English   /   Kannada   /   Nawayathi

دھرم نہیں،ذات پات کے نام پر ہوگا اگلاعام الیکشن؟

share with us

غوث سیوانی


بھارت نے گزشتہ دنوں دو ہڑتالوں کا سامنا کیا۔ اپریل کی دوسری تاریخ کو دلتوں کی طرف سے ایک ’’بھارت بند‘‘ بلایا گیا، جس میں بڑے پیمانے پر تشدد ہوا۔ اس ہڑتال کا مقصد تھا ایس سی ،ایس ٹی ایکٹ میں سپریم کورٹ کی طرف سے کی گئی ترمیم کی مخالفت کرناجب کہ دوسرا ’’بھارت بند‘‘ اعلیٰ ذات کے ہندووں کی طرف سے اپریل کی دسویں تاریخ کو بلایا گیا تھاجس کا مقصد تھا، پسماندہ طبقے کو سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ملنے والے ریزرویشن کی مخالفت کرنا۔ ان دونوں ہڑتالوں میں اعلیٰ ذات اور پسماندہ طبقات ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے اور معاشرتی سطح پر تقسیم بھی نظر آئی۔ تاریخ شاہد ہے کہ بھارت میں طبقاتی سسٹم کوئی نیا نہیں ہے بلکہ ہزاروں سال پرانا ہے اور قدیم شاستروں میں اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اسی کے سہارے دس،پندرہ فیصد اعلیٰ ذات کے لوگ، اکثریتی طبقے پر حکومت کرتے رہے ہیں۔ جدید بھارت کے مصلح اور معمار مہاتما گاندھی بھی اس سسٹم کو پوری طرح مستردکرنے کے خلاف تھے، البتہ وہ چھوت چھات کو ختم کرنے کے قائل تھے۔ اس معاملے میں ڈاکٹربی آر امبیڈکر سے ان کا نظریاتی اختلاف شدید تھا۔ 
ذات پات کے نام پر صف بندی
بھارت میں ذات ،برادری کے نام پر سیاست ہوتی رہی ہے اور مختلف برادریوں میں لیڈر ابھرتے رہے ہیں جنھیں ان کی اپنی برادری کا ووٹ ملتا رہا ہے۔اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ذات، برادری کے سسٹم نے ہندوستانی معاشرے کوبری طرح تباہ کیا ہے، اسے ختم ہونا چاہئے اور اس پر سیاست بھی نہیں ہونی چاہئے مگر حالیہ زمانے میں پچھڑوں کو جو حقوق ملے ہیں،اس کا ایک اہم سبب ،ذات پات کی سیاست ہی ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے دلتوں کو خصوصی مراعات دلانے کے لئے ایک طویل جدوجہد کی تھی ،اس کے بعد ہی انھیں حقوق حاصل ہوئے۔ اسی طرح گزشتہ صدی کی80کی دہائی کے اخیر میں منڈل کی سیاست نے اوبی سی زمرے کو نہ صرف سیاست میں اہم مقام دلایا بلکہ انھیں سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن کی سہولت بھی فراہم کرائی۔ اسی کے ساتھ دھرم کے نام پر سیاست کرنے والی بی جے پی کا کئی بار راستہ روکنے کا کام ذات پات کی سیاست سے ہی ممکن ہوا۔ ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو، مایاوتی، رام ولاس پاسوان، نتیش کمار، یدی یورپا،اجیت سنگھ، ہریانہ کا چوٹالہ خاندان آنجہانی جگجیون رام ، چودھری چرن سنگھ اور کانشی رام اسی قسم کی سیاست کے نمائندہ بن کر ابھرے۔ 
یوپی کی سیاست
حالیہ ایام میں بی جے پی کی دھرم کی سیاست نے ہندووں کو ذات برادری سے اوپر اٹھانے کا کام کیا مگر اس سے فائدہ پسماندہ یا دلت طبقے کو نہیں ہوا بلکہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو ہوا۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے برہمن وادی فکر کوبڑھنے اور پھیلنے کا موقع ملا مگر اترپردیش کے گورکھ پور اور پھول پور کی لوک سبھا سیٹوں پر بی جے پی کی ہار کے بعد جو صف بندی شروع ہوئی ہے،اسے دیکھتے ہوئے تو لگتا ہے کہ آنے والے ایام میں جو بھی انتخابات ہونگے ، وہ ذات پات کی بنیاد پر ہی ہونگے۔ یہ سوال اب ہر کسی کی زبان پر ہے کہ اترپردیش میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا اتحاد قائم ہوا تو اس کا کیااثر ہوگا؟ کیا یہ بھاجپاکو یوپی ہی نہیں دلی سے بھی بے دخل کر سکتا ہے؟ کیا دائیں نظریے کی اس پارٹی کاپورے یوپی میں وہی حال نہیں ہوگا جیسا کہ گورھ پور اور پھول پور کے ضمنی الیکشن میں ہوا؟یہ سوال اس لئے بھی اٹھ رہے ہیں کہ بہوجن سماج پارٹی، دلتوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے جب کہ سماج وادی پارٹی کے ساتھ یادو ہیں۔ علاوہ ازیں یوپی میں بیس فیصد مسلمان ہیں جو انھیں دونوں پارٹیوں کے ساتھ جاتے ہیں، نیز کچھ دوسرے طبقات بھی ان پارٹیوں کے ساتھ موقع محل کے مطابق جڑتے اور الگ ہوتے رہتے ہیں۔ 25 سال پہلے 1993کے اسمبلی انتخابات میں، سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے ساتھ مل کر اسمبلی انتخاب لڑا تھا تو کلیان سنگھ کی قیادت والی بی جے پی کوریاست میں شکست ہوئی تھی۔رام مندر آندولن کے ذریعے برادریوں کی شناخت کو وسیع تر ہندو شناخت میں تبدیل کرنے کی بی جے پی کی حکمت عملی کو ایس پی اوربی ایس پی نے مل کرہرایا تھا۔مسلم، دلت،یادو اور دیگر پسماندہ ذاتوں کے اتحادکے سبب، بی جے پی کی’’ کمنڈل سیاست‘‘ پر منڈل کی سیاست بھاری پڑی تھی۔ اب گورکھ پور اورپھول پور لوک سبھا کی نشستوں پر بی جے پی کو ہرانے کے بعد ایک بار پھر ایس پی اور بی ایس پی اسی راہ پر چل پڑی ہیں۔فرق یہ ہے کہ پچیس سال قبل ملائم سنگھ یادو اور کانشی رام نے اتحاد کیا تھا اور اب ان کے جانشیں اکھلیش یادو اور مایاوتی پرانے تجربے کو نئے انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یوپی کے سیاسی حلقوں میں یہ قیاس لگ رہے ہیں کہ اگر ایس پی اور بی ایس پی کا علامتی اتحاد ،بی جے پی پر اتنا بھاری پڑسکتا ہے تو دونوں کے درمیان باقاعدہ اتحاد کا اعلان تو بڑے پیمانے پر یوپی کی سیاست میں الٹ پھیر کرسکتا ہے۔ 
بہار میں سیاسی صف بندی
ذات پات کے نام پر سیاسی صف بندی اترپردیش تک محدو نہیں ہے بلکہ بہار میں بھی ہے۔ یہاں یادو طبقے کے نیتا لالو پرساد یادو ہیں جن کے ساتھ عام طور پر مسلمان ووٹ بھی جاتا رہا ہے۔ دوسری طرف رام ولاس پاسوان ہیں جو دسادھ برادری کے لیڈر ہیں۔ وزیراعلیٰ نتیش کمار کرمی برادری کے لیڈر ہیں مگر مختلف حربوں سے وہ کچھ دوسرے طبقوں کے ووٹ بھی حاصل کرتے رہے ہیں اور اس وقت بھی وہ اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ انھوں نے بہار میں ’’مہادلت‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی ہے اور دلتوں کے ایک طبقے کو اپنے ساتھ لانے میں مصروف ہیں۔ انھوں نے ماضی میں جیتن رام مانجھی کو بہار کا وزیراعلیٰ بنایا تھا جس کے پیچھے کا مقصد ،مانجھی کی ملاح برادری کا ووٹ اپنے ساتھ کرنا تھا۔ فی الحال نتیش کمار نے ’’مہادلت ‘‘ کے نام پر کچھ رعایتوں کا اعلان کر دلت برادریوں کو اپنے ساتھ لانے کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ دوسری طرف جیل میں بندلا لو یادو کے بیٹے تجسوی یادو بھی اپنے ساتھ کچھ برادریوں کو جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اسی مقصد سے وہ رام ولاس پاسوان کو بھی اپنے ساتھ آنے کی اشاروں اشاروں میں دعوت دے رہے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی ،یہاں فساد کراکرمذہب کے نام پر سماجی تقسیم میں کرانے میں لگی ہوئی ہے تاکہ آنے والے انتخابات ذات نہیں، دھرم کے نام پر ہوں۔ 
عام انتخابات کیسے ہونگے؟
عام انتخابات میں اب زیادہ دن باقی نہیں ہیں۔ یوں تو ان کا وقت اگلے سال مئی مہینے میں ہے مگر پورا امکان ہے کہ اسی سال کے آخری مہینوں میں لوک سبھا انتخابات ہوجائیں۔ ان انتخابات کا رزلٹ کیا ہوگا؟ آئندہ مرکز میں کس کی سرکار بنے گی؟ ان دونوں سوالوں کا جواب اترپردیش اور بہار کے ووٹروں کو دینا ہے۔ اصل میں لوک سبھا کی سب سے زیادہ سیٹیں انھیں دونوں صوبوں میں ہیں اور آج جو مرکزمیں بی جے پی کی سرکار ہے، وہ اس لئے ہے کہ اس نے سب سے زیادہ سیٹیں انھیں ریاستوں سے جیتی تھیں۔ اب نئی سیاسی صف بندی ذات پات کے نام پر ہورہی ہے اور یہ بی جے پی کے حق میں نہیں ہے۔بی جے پی کے لئے فکر کی بڑی وجہ اس لئے بھی ہے کیونکہ ہندو ایجنڈے کے ذریعے اس نے سال 2014 کے لوک سبھا جیتے تھے اور پھر 2017 کے اسمبلی انتخابات میں ووٹروں کو برادریوں کے دائرے سے نکال کر ہندو شناخت کے تحت متحد کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ایک سال پہلے یوپی میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت بننے کے بعد بھی حکومت کی ترجیحات میں ہندو ایجنڈے کو توجہ دینے کے اشارے ملے مگر یوپی کے حالیہ حالات اور جرائم میں اضافہ نے عام لوگوں کو پریشان کیا ہے۔ اسی کے ساتھ دلت ،یادو،مسلمان اور کچھ دوسرے طبقے ایس پی وبی ایس پی کے پرچم تلے ساتھ آرہے ہیں۔ایس پی صدر اکھلیش یادو نے سماج وادی پارٹی اوربی ایس پی کے اتحاد کو لے کر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں گزشتہ دنوں کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ ہم بی ایس پی کے ساتھ آئے، میں کوشش کروں گا کہ لوہیااورامبیڈکر کے نظریات والی پارٹیاں، ملک کو نئی راہ دکھائیں۔اکھلیش نے کہا کہ بی ایس پی۔ایس پی کا یہ اتحاد ، ملک کی سیاست کو ایک نیا نقشہ دے گا۔
ذات پات کے نام پر ہوگا عام الیکشن
آنے والے انتخابات میں ذات پات کے ایشوز کے چھائے رہنے کا امکان اس لئے بھی قوی ہے کیونکہ ہندوستانی سماج تیزی سے جارحانہ برادری وادی تنازعے میں پھنستا دکھائی دے رہا ہے۔ حالیہ ایام میں دلتوں پر جس طرح کے مظالم کے واقعات سامنے آئے ہیں،ان سے ظاہر ہے کہ موجودہ حکومت میں دلت محفوظ نہیں ہیں اور وہ برابری کے حق سے بھی محروم ہیں۔ آج بھی دلت دولہا گھوڑے پر نہیں چڑھ سکتا۔ آج بھی اعلیٰ ذات والوں کے گاؤوں میں کوئی دلت گھوڑے پر سوار ہوجائے تو اسے قتل کردیا جاتا ہے۔ آج بھی کئی گاؤوں میں انھیں نئے کپڑے پہننے کی اجازت نہیں ہے اور گندے کام پر مجبور کیا جاتا ہے۔ عام دلتوں کی تو چھوڑیئے، بی جے پی کے دلت ممبران پارلیمنٹ تک کی افسران نہیں سن رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی ممبران نے تو اپنی بے بسی کا اظہار بھی کیا ہے اور وزیراعظم مودی کو خط بھی لکھا ہے۔اس قسم کی باتیں یوں تو ماضی میں بھی سامنے آتی رہی ہیں مگر نقصان اسی پارٹی کو اٹھانا پڑتا ہے جس کی سرکار ہوتی ہے۔ ویسے اب دلتوں کے اندر غصے کا جوالا مکھی پک چکی ہے اور کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔ اگر یہ الیکشن سے قبل پھٹی تو ہندوستانی سیاست میں ابال آجائے گا اور بہت کچھ تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔

(مضمون نگار کی رائے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ) 16؍اپریل2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا