English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلمانانِ بہار کے نام

share with us

ملک کی عام فضا میں جو بی جے پی کا طوطی بول رہا تھا اب خاموش ہوتا نظر آرہا ہے،اگر بہار میں بھی دہلی جیسا نتیجہ آگیا تو اس کے اقبال کا خاتمہ بظاہر یقینی ہوجائے گا، اس لیے بہار کا یہ اسمبلی الیکشن ایک بے نظیر قسم کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، پٹنہ سے لے کر دہلی تک کے باخبر حلقوں میں جس طرح کی خبریں اور تجزیے آجکل موضوع گفتگو بنے ہوئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ برادران وطن کی کچھ برادریاں اور مسلمان مل کر بہار میں بھی بی جے پی کی شکست کا سامان کر رہے ہیں، اگر ایسا ہوگیا تو آپ جانتے ہیں کیا ہوگا؟ مرکز کی مودی حکومت ملک کے بھگواکر ن کے جس راستے پر گامزن ہے اس پر روک لگ سکے گی، وہ جو شتر بے مہار بنی ہوئی ہے اس کو لگام دی جاسکے گی۔
آپ کے علم میں ہے کہ بی جے پی کی حکومت والے کئی صوبوں میں سرکاری اسکولوں میں سوریہ نمسکار لازم کردیا گیا ہے،جو ایک خالص شرکیہ عمل ہے، اور کوئی مسلمان کسی بھی صورت میں اپنی اولادوں کے لیے اسے برداشت نہیں کرسکتا، کچھ جگہ گیتا کو بھی تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے،یہ سب کچھ ان ہی صوبوں میں ہورہا ہے جہاں بی جے پی کی حکومت قائم ہے، اگر بہار میں بھی ان کی حکومت قائم ہوئی تو آئندہ یہی سب بہار میں بھی ہوگا، کیا آپ اپنے بچوں کے لیے ان شرکیہ اعمال کو قبول کرلیں گے؟ اوریہ سب بہار میں ہی نہیں ہوگا بلکہ مرکزی حکومت اس فتح سے حوصلہ پاکر پورے ملک میں بھگوا کرن کا اپنا عمل تیز کردے گی، اور اگر اسے شکست ہوئی تو اس کے عزائم پر روک لگے گی، اور دوسری طاقتیں مزید طاقتور ہوکر یا مزید حوصلہ پاکر اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں گی، پس یہ اسمبلی الیکشن ملک کا رخ طے کرے گا کہ وہ بھگوا راستہ پر جائے گا، یا کسی حد تک سیکولر بچ سکے گا، یعنی آپ کے ہاتھ میں ملک کا رخ طے کرنے کا موقع ہے، جو بڑی ہوش مندی اور دانشمندی کا متقاضی ہے، دوسری طرف مسلمانوں سمیت ان تمام طبقات اور برادریوں کے ووٹ تقسیم کرنے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں جو بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈالنے جارہے ہیں، اس سلسلہ میں تین کوششیں شروع ہوچکی ہیں، ان تمام کوششوں یا فتنوں کا مقابلہ آپ کو بہت دانشمندی کے ساتھ کرنا ہے، اور ہر وقت یہ بات ذہن میں رکھنی ہے کہ کون سی پارٹی یا کون سا اتحاد بی جے پی کو شکست دینے کی پوزیشن میں ہے، اور کون سی پارٹی یا اتحاد ایسا نہیں کرسکتا۔
اس سلسلہ کی ایک کوشش ملائم سنگھ کو مہا گٹھ بندھن سے الگ کرکے ہوئی ہے، وہ اس اتحاد سے کیوں الگ ہوئے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، ان کے اس فیصلہ سے پہلے ان کی اور ان کی پارٹی کے چند دیگر لیڈران کی بی جے پی کے بڑے لیڈروں سے کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں، جس کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے، ان کی مجبوری یہ ہے کہ ان کے خلاف کئی الزامات کی تحقیق سی بی آئی کررہی ہے، اور سی بی آئی کیا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں، وہ مرکز کی حکمراں پارٹی کا ایک تھانا بن کے رہ گئی ہے، کانگریس کی حکومت تھی تو یہ ایجنسی امت شاہ کے خلاف نہ جانے کیا کیا ثبوت پیش کررہی تھی حکومت تبدیل ہوئی تو اسی ایجنسی نے اسی ملزم کو کلین چٹ دیدی، ملائم سنگھ کو ڈر ہے کہ اگر وہ مہا گٹھ بندھن کا حصہ بنے رہے اور اس طرح انہوں نے بی جے پی کو ناراض کیا تو ان کے اگلے کئی برس جیلوں میں بھی گزر سکتے ہیں،دہلی کے باخبر حلقوں میں یہ خبر بھی گرم ہے کہ اس فیصلہ کے لیے انہوں نے بی جے پی سے پوری ایک ڈیل کی ہے، جس کے مطابق سی بی آئی انہیں بخشتی رہے گی، نیز یوپی حکومت کے جو کئی منصوبے اس وقت مرکزی حکومت کے پاس ہیں وہ منظور کرلیے جائیں گے، اور یوپی حکومت کی مرضی کے مطابق لوک آیکت کا تقرر ہوسکے گا، جس کی راہ میں راج بھون مسلسل روڑے اٹکا رہا ہے۔ ملائم سنگھ نے این سی پی کے ساتھ اتحاد کیا ہے اور اس اتحاد کو این سی پی کے ساتھ کیے گئے اتحاد سے زیادہ ایک مسلم لیڈر طارق انور کے ساتھ ہوئے اتحاد کی صورت میں پیش کی جارہا ہے، یہ سب کیوں ہورہا ہے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں یہ درحقیقت مہا گٹھ بندھن کے دو بڑے ممکنہ حمایتی طبقات (مسلمان اور یادو برادری) کے ووٹ منتشر کرنے کی سازش ہے، کیا آپ صرف طارق انور کا چہرہ دیکھ کر اس سازش کے شکار ہوجائیں گے، یقین جانیے یہ سازش مسلمانوں اور یادووں کی بصیرت کا ایک امتحان بھی ہے۔
مسلمانوں کا ووٹ منتشر کرنے کی دوسری کوشش جنوبی ہند سے امپورٹ کی گئی ہے، یہ اویسی برادران کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ہے، جس نے بہار کی کچھ مسلم اکثریتی نشستوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے، کمال ہے جو پارٹی ابھی تک اپنے مرکزی مقام تلنگانہ وآندھر پردیش میں کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہیں کرسکی ہے وہ وہاں صحیح طریقہ سے اپنے پاوں پر کھڑے ہونے سے پہلے زائد از ہزار کلومیٹر کی دوری طے کرکے بہار میں کچھ کرنا چاہتی ہے،یہ پارٹی بہت کرسکی تو زیادہ سے زیادہ سیمانچل کی ایک دو سیٹیں حاصل کرسکے گی، ان سیٹوں سے کیا حاصل ہوگا، کیا حکومت کی تشکیل میں اس طرح کوئی کردار ادا ہوسکے گا؟ پھر اس کی قیمت کیا دینی ہوگی ذرا یہ بھی سوچیے، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ پارٹی کم از کم دس پندرہ سیٹیں تو بی جے پی کو جتوا دے گی،اور جس طرح کا کانٹے کا مقابلہ بہار میں ہونے جارہا ہے اس میں یہ دس پندرہ سیٹیں ہی فیصلہ کن ہوجائیں گی، آپ کی پڑوسی ریاست یوپی میں مسلمانوں کی دو پارٹیاں پچھلے اسمبلی الیکشن میں میدان میں تھیں، ان دونوں کو کل چار سیٹیں حاصل ہوئی تھیں لیکن پندرہ سے زائد سیٹوں پر بی جے پی اس طرح جیتی تھی کہ جتنے ووٹ سے اس نے اپنے قریبی حریف کو ہرایا تھا اتنے یا اس سے کچھ زائد ووٹ ان دو مسلم پارٹیوں کے امیدواروں کو مل گئے تھے، یعنی انہوں نے مسلم ووٹ منتشر کرکے بی جے پی کو فتح دلائی تھی، یہی کام بہار میں مجلس اتحاد المسلمین بھی کرنے جارہی ہے، پھر یاد رکھیے اس پارٹی کا نقصان صرف وہیں نہیں ہوگا جہاں یہ الیکشن لڑے گی، بلکہ اس کا اثر پورے بہار پر پڑے گا، اس لیے کہ اویسی برادران بالخصوص چھوٹے میاں (اکبر الدین اویسی)کی شبیہ ان کے غلط اور غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے سخت گیر مسلم لیڈروں کی ہوگئی ہے، پھر جب یہ لیڈران بہار میں آکر اپنی زبان بولیں گے اور بکا ہوا میڈیا ان کے جملوں کو مزید دھار دار بناکر نقل کرے گا، تو پورے بہار کے ہندووں پر اس کا کیا اثر پڑے گا ہم آپ سب سمجھ سکتے ہیں، یہ دونوں برادران جس طرح کی تقریریں کرتے ہیں کیا ان کو سن کر برادران وطن کے اندر فرقہ وارانہ جذبات نہیں بھڑکیں گے، اور کیا ان کی ہمدردیاں رد عمل میں بی جے پی کے حق میں نہیں جائیں گی، یہ ایک بڑا چیلنج ہے جس کا سامنا اس الیکشن میں بہار کے مسلمانوں کو کرنا ہے، انہیں اپنی دانشمندی کا ثبوت دینا ہے۔
مسلمانوں کا ووٹ منتشر کرنے کی تیسری کوشش بڑی عجیب سی ہے، یہ ایک نئی تنظیم ہے، جس کا نام ہے: متحدہ ملی مجلس، اس کے ذمہ داران نے بارہا اپنی پریس کانفرنسوں میں ایک مشہور شخصیت کا نام اپنے سرپرست کے طور پر لیا ہے، اور کبھی اس محترم شخصیت نے اس سے انکار بھی نہیں کیا ہے، اس لیے یہ کہنے میں اب کوئی تأمل نہیں ہوتا کہ یہ مشہور شخصیت اس تنظیم کی سرپرست ہے، اور جو کچھ یہ نومولود تنظیم کررہی ہے وہ اسی شخصیت کے اشارہ پر کررہی ہے، یہ شخصیت کوئی معمولی شخصیت نہیں ہے، گزشتہ دنوں اسے ہندوستانی مسلمانوں کے سب سے معتمد ادارہ کا ایک بڑا منصب ملا ہے، ان کی زیر سرپرستی کام کرنے والی اس تنظیم کا مقصد کیا ہے یہ اب بالکل واضح ہوچکا ہے، ۲۵؍اگست کو جاری ہونے والی اپنی پریس ریلیز میں اس تنظیم نے اپنا یہ ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ نتیش اور لالو کو اقتدار نہیں حاصل کرنے دے گی، لالو اور نتیش سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیں، ہمیں یہ بھی احساس ہے کہ ملک کے دیگر نام نہاد سیکولر لیڈروں کی طرح انہوں نے بھی مسلمانوں سے ووٹ تو لیے ہیں لیکن مسلمانوں کے لیے جو کچھ انہیں کرنا چاہیے تھا انہوں نے نہیں کیا ہے، ہمیں ان دونوں سے کچھ شکایتیں بھی ہیں، لیکن صاحبو! ذرا غور تو کیجیے کہ اگر اس الیکشن میں یہ اتحاد اقتدار نہیں پاتا ہے تو پھر اقتدار کس کو ملے گا؟ یہ سوال کچھ پیچیدہ نہیں کہ اس کا جواب دینے کے لیے بڑے غور وفکر کی ضرورت ہو، بالکل واضح ہے کہ اگر یہ نہیں تو پھر اقتدار بی جے پی کو ملے گا، وہی بی جے پی جو سوریہ نمسکار کو لازم قرار دے رہی ہے، اور ملک کو ایک مخصوص تہذیب کے رنگ میں رنگنے کی کوشش میں ہے، پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اقتدار سے لالو اور نتیش کو باہر کریں گے وہ واضح طور پر یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ہم بی جے پی کو اقتدار دلائیں گے، اور پھر بہار میں بھی سوریہ نمسکار جیسی چیزوں کو مسلط کرائیں گے، یہ سب دیکھنے اور سننے کے بعد جب کان یہ بھی سنتے ہیں کہ سرپرست محترم کی چند ہفتوں پہلے ایک مرکزی وزیر سے کئی گھنٹوں لمبی ملاقات ہوئی ہے جسے خفیہ رکھنے کی کوششیں کی گئی ہیں، تو بس افسوس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا، کیسے کہا جائے کہ مقامِ احترام وپاسِ لحاظ ہے اور ان کا برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے۔
پس اے مسلمانانِ بہار! یہ الیکشن آپ کی دانشمندی اور بصیرت کا امتحان ہے، اگلے چند مہینے آپ کے لیے چیلنج بھرے ہیں، آپ کو موقعہ ملا ہے کہ آپ اپنے صوبہ ہی کو نہیں پورے ملک کو بھگوا رنگ میں رنگنے کی کوشش کرنے والوں کے راستہ میں رکاوٹ ڈالدیں، کیا آپ ایسا نہیں کریں گے! یاد رکھیے آپ کے جذبات بھڑکائے جائیں گے اور آپ سے کچھ اس طرح کی باتیں کی جائیں گی کہ آپ کے ووٹ منتشر ہوں، اس کی بھی کوشش ہوگی کہ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی جائے تاکہ برادران وطن کی ہمدردیاں سخت گیر ہندو عناصر کے حق میں جائیں، لیکن آپ کو ایسی ہر کوشش وسازش کو ناکام کرنا ہے، یہی وقت کا تقاضہ ہے، اگر آپ نے ایسا کردیا تو آپ ملک کی سیاست کا رخ بدل دیں گے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا