے اس طرح تمہارے سارے دکھ درد دور ہو جاتے اور تم خود الّو بننے سے بچ جاتے۔
یہ جان کر آپ کویقیناًحیرت ہو گی کہ مودی جی کے گجرات میں’الّو‘ کی آنکھوں کا استعمال لوگ اپنی خوراک میں اس یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ اس سے آنکھوں کی روشنی بڑھتی ہے۔اس کے گوشت کے علاوہ گردے اور پائے بھی بڑے مہنگے بکتے ہیں۔بد عقیدہ لوگوں کے جنون اور ’آستھا‘ نے اس کی نسل کو خاتمہ کے کگار پر لا کر کھڑا کر دیا ہے جبکہ ان کی زندگی ایک دو سال ہی ہوتی ہے ۔ حالانکہ مرکزی حکومت نے اس طرف توجہ دی ہے اور اس کی نسل کو بچانے کے لیے مناسب اقدا م کیے جا رہے ہیں۔ لیکن لوگوں کی ’آستھا‘ کا حال یہ ہے:
۱) اُلّو کی آنکھ کا کاجل بنا کر لگانے سے رات میں بھی دن کی طرح دکھائی دیتا ہے۔
۲) الّو کے ناخُن بچے کے گلے میں باندھنے سے بچے کو نظر نہیں لگتی۔
۳) الّو کے گوشت کو تعویذ میں بھر کر گلے میں باندھنے سے کسی طرح کا ڈر نہیں لگتا۔
۴) الّو کی پوجا دیوالی میں کرنے سے لکشمی جی مہربان ہوتی ہیں بیحد دولت برستی ہے۔
۵) الّو کے پر کو حساب کتاب کے ’بَہی کھاتے‘ میں رکھنے سے مال دولت میں برکت ہوتی ہے۔
’ اندھ وشواسیوں‘ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ’’وقت سے پہلے اور قسمت سے زیادہ کسی کو کچھ نہیں ملتا‘‘۔
ایک لطیفہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ایک صاحب کو الّو کی ضرورت تھی تو وہ لکھنؤ کے چڑیا بازار جو نخا س کے نام سے مشہور ہے، تشریف لے گئے۔ دیکھا ایک چڑیمار کچھ چھوٹے بڑے الّو لیے بیٹھا ہے۔انھوں نے ایک بڑے اورتندرست قسم کے الّو کے دام پوچھے تو چڑیمار نے کہا دو ہزارپئے۔ انھوں نے سوچا شُگُن کے لیے اُلّو چھوڑناہے ، کیا ضروری ہے اتنا مہنگا خریدا جائے اس لیے انہوں نے ایک قدرے چھوٹے الّو کے دام پوچھے تو اس نے اس کے دام پانچ ہزار روپئے بتائے۔یہ صاحب بڑی ناراضگی سے بولے ارے یہ تم کیا بول رہے ہو؟اس بڑے الّو کے دو ہزار روپئے اوراس ٹوئیاں کے پانچ ہزارروپئے کس حسا ب سے؟
چڑیمار لکھنوی انداز میں بولا: ارے حضور ! آپ ناراض کیوں ہو رہے ہیں؟ اس کی خوبی بھی تو دیکھئے۔
وہ صاحب بدستورناراضگی اوڑھے ہوئے بولے ’’کیا خوبی ہے اس پٹھے میں؟‘‘۔
چڑیمار بولا ’’واہ حضور! کیا خوب پہچانا،یہی خوبی توہے اس میں۔وہ بڑا والا توصرف الّو ہے اس لیے اس کے دام بھی کم ہیں، لیکن یہ’ الّو کا پٹھا‘بھی ہے اس لیے اس کے دام زیادہ ہیں‘‘۔
الّوکے نام کے ساتھ کئی محاورے جڑے ہیں جیسے۔’اپنا الّو سیدھا کرنا‘،’الّوبنانا‘، ’الّو بننا‘، ’کاٹھ کاالّو‘،’الّو کی طرح دیدے نچانا‘،’الّو کی ہوشیاری188mywd prqjkbZ189‘،’الّو کا پٹھا‘،’الّو کا ڈھکّن‘، ’کھاٹ پہ بیٹھا الّو، بھر بھر مانگے چلّو‘،’الّو کہیں کا‘، ’الّوپنا‘وغیرہ۔ ان محاوروں کی تفصیل دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جس طرح الّو ایک سیدھا سادہ پرندہ ہے اُ سی طرح سے اس سے متعلق محاورے بھی آسان اور سیدھے سادھے ہیں، ہر کوئی ان کا استعمال کرتا رہتا ہے۔
اس الّو پنے سے آگے بڑھتے ہیں اور آپ کی معلومات میں اور تھوڑا اضافہ کرتے ہیں۔ مغربی موسیقی کے ’پاپ سانگ‘ کو پسند کرنے والوں کے لیے انٹر نٹ پر’اُلّوشہر‘ یعنی Owl Cityکی ’ویب سائٹ موجود ہے اس سے اپنا ناتا جوڑکر اپنے کو اپڈیٹ کر سکتے ہیں۔اس کا قیام امریکہ میں ۲۰۰۷ء ؁ میں’آدم ینگ‘ نام کے ایک شخص نے کیا تھا جسکے تحت چالیس منصوبے(Projects) ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ الّو کے بارے میں جو بھی معلومات آپ کے پاس رہی ہوں گی اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ ضرور ہوا ہوگا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ اب الّو کے بارے میں اب کچھ بتانے کو بچا ہی نہیں۔اب الّو کو تھوڑا ادب کی طرف موڑتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں اس کے ساتھ کیابرتاؤ کیا گیا۔
یوں توبہت سے شاعرہوں گے جنہوں نے اپنے اشعار میں ’الّو‘ کونظم کیا ہوگا ۔ حضرت بوم ؔ میرٹھی کو الّو اتنا پسند تھا کہ انھوں نے اپنا تخلص ہی بومؔ (یعنی الّو) رکھ لیا۔لیکن سید ریاست حسین رضوی شوقؔ صاحب بہرائچی کی بات ہی کچھ اور ہے۔ہو سکتا ہے کہ الّو سے متعلق کوئی ’ریسرچ سنٹر‘ کھول رکھا ہو؟۔انکے دیوان ’طوفان‘ میں الّو سے متعلق بے شمار اشعار موجود ہیں لیکن ۔
بربادئ گلشن کی خاطر بس ایک ہی اُلّو کافی تھا 
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھے ہیں انجام گلستاں کیا ہوگا؟ 

یہ شعر سر کاری محکمہ میں اس قدر استعمال ہوتاہے کہ ایک طرح سے یہ سرکاری شعرہو کر رہ گیا ہے۔درج ذیل شعر کیا موجودہ ہندوستان کی ترجمانی نہیں کر رہا ہے؟

جہاں تازہ بہاریں اور عالم گیر نغمے تھے
اسی گلشن میں اُلّو کا بسیرا ہوتا جاتا ہے

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا