English   /   Kannada   /   Nawayathi

1965 بھارت۔پاکستان جنگ کی گولڈن جبلی پر خاموشی کیوں ؟

share with us

اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل ایوب خان نے بھارت کے خلاف مکمل جنگ کا اعلان کیاتھا۔ تین ہفتوں تک چلی شدید لڑائی کے بعد دونوں ملک اقوام متحدہ کی ثالثی سے جنگ بندی پر متفق ہو گئے تھے۔ بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور ایوب خان کے درمیان تاشقند میں میٹنگ ہوئی جس میں ایک منشور پر دونوں نے دستخط کئے۔اس کے تحت دونوں رہنماؤں نے سارے باہمی مسئلے پرامن طریقے سے حل کرنے کا عزم ظاہرکیا۔ دونوں رہنما اپنی اپنی فوج کو اگست، 1965 سے پہلے کی سرحد پر واپس بلانے پر راضی ہو گئے۔ لعل بہادر شاستری کی تاشقند معاہدے کے ایک دن بعد ہی پراسرار حالات میں موت ہو گئی۔
جنگ کیوں ہوئی؟
جنگ چھیڑنے کی پہل بھارت نے کی یا پاکستان نے؟ اس سوال کا جواب ذرا مشکل ہے کیونکہ دونوں اس کے لئے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ جانکاروں کا ماننا ہے کہ جنگ کے لئے ہندوستان کو پاکستان نے اکسایا تھا۔ پاکستان کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی محمود علی درانی تسلیم کیاتھا کہ پاکستان نے بھارت کو جنگ کے لئے اکسایاتھا۔ مارچ کے مہینے میں ہی پاکستان نے سرحد پر چھوٹی موٹی دراندازی اور فائرنگ کرنی شروع کر دی تھی۔ تب برطانیہ کی ثالثی پر معاملہ سلجھ گیا تھا، لیکن پاکستان کے ارادے کچھ اور ہی تھے۔ پاکستان کشمیر کے عوام کو اپنے دراندازوں کی مدد سے بھڑکا کر بھارت کے خلاف بغاوت کروانا چاہتا تھا۔ اس نے اس مشن کا نام رکھا تھا’’آپریشن
جبرالٹر‘‘ 5 اگست کو پاکستان نے بھارت کے خلاف سرکاری طور پر جنگ چھیڑ ا۔ پاکستان کے 30۔40 ہزار فوجی بھارت کے قبضے والے کشمیر میں گھس گئے۔ پاکستان کو امید تھی کہ ہندوستان کو کشمیر میں دراندازوں سے مقابلہ کرنے میں الجھا کر وہ کشمیریوں کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کر لے گا۔ اس دوران کشمیری عوام بھی ہندوستانی فوج کے خلاف بغاوت کر دینگے اور کشمیر کا بھارتی حصہ بھی پاکستان کے ہاتھ میں آ جائے گا۔ بھارت چین سے جنگ ہارنے کے بعد اس حالت میں نہیں تھا کہ پھر سے ایک جنگ جھیل سکے۔اسی کمزوری کا فائدہ پاکستان نے اٹھایا۔ جیسے ہی بھارتی حکومت کو پاکستانی فوج کے کشمیر میں گھسنے کی خبر ملی۔ کشمیر بچانے کی کوشش میں ہندوستانی فوج نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے بین الاقوامی کنٹرول لائن پار کر رہے دراندازوں پر حملہ بول دیا۔ہندوستانی فوج نے ابتدا میں ہی ان تین پہاڑی علاقوں کو پاکستانی دراندازوں کے قبضے سے آزاد کرا لیا جنھیں پاکستانی نے قبضہ میں لے لیا تھا۔
’’گرینڈ سلیم‘‘ مہم
جنگ شروع ہونے کے ایک ہفتے کے اندر ہی پاکستان نے ٹتھوال، اڑی اور پونچھ کے کچھ اہم علاقوں میں قبضہ کر لیاتھا، لیکن، 15 اگست 1965 کا دن ہندوستان کے لئے مبارک ثابت ہوا۔ 15 اگست کو ہندوستانی فوج کو اضافی ٹکڑیوں کی کمک مل گئی اور بھارت نے پاکستان کے قبضہ والے کشمیر میں 8 کلومیٹر اندر گھس کر حاجی پیر دررے پر اپنا پرچم لہرا دیا۔ ایک وقت پاکستان کو لگنے لگا کہ اہم شہر مظفر آباد بھی ہندوستان کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ ہندوستانی فوج کا حوصلہ توڑنے کے لئے پاکستان نے ’’گرینڈ سلیم‘‘ مہم چلائی اور کشمیر کے اکھنور اور جموں پر حملہ بول دیا۔ چونکہ باقی ہندوستان سے کشمیر میں رسد اور دیگر راحت پہنچانے کے لئے یہ اہم علاقے تھے، اس لئے ہندوستان کو جھٹکا لگا۔ جب بری فوج سے کام نہیں چل پایا تو ہندوستان نے فضائی حملے کرنے شروع کئے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے سری نگر اور پنجاب ریاست پر بری اور فضائی حملے کرنے شروع کر دئے۔اکھنور پر پاک حملے کو لے کر بھارت فکر مند ہو گیا تھا۔ بھارت جانتا تھا کہ اکھنور پر پاکستان کا قبضہ ہو گیا تو پورا کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ بھارت پوری طاقت سے اکھنور کو پاک حملے سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ پاکستان کی بہتر صورت حال اور بھارت کی کمزور حالت کے باوجود پاکستان کی ’’گرینڈ سلیم‘‘مہم فیل ہو گئی۔ بھارت کے لئے یہ راحت کی بات تھی۔
امریکہ کی مداخلت
6 ستمبر 1965 کو پاکستان کے درمیان اصلی سر حدلائن اچچھوگل نہر کو پار کرکے ہندوستانی فوج پاکستان میں گھس گئی۔ تیزی سے حملہ کرتی ہوئی ہندوستانی بری فوج کا کارواں بڑھتا رہا اور ہندوستانی فوج لاہور ہوائی اڈے کے قریب پہنچ گئی۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ ہو گیا۔ امریکہ نے بھارت سے اپیل کی کہ کچھ وقت کے لئے جنگ بندی کی جائے تاکہ وہ اپنے شہریوں کو لاہور سے باہر نکال سکے۔ہندوستانی فوج نے امریکہ کی بات مان لی اور اس کی وجہ سے ہندوستان کو نقصان بھی ہوا۔ اسی جنگ بندی کے وقت پاکستان نے ہندوستان میں کھیم کرن پر حملہ کر اس پر قبضہ کر لیا۔
کھیم کرن اور مناباؤ پر پاکستان کا قبضہ

دسمبر کو پاکستان نے مناباؤ پر حملہ کر دیا۔ دراصل پاکستان لاہور میں حملہ کرنے کو تیار ہندوستانی فوج کی توجہ بٹانا چاہتا تھا۔ مناباؤ میں پاکستان کو روکنے کے لئے مراٹھا رجمنٹ بھیجی گئی۔ مراٹھا فوجیوں نے جم کر پاک کا مقابلہ کیا لیکن رسد کی کمی اور کم فوجی ہونے کے چلتے مراٹھا فوجیوں کی جان نہیں بچ پائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 10 دسمبر کو پاکستان نے مناباؤ پر قبضہ کر لیا۔کھیم کرن پر قبضے کے بعد پاکستان امرتسر پر قبضہ کرنا چاہتا تھا لیکن اپنے ملک میں ہندوستانی فوج کی برتری دیکھ کر اسے قدم روکنے پڑے۔ 12 ستمبر تک جنگ میں کچھ ٹھہراؤ آگیا۔
جنگ کے نتائج
اس جنگ میں بھارت اور پاکستان نے بہت کچھ کھویا۔ اس جنگ میں ہندوستانی فوج کے قریب 3000 اور پاکستان کے قریب 3800 جوان مارے گئے۔بھارت نے جنگ میں پاکستان کے 710 مربع کلومیٹر اور پاکستان نے بھارت کے 210 مربع کلومیٹر علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ بھارت نے پاکستان کے جن علاقوں پر کامیابی حاصل کی، ان میں سیالکوٹ، لاہور اور کشمیر کے کچھ انتہائی زرخیز علاقے بھی شامل تھے۔ دوسری طرف پاکستان نے بھارت کے چھب اور سندھ جیسے سینڈی علاقوں پر قبضہ کیا۔ آخر کار وہ وقت آیا جب اقوام متحدہ کی پہل پر دونوں ملک جنگ بندی کو راضی ہوئے۔ روس کے تاشقند میں ہندوستانی وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور پاکستان کے وزیر اعظم ایوب خان کے درمیان 11 جنوری 1966 کو سمجھوتہ ہوا۔ دونوں نے ایک منشور پر دستخط کرکے اپنے متنازعہ مسائل کو بات چیت سے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی اور یہ طے کیا کہ 25 فروری تک دونوں ملک اپنی جنگ سے قبل والی سرحد پر لوٹ جائیں گے۔ تاشقند معاہدے کچھ ہی گھنٹوں بعد شاستری جی کی پراسرار طریقے سے موت ہو گئی۔ سرکاری طور پر کہا گیا کہ تاشقند کی شدید سردی کی وجہ شاستری جی کو دل کا دورہ پڑا جبکہ، کچھ لوگ یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ ایک سازش کے ذریعے ان کا قتل کیا گیا۔ کچھ لوگ یہ بھی امکان ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستان پاکستان کے معاہدے میں کچھ مسائل پر عام رائے قائم نہ ہونے کی وجہ سے شاستری جی الجھن کا شکار ہو گئے اور انہیں دل کا دورہ پڑا۔
جنگ کا ہیرو حوالدار عبدالحمید
اس جنگ کے ہندوستانی ہیرو حولدارعبد الحمید تھے جنھوں نے غیرمعمولی بہادری دکھاتے ہوئے پاکستان کے ٹینکوں کو تباہ کردیا تھا۔ یہ امریکہ کے بنے ہوئے ٹینک تھے جو کھیم کرن سیکٹر(ضلع،ترن تارن،پنجاب) میں تباہی مچارہے تھے ۔ 32 سالہ ویر عبد الحمیدنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر راکٹ لانچر سے حملے کئے اور ان ٹینکوں کو تباہ کردیا جو ہندوستانی فوجیوں کے لئے نقصاندہ ثابت ہورہے تھے۔ یہاں پاکستان فوج بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی مگر عبدالحمید کی جوانمردی نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔حولدار عبد الحمید کی ’’گن مانٹیڈ جیپ‘‘بھی اگرچہ پیٹن ٹینکوں کے سامنے ایک کھلونے جیسی ہی تھی، مگر انہوں نے اپنی جیپ میں بیٹھ کر گن سے پیٹن ٹینکوں کے کمزور اعضاء پر درست نشانہ لگانا شروع کیا، جس سے طاقتور ٹینک تباہ ہونا شروع ہو گئے۔ ان کی اس ترکیب اور کامیابی سے باقی فوجیوں کا بھی حوصلہ بڑھ گیا، پھر کیا تھا، پاکستان فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔ اس مقام کو پاکستانی ٹینکوں کا قبرستان کہا جانے لگا۔ عبد الحمیدکی جیپ پر ایک گولہ گرا، جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گئے اور دو دن بعد ۱۰ستمبر کوشہید ہو گئے۔ اکیلے ویر عبد الحمید نے ہی سات پاکستانی پیٹن ٹینکوں کو تباہ کیا
تھا۔ان کی جیپ کے ڈرائیور تھے محمد نسیم جو آج بھی اس مشکل کو گھڑی کو نہیں بھولے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ’’حمید صاب نے شیر کی طرح حملے کئے تھے۔‘‘
کھیم کرن سیکٹر میں جن لوگوں نے جنگ لڑی تھی ان میں ایک ہندوستانی فوجی محمد نوشاد خاں بھی تھے جو ،اب۷۱ سال کے ہوچکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے ایک پاکستانی بریگیڈیئر نصیر احمد خاں کو مارا تھا جو اپنی جیپ پر سوار چلاآرہا تھا۔ اس کا ڈرائیور پہلو میں بیٹھا تھا اور وہ خود ہی جیپ چلا رہا تھا۔ 
امین رنگ وبو ہیں جان جانِ گلستاں ہم ہیں
زمانہ جس کو کہتا ہے بہار بے خزاں ہم ہیں

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا