English   /   Kannada   /   Nawayathi

غزہ ایک خوبصورت اور تاریخی شہرہے

share with us

بلکہ جب باشندگان غزہ کی ا?نکھیں صبح کھلتی ہیں تو اسرائیلی لڑاکو طیارے سر پر منڈلاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جب بستر پر جاتے ہیں تو توپوں اور ٹینکوں کی آواز سے نیند اڑ جاتی ہے۔غزہ کو تین نسلوں نے آباد ہوتے ہوئے اور اجڑتے ہوئے دیکھاہے ، کبھی مزاحمت دیکھی ،کبھی خوش کن قبضہ دیکھا اور کبھی بد ترین شکست و ریخت دیکھی۔
غزہ کو آج اسرائیل نے مکمل طور پر محاصرہ کر رکھا ہے ؛اندرونی معاملات کے ساتھ ساتھ خارجی معاملات اور صنعت و تجارت پر بھی کنٹرول کر رکھا ہے ،تمام چوکیوں پر اسرائیلی حفاظتی دستے ناگ کی طرح پھن پھلائے براجمان ہیں؛ ۔اس مقہور و مظلوم علاقہ کوظالم اسرائیل نے 38سال تک اپنے دست قدرت میں رکھا اور جب عالمی دباؤکی وجہ سے چھوڑناپڑا تو ظلم و ستم کا بازار گرم کر دیا۔قارئین کرام کو یاد ہوگا 2009۔۔2008میں اسرائیل نے غزہ پر پے در پے حملے کئے تھے ،میڈیا رپورٹ کے مطابق حملہ کے اول یوم 500بے گناہ فلسطینی مارے گئے تھے اور 12دن کے بعد یہ تعداد 1000سے تجاوز کر گئی تھی ؛اس حملے میں صیہونی ملک نے فلسطینیوں پر کثیف غیرعامل دھاتی دھماکہ خیزمواد کا بے دریغ استعمال کیا تھا۔سال گزشتہ تین یہودی بچوں کے خون کا بہانہ بناکر تین ہفتے تک فلسطینیوں پر وحشیانہ حملے کرتے رہے جس میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہو گئے تھے جس میں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد تھی ،ہزاروں افراد زخمی ہوئے تھے ، اسپتالوں میں مریضوں کو رکھنے کے لئے جگہ تک دستیاب نہیں ہو پا رہی تھی ،حالانکہ فلسطینی صدر محمود عباس نے ان تینوں یہودی بچوں کے قتل پر بھرپور مذمت کی تھی ، مجرمین کی گرفتاری اور سزا کی یقین دہانی بھی کرائی تھی تاہم اسرائیل نے ایک نہ سنی۔اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔گزشتہ 31جولائی کو مقبوضہ غرب اردن میں ایک گھر نذرآتش کر دیا گیا جس میں ایک معصوم بچہ علی سعد جل کر شہید ہو گیا ،سعد اور اس کی بیوی نے دوران علاج ہوسپیٹل میں دم توڑ دیا جبکہ ایک بچہ صرف بقید حیات ہے۔اور یہ دل خراش عمل متعصب یہودیوں کا تھا۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بدبخت اسرائیل نے بے گناہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لئے ایک خود ساختہ قانو ن’’انتظامی حراست ‘‘ بنا ر کھا ہے جس کا مطلب ہے کہ جب چاہیں جس کو چاہیں بغیر وجہ بتائے اسرائیلی پولیس گرفتار کر سکتی ہے ،مہینوں سلاخوں کے اندر رکھ سکتی ہے ،اور تشدد بھی کر سکتی ہے ؛ابھی ایسے ہی قیدیوں میں سے 85فیصد قیدیوں کی سزا ؤں کوتجدید کر کے4سے6ماہ کا اضافہ کر دیا ہے ، یہ اسرائیلی درندے کم سن فلسطینی بچوں پر تھرڈڈگری تشدد کرتے ہیں اور نازک اعضاء کو سگریٹ سے جلاتے ہیں۔ہٹلر نے خود کشی کرنے سے پہلے آنے والی نسلوں کے لئے ایک خط چھوڑا تھا ،ابتداء میں اس کی اشاعت پر پابندی تھی تاہم بعد میں اٹھا لی گئی ،اس میں اس نے لکھا ہے :’’یہ نسل (یہودی )صرف جرمنوں کی ہی نہیں بلکہ اپنے علاوہ ہر قوم کی دشمن ہے ،یہ ہمیشہ دنیا کے لئے خطرہ بنی رہے گی ، مجھے یقین ہے کہ آنے والے مو رخ مجھے یہ کریڈٹ ضرور دیں گے کہ 50فیصد خطرے کو میں نے مٹا دیا ہے ،لیکن 50فیصدیا اس سے زیادہ ابھی بھی باقی ہیں اور یہی پوری نسل انسانی کے لئے خطرہ بنے رہیں گے۔میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ اگر تیسری عالمی جنگ ہوئی تو اس بد فطرت قوم کی سر گرمیوں اور سازشوں کے نتیجے میں ہی ہوگی۔‘‘اور میرے خیال سے ہٹلر کی پیش گوئی حقائق بر مبنی ہے۔
یوں تو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تنازع کی ابتداء برطانوی دور اقتدار میں 1922ء میں ہوئی ؛1929 ء میں مقبوضہ بیت المقدس،الخلیل اور دیگر علاقوں میں فسادات بھی ہوئے ،1947ء4 کے اقوام متحدہ کے منصوبۂ تقسیم کے تحت غزہ کو فلسطین کا حصہ ہونا تھا لیکن 14مئی 1947ء میں جب اسرائیل وجود میں آیا تو مصری افواج نے غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا مگر اسے مصر کا حصہ نہیں بنایا ؛نتیجتاًاس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بین گوریان نے غزہ پٹی کو اسرائیل کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کردی تاہم غزہ کی پٹی اسرائیل کا حصہ تو نہیں بن سکی ! البتہ صیہونی حکومت نے پورے غزہ کو ہی اپنے اسلحوں کی تجربہ گاہ بنا دیا۔غزہ کی صورت حال پر 2اکتوبر کو اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں واضح ہے کہ ’’غزہ میں جنگ اور اسرائیل کے اقتصادی محاصرے کے باعث حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں ،اگر غزہ کی صورت حال بہتر نہ ہوئی تو5سال سے بھی کم عرصہ میں غزہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا ‘‘۔غزہ کی معیشت کے باریمیں بھی اقوام متحدہ نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے ’’:گزشتہ 8برسوں میں غزہ کا اقتصادی محاصرہ اور 6برسوں کے دوران اسرائیل اور فلسطین کی 3جنگوں (روزانہ کی جھڑپوں اور اس کے علاوہ ہونے والی ہلاکتوں اور نقصانات کو چھوڑ کر)سے معیشت تباہ ہو گئی ہے ؛غزہ کے بعض علاقے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے ہیں ؛جنگ کے سبب متوسط طبقے کی جمع پونجی ختم ہو گئی ہے ؛تمام آبادی کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے ؛غزہ کی خام ملکی پیداوار گزشتہ برس کے مقابلے ۵۱ فیصد کم ہوئی ہے ؛غزہ میں آدھے مکانات تباہ ہو چکے ہیں ؛بے روزگاری کی شرح 44 فیصد تک پہونچ گئی ہے ؛غزہ میں موجود 72فیصد خاندانوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے ‘‘۔فلسطینی وزیر برائے انسانی حقوق کے نائب صدر حمدی شکورا نے کہا ہے کہ ’:’گزشتہ ایک ماہ میں 5لاکھ افراد بے گھر ہو گئے ہیں ، ایک بڑا علاقہ کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے ،گھر بنانے کے لئے سیمینٹ اور اینٹیں تک دستیاب نہیں ہیں۔‘‘وزیر برائے مشرق وسطیٰ ٹوبیاڑریلووڈنے فلسطینی اتھارٹی وزیر محنت مامون ابو شہلا سے ملاقات کے لئے حال ہی میں غزہ کا دورہ کیا ،دورے کے بعد کہا :میں نے آج اس موسم گرمامیں غزہ کے تنازع میں ہونے والے تباہ کن اثرات چشم دید دیکھے ؛مجھے غزہ کے عام شہریوں کے مصائب و آلام دیکھ کر شدید دکھ اور صدمہ ہوا ؛غزہ میں ہم نے جو تشدد دیکھا وہ ناقابل برداشت ہے ؛ اس کے لئے انسانی امداد کافی نہیں ہے۔‘‘
آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ غزہ میں ادویات کی عدم موجودگی ،خوراک کی قلت اور بنیادی ضروریات کے فقدان نے تمام شعبہ ہائے حیات کو بری طرح متاثر کیا ہے ،شیر حوار بچوں کی شرح اموات پچھلی نصف صدی میں بلند ترین سطح پر پہونچ گئی ہے اور سال در سال یہ تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔جب اسرائیلی محاصرے کے باوجود خفیہ سرنگوں کے ذریعہ غذا ،ادویات اور ضروریات زندگی کی اشیاء4 پوری کی جاتی تھی تو حالات قدرے بہتر تھے لیکن اب ان سرنگوں کو بھی مصری افواج نے بھر دیئے ہیں بلکہ بعض سرنگوں میں پانی تک چھوڑ دیئے ہیں جس کی وجہ سے باشندگان غزہ کی زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئی ہے ،اسی وجہ سے اقوام متحدہ نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ شاید ۵ سال کے بعد غزہ رہنے کے قابل نہ رہے۔اور اسی شدید خطرات کو بھانپتے ہوئے28اگست کو دنیا بھر کے 35بین الاقوامی نوعیت کے انسانی حقوق کے اداروں نے فلسطین کے محاصرہ زدہ علاقے غزہ پر پابندیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ہر قسم کی پابندی ہٹانے کا پرزور مطالبہ کیا ہے لیکن افسوس صد افسوس عالمی برادری اسرائیل کو پابندی ہٹانے پر مجبور نہیں کر رہی ہے۔اوراگر اسی طرح اسرائیل غزہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا رہا ،ان کے گھروں کو نذر آتش کرتا رہا ،ان کے جوانوں کو بے سبب پابند سلاسل کرتا رہا ،سلاخوں کے پیچھے دھکیلتا رہا ،رات کے اندھیروں میں اور دن کے اجالوں میں گولیاں برساتا رہا ،غذا ،ادویات اور دوسری ضروریات زندگی سے محروم رکھا اور عالمی برادری خاموش تماشائی بنی رہی تو وہ دن دور نہیں جب غزہ صرف تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائے گا

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا