English   /   Kannada   /   Nawayathi

اردو فکشن کے پانچ رنگ: ایک مطالعہ

share with us

راحت علی صدیقی قاسمی 


قصہ سننا فطرتِ انسانی کا خاصہ ہے، قدیم زمانے میں جب انسان کو تمدنی و عمرانی شعور بھی نہیں تھا، تب بھی وہ قصہ سنتا تھا، اس سے اپنی راتوں کو زندہ اور اپنے ذہن کو تروتازہ کرتا ، قلبی اطمینان حاصل کرتا، قصہ گوئی باضابطہ ایک پیشہ تھا، لوگ قصہ کہتے اور زندگی کے گذران کا سامان فراہم کرتے، تمام زبانوں میں قصہ گوئی کی تابناک تاریخ موجود ہے اردو زبان وادب بھی اس صنفِ محترم سے خالی نہیں ہے، اردو زبان وادب میں قصہ گوئی، داستان، ناول نگاری کی طویل تاریخ ہے، جو مختلف ادوار کو متضمن ہے، حالات واقعات سے مقابلہ آرائی، زمانے کے معیار و اقدار پر کھرے اترنا، وقت کی روانی اور تیز رفتاری کو مات دے کر آگے بڑھنا، ناول سے افسانچہ تک کا سفر اس روداد کا عملی بیان ہے۔
داستان، ناول، ناولٹ، افسانہ، افسانچہ، ان تمام اصناف نثر کو بہت سے مصنفین نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا، ناقدین نے ان کے گیسو سنوارے، ان کی خوبیوں و خامیوں کو اجاگر کیا، ادب کے طلبہ کو ان سے واقف کردیا، ان اصناف سخن سے متعلق بہت سی تخلیقات سپردِ قرطاس ہوئیں، لیکن میرے مطالعہ میں موجود کتاب ’’اردو فکشن کے پانچ رنگ‘‘ ان تمام کتابوں سے مختلف ہے، اس سے قبل کی کتابیں ہر صنف کی تاریخ و روایت پر تفصیل کے ساتھ لکھی گئیں ، جن کی طوالت قاری کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے، اگر چہ وہ کتابیں محققین کے لئے مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں ، علاوہ ازیں جن کتابوں میں اختصار کا پہلو اختیار کیا گیا ہے، تو کتاب کا معیار سطحی ہوگیا ہے اور وہ محض چند سوالوں کے جواب تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، اردو فکشن کے پانچ رنگ میں اختصار ہے، جامعیت ہے، تاریخ کے مختلف مراحل کا انتہائی اختصار کے ساتھ ذکر ہے، دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے، مطالعہ اس بات کی گواہی دینے پر مجبور کرتا ہے کہ فاضل مصنف نے اُن تخلیقات کو بحث میں شامل کیا گیا ہے ، ان تخلیقات کا تجزیہ کیا ہے، جو مذکورہ اصناف میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں، تغیر و ترقی کی علامت ہیں، فن کے بدلتے مزاج پر مطلع کرتی ہیں، حالات کے اثر کو واضح کرتی ہیں، اس میں تنقیدی پہلو بھی نمایاں ہے اورکچھ فرسودہ نظریات کی بیخ کنی بھی ہے، سب سے متاثر کن بات اس کتاب کا اسلوب ہے، ایک افسانہ نگار کے لیے غیر افسانوی نثر لکھنا اور اس کے تقاضوں پر کھرا اترنا انتہائی مشکل امر ہے، ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس تقاضہ کو بہت حد تک نبھایا ہے، البتہ اتنا خشک نہیں ہونے دیا کہ قارئین اکتا جائیں، جمائیاں لینے لگیں، چہروں پر پژمردگی کے اثرات ابھر جائیں، جو ایک عظیم کارنامہ ہے۔
’’اردو فکشن کے پانچ رنگ‘‘ میں پہلا رنگ داستان سے متعلق ہے، رنگ خوبصورت اور جاذب نگاہ ہے، اس رنگ پر ابھرتے اثر میں داستان سے متعلق ایک محاکمہ دکھائی دیتا ہے، جو داستان گوئی کی تعریف، تاریخ، اتار چڑھاؤ، عروج وزوال سے واقف کراتا ہے، اس کے فنی موضوعات واختصاصات پر انتہائی اختصار اور جامعیت کے ساتھ مسائل کو واضح کرتا ہے۔منظوم و منثور داستانوں سے متعارف کراتا ہے، اسی باب کے تحت سب رس اور باغ و بہار کا تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے، جو داستان کے آسمانِ تاریخ پر مثلِ ماہتاب ہیں، داستانوں کی تلخیص کی گئی ہے اور ان کے اہم پہلوؤں کو نمایاں کیا گیا ہے، مثال کے طور پر سب رس کے تجزیہ میں رقم طراز ہیں:
’’ آپ نے یہ دیکھا کہ یہ داستان تقریباً پانچ سو سال پرانی ہے، جس میں زندگی کے عناصر بھرے پڑے ہیں، مجھے یہاں ان ناقدین سے سخت اختلاف ہے جو داستان کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے زندگی کے عناصر سے خالی بتاتے ہیں۔‘‘
یہ عبارت جہاں سب رس سے متعلق مصنف کا خیال ظاہر کرتی ہے، وہیں افسانوی نثر سے متعلق اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتی ہے کہ حقائق کو تخلیقی خمیر کے ساتھ گوندھ کر ہی افسانوی نثر کی بنیاد رکھنا ممکن ہے، اس کے بغیر یہ فریضہ خوبصورتی سے انجام نہیں دیا جاسکتا۔
دوسرا رنگ ناول ہے، دل کش، خوبصورت، شوخ آنکھیں اس پر ٹھر جاتی ہیں، اس رنگ پر نگاہ کرتے ہوئے پہلا ہی جملہ نگاہوں کو خیرہ کردیتا ہے، اردو زبان وادب کے ناقدین نے بہت سی چیزوں کو مغربی ادب کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی ہے، بہت سے ناقدین کے خیالات کو مغرب سے حاصل شدہ قرار دیا ہے، حالانکہ وہ انگریزی نہیں جانتے تھے، اس صورت حال میں بسا اوقات ایسے دلائل بھی پیش کئے گئے، جو اطمینان بخش نہیں ہیں، شکوک و شبہات کو پیدا کرنے والے ہیں لیکن ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے صاف طور پر ناول سے متعلق اپنے نظریہ کو پیش کیا۔ کہتے ہیں: ’’ہمارے اکثر ناقدین اور دانشور یہی راگ الاپتے ہیں کہ ناول لفظ ہی نہیں بلکہ یہ صنف بھی مغرب کی دین ہے، یہ بات کسی طور پر ہضم نہیں ہوتی۔‘‘ یہ جملے ان کی جرأت بیباکی حقائق پرستی اور مشرقی ادب کے گہرے مطالعہ کا پتہ دیتے ہیں، اس باب میں اردو ناول کے سفر پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس کا پس نظر، اس کے مختلف ادوار، ان ادوار میں ناول کے رنگ و آہنگ، اس کے طرز و انداز اور موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے، ناول نگاری پر مختلف تحریکوں کے اثرات کا نقشہ کھینچا گیا ہے، خواتین نے ناول نگاری میں جو عظیم ترین خدمات انجام دی ہیں، اس کو سپرد قرطاس کیا گیا ہے۔ گذشتہ 25 ،30 برس کے پاکستانی ناول نگاروں پر بہت ہی جامع اور مختصر گفتگو کی گئی ہے، جسے وسیع مطالعہ کا نچوڑ کہا جا سکتا ہے،غرض اس باب میں ناول کی ابتدا تا انتہاء مکمل تاریخ قلم بند کردی گئی ہے اور اختصار کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹا ہے، اپنے عہد کے کئی اہم ناول نگاروں کی خدمات کا ذکر ان کے اسلوب کا بیان ہے، ان کی خصوصیات کو زیر بحث لایا گیا ہے، مثلاً کرشن چندر کے ناولوں میں رومانیت، صالحہ عابد حسین کی ناول نگاری، صادقہ نواب سحر کی ناول نگاری ایک نوٹ، تینوں شخصیتوں کے فن پر عمدہ بحثیں کی گئی ہیں، ان کے فنی کمالات کو اجاگر کیا گیا ہے اور اقتباسات کا انتخاب جہاں مصنف کی مہارت کا پتہ دیتا ہے، وہیں ان شخصیات کے مطالعہ کی جانب بھی ابھارتا ہے، اس کے علاوہ اس باب میں چند ناولوں کا تجزیہ کیا گیا ہے، جو ناول نگاری کے بدلتے مزاج کی منظر کشی کرتے ہیں، مثلاً ایک زمانے میں طوائف سے متعلق گفتگو کرنا ہی برا سمجھا جاتا تھا، لیکن مرزا محمد ہادی نے اس عنوان پر ناول لکھا، ناول نگاری کو نئی سمت عطا کی، لکھنؤکی تہذیب طوائف کی زندگی کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی کہ یہ ناول اردو ناول نگاری میں شاہ کار کی حیثیت اختیار کرگیا، بقول عبدالماجد دریابادی مرزا محمد ہادی سے مرزا رسوا ہوگئے۔ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ناول پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’ناول کے مکالموں سے ہی لکھنوی تہذیب و ثقافت کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے، لکھنؤ کی گلیوں، محلوں میں بولی جانے والی زبان محاورے فقرے اور کہاوتیں ایک الگ قسم کا مزہ دیتی ہیں‘‘ ناول کے تمام پہلوؤں کو ابھارا گیا ہے، جو اس کی اہمیت و وقعت کو عیاں کرتے ہیں، دوسرا تجزیہ ’’بہت دیر کردی‘‘ علیم مسرور کے افسانہ کا ہے، اس افسانہ میں زندگی کے مشکلات ومسائل کی منظر کشی ممبئی کے تناظر میں ملتی ہے، جس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اور اس افسانہ کا انتخاب ہمیں یہ بھی پیغام دیتا ہے کہ کس طرح ناول نگاری عناوین کے اعتبار سے وقیع ہوتی جارہی ہے، حسن و عشق کے واقعات کے ساتھ ساتھ سماجی بنیادوں پر بھی ناول تخلیق کئے جانے لگے ہیں۔ تیسرا تجزیہ قرۃ العین حیدر کے مشہور ناول ’’چاندنی بیگم‘‘ اس سے قبل ناول ہیرو کے وجود پر زندہ رہتا تھا، اس ناول میں قرۃ العین حیدر نے ناول کے مرکزی کردار کو درمیان میں ہی رخصت کردیا، اس لئے ناقدین نے اس اعتراض بھی کئے، اور داد و تحسین بھی دی، چونکہ یہ ناول نگاری میں نئی جہت کا آغاز تھا، ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے اس ناول پر فنی بحث پر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’چاندنی بیگم میں عینی آپا نے اپنے قلم کا خوب استعمال کیا ہے‘‘ اس ناول کی خوبیوں کو ثابت کرنا، اس کا ذکر ناول کی ایک مرکزی تبدلی سے روبرو کرتا ہے، اس کے بعد انتظار حسین کے ناول ’’چاند گہن۔زندگی کی سچی تصویر‘‘ کا تجزیہ کیا گیا ہے، یہ ناول بھی مختلف رنگ کا ہے، اس ناول میں مصنف کہانی میں داخل ہوتا ہے، اپنے تجربات واحساسات بیان کرنے لگتا ہے، جو عام طرز سے مختلف ہے، اس ناول میں زندگی کے نشیب و فراز انسان کی اخلاقی صورت حال کو نشانہ بنایا ہے۔ اسلم جمشید پوری اس سے متعلق لکھتے ہیں: ’’انتظار حسین نے ناول میں بھٹکے ہوئے مسلم نوجوانوں کی صورت حال کو پیش کیا ہے چند مسلم نوجوانوں کے توسط سے پوری مسلم قوم کی حالت کو کچھ اس طور پر پیش کیا ہے کہ یہ زندگی کی اصل تصویر لگتی ہے‘‘ افسانہ کا تجزیہ انتظار حسین کی فنی حیثیت و منفرد تخلیقی پس منظر کو عیاں کرتا ہے،اس کے بعد یعقوب یاور کے ناول ’’عزازیل‘‘ پر تجزیہ کیا گیا ہے، شیطان کی زندگی کے ابتدائی دور سے متعلق واقعات کو یعقوب ناول کا رنگ وہ بھی انفرادیت کا حامل ہے، مصنف نے اس ناول کا انتخاب کیا اور اس کی خوبیوں مصنف کی محنت و مشقت اور حسن انتخاب کی داد دی ہے، اختر آزاد کا ’’لمیٹڈ گرل‘‘ موجودہ دور کے طرز زندگی کا عکاس ہے، عورتوں کی صورت حال، معاشرہ کی گرتی اقدار کو ناول نگار نے سپرد قرطاس کیا ہے۔ اسلم جمشید پوری اس سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’اختر آزاد کا یہ ناول موجودہ زمانے کا کچا چٹھا ہے، آج کے سیاسی وسماجی منظر نامے کی ایک زندہ تصویر ہے‘‘ ان جملوں کے ذریعہ مصنف ناول کے پلاٹ سے واقف کرایا اور اس کی خوبیوں کو بیان کیا ہے، ناول کی جدت اسلوب کی خوبی، مکالموں کی عمدگی ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھا ہے،’’آخری سواریاں سید محمد اشرف اس ناول کا تجزیہ کیا گیا، ناول انتہائی عمدہ اور شاندار ہے، تجزیہ پڑھنے کے بعد انسان مچل اٹھتا ہے، اور یہ چاہتا کہ اس ناول کا مطالعہ کرے، منظر نگاری، کردار نگاری پلاٹ اس ناول کی اہم خصوصیات ہیں، جو تجزیہ سمجھے جاسکتے ہیں، البتہ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری تجزیہ نگار ہیں قصیدہ نگار نہیں ہیں، انہوں نے تمام تجزیوں میں اس پہلو کو مد نظر رکھا ہے، دلیل کے طور پر ایک جملہ پیش خدمت ہے: ’’سید محمد اشرف کی زبان اپنے معاصرین میں انفرادیت کی حامل ضرور ہے، لیکن سب سے اچھی قطعی نہیں ہے‘‘ اس جملے سے احساس ہوتا ہے کہ وہ حقائق کو بیان کرتے وقت تخلیق کو قاری سے قریب تر کرتے ہیں، تیسرا رنگ ناولٹ کا ہے، ناولٹ میں بھی مصنف گزشتہ اصناف کی طرح ایک اردو ناولٹ نگاری کے سفر کی روداد بیان کی ہے، ناول اور ناولٹ کے درمیان فرق ثابت کیا ہے، اس صنف کے مختلف ادوار اور حالات پر روشنی ڈالی ہے، اس کے فنی امتیازات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس سفر پر گامزن قرۃ العین حیدر کی ناولٹ نگاری کو موضوع بحث لایا گیا ہے، ان کی ناولٹ نگاری پر مفصل اور دلائل سے بھرپور گفتگو کی گئی ہے، تین ناولٹ پر تجزیہ تحریر کیا گیا ہے، سب سے پہلے لندن کی ایک رات جس کے ناولٹ ہونے پر اختلافی بحث کو بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس کو ناولٹ کے ضمن رکھنا اس بات کی جانب مشیر ہے کہ مصنف ان آراء کو راجح سمجھتے ہیں، جو اسے ناولٹ کہتی ہیں۔(مضمون نگاری کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضرورری نہیں ہے ) 
14؍اپریل2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا