English   /   Kannada   /   Nawayathi

’دین ودستور بچاو تحریک: مجھے فخر ہے تیرے عزم پر‘

share with us

حد تو یہ ہے کہ ملک دشمن اور فرقہ پرستی کے سہارے اپنے مفادات کے تحفظ کا خواب دیکھنے والی طاقتیں اپنے ناپاک عزائم کے تحت ہندوستان کے خوبصورت چہرے سے جمہوریت کی چادر کو اتار کر اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی سازشوں میں ایسی ڈھٹائی سے مصروف ہیں جس کی سنگینی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ،یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک کے چپے چپے اور کو نے کو نے میں نفرت و عداوت ظلم و بر بریت اور انا ری کی ایسی آگ جل ر ہی ہے جو کسی بھی وقت ملک کے وقار کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے ،اس صورت حال کی وجہ سے نہ صرف ہر شخص ڈرا سہما آنے والے ایام میں پیش آنے والے حادثات سے خوفزدہ ہے بلکہ کل تک آپسی محبت کی لڑی میں پرو کر رہنے اور ایک دوسرے کے درد و نفسیات کو سمجھ کر ملک کی ہر سو ترقی و خوشحالی کا فرض نبھانے والی قومیں ہی آپس میں دست بگریباں ہے اور وہ اپنے ہی ہاتھوں اس ملک کی جمہوریت کا گلا گھونٹتی دکھائی پڑ رہی ہیں ،عالم تو یہ ہے کہ ایک طرف جہاں خود غرضانہ سیاست کے تحت ملک کی جمہوریت پر سوالیہ لکیر کھینچی جا رہی ہے وہیں دوسری طرف بڑے پیمانے پر ایسے تانے بانے بنے جا رہے ہیں جو کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ معلوم ہو تے ہیں ،اس پورے منظر نامے میں مسلمانوں کی حالت بھی عجیب و غریب کشمکش کی شکار ہے یوں تو مسلمان طبقہ فرقہ پرستی اور حکومتی نا انصافی کا ہمیشہ سے ہی شکار رہا ہے لیکن آج اس میں اتنی شدت آگئی ہے جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ،مسلمان طبقہ میں ہر طرف بے اطمینانی و افرا تفری کا بازار گرم ہے ،کھلے عام ان کی عزت و آبرو کے سودے ہو رہے ہیں ،ان کے خون سے ہولیاں کہیل کر ان کی قوم پرستی کا امتحان لیا جا رہا ہے ،دہشت گردی کے سنگین الزامات کے تحت مسلمانوں کی نئی نسل کے مستقبل کو تاریکی کی دلدل میں پھنسانے کی منظم سازشیں رچی جارہی ہیں ،ان کے مذہبی تشخص کو پامال کرکے مسلمانوں کو اپنے ہی دین سے بے گا نہ بنا دینے کا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے ،مسلمانوں کے عائلی مسائل میں مداخلت کی آواز اٹھا کر ان کے جذ بات کو ٹٹولنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کو تعلیمی و اقتصادی اعتبار سے کمزور کر دینے کے حربے اپنائے جا رہے ہیں اور یہی نہیں بلکہ حد تو یہ ہے کہ جس قوم نے ملک کی آزادی کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے میں اہم رول ادا کیا ،جس قوم نے ظالم انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھائی ،جس کے آباو اجداد نے مادر وطن کی خاطر ڈیڑھ سو سال تک مسلسل اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ،جس قوم کے لوکوں نے تنہا انگریزوں کے مظالم سہے اور اس ملک کی آبرو کو بچانے کی خاطر پھانسی کے پھندے کو چوم کر خوشی خوشی اپنے گلے کا ہار بنا لیا ،جس قوم کو آزادی کی آواز اٹھانے کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ظلم و تشدد کا نشانہ بنا یا گیا ،جس کے پرکھوں نے اس ملک کو تاج محل کا حسن،لال قلعہ کی عظمت ، قطب مینار کا وقار اور جامع مسجد دہلی کی رعنائی اور اپنا لہو دے کر اس چمن کو ہرا بھرا اور خوبصورت بنا نے میں وہ کردار نبھایا جسے تاریخ کے پنوں سے چھانٹ کر الگ نہیں کیا جا سکتا ،لیکن ان سب کے باوجود آج وہی قوم اپنے حقوق کے لئے اس ملک میں در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے اور ان ہی کی اولاد کو دہشت گرد غدار وطن اور ملک دشمن کے لقب سے نواز کر ان کی غیرت کا امتحان لیا جا رہا ہے،کبھی ان کی عبادت گاہوں اور ان کی دینی درسگاہوں پر تر چھی نگاہ ڈال کر عالمی برادری کی نظر میں انہیں مشکوک بنا نے کی کوشش کی جا رہی ہیتو کبھی پورے ملک کو بھگوا رنگ میں رنگنے کے لئے درسی نصابوں میں تبدیلی لانے کی حیلہ سازی ہو رہی ہے ،غرض یہ کہ یہ اور اس طرح کے بے شمار ایسے حالات ہیں جس کی وجہ سے ملک کی جمہوریت اس وقت ننگی تلوار کی دھار پر کھڑی ہے اور اس کی جمہوریت پر خطرات کے ایسے بادل چھارہے ہیں جس کے چھٹنے کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں پڑتیایسی حساس صورت حال میں ضرورت اس بات کی تھی کہ مسلمانوں کا ذمہ دار طبقہ آپس کی دوریوں ،جماعتی و مسلکی اختلافات اور رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر پوری ذمہ داری و دانت داری کے ساتھ انکا حل تلاش کر نے کی جد و جہد کر تا اور مسلمانوں کے حقوق و مفادات کے ساتھ ملک کے جمہوری اقدار کی بقا و تحفظ کے لئے سیدھے سیدھے حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جاتی اور ان کو یہ صاف لفظوں میں بتا دیا جا تا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے مگر نہ تو اپنے مذہبی امور سے دست بردار ہو سکتاہے اور نہ ہی ملککی سالمیت اور اس کی جمہوریت کے خلاف کسی آواز کو برداشت کر سکتا ،کیوں کہ یہ ملک ہمارا ہے ،اور اس کی دھرتی کو سیچنے سنوارنے میں ہمارے اکابر کا لہو لگا ہے ،ویسے بھی اس وقت کسی ایک طبقے یا جماعت کا نہیں بلکہ پو رے ملک کی تقدیر کا ہے اور یہ طے ہے کہ اگر یہ ملک اسی روش کا شکار رہا اور اسے ان حالات کے گرداب سے نکالنے کی فکر نہیں کی گئی تو مہاتما گاندھی ،حضرت شیخ الہند ،مولانا حسین احمد مدنی اور ان جیسے سینکڑوں امن پسند لوگوں کی قربانیوں سے ترنگے کی شان کے ساتھ آزاد کہلانے والا یہ ملک ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جا ئے گا ،میں ملک کی سب سے معتبر ومتحرک تنظیم مسلم پرسنل لاء کی انتظامیہ اور اس کے سر گرم ذمہ داران کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جنہوں نے حالات کے موجودہ تناظر میں اس ملک کی آبرو کو بچا نے اور مسلمانوں کے اندر اپنے مذہبی امور کے تئیں پختگی پیداکر نے کی غرض سے تحریک کی شکل میں ایک اہم مہم کی شروعات کی ،اور مجھے چڑھتے سورج کہ طرح یقین ہے کہ ملت کا وقار اور اس کی آبرو کہلانے والے حضرت مولانا ولی رحمانی دامت بر کاتہم کی قیادت میں شروع کی گئی تحریک ملک میں ایک بڑے انقلاب کے رو نما ہو نے کا سبب بنے گی ،کیوں کہ تاریخ اس حقیقت سے بہت اچھی طرح واقف ہے کہ مسلم پرسنل لاء مسلمانوں کی وہ نمائندہ تنظیم ہے جو اپنے وجود سے لے کر آج تک حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ،حضرت مولانا علی میاں ندوی اور حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی جیسے باوقار علماء کی قیادت و سرپرستی میں ملک کے اندر دین کی بقاء تحفظ کے حوالے سے وہ نمایاں کارنامے دئے جنہیں فراموش کر دینا تاریخ کی سچائی پر انگلی اٹھانے کے مترادف ہے ،اور یہی نہیں بلکہ ماضی کی تاریخوں میں اس تنظیم کا یہ بھی امتیاز رہا کہ اس نے حالات کے اشا روں کو سمجھنے اور مسلمانو ں کے خلاف بڑھنے والے کسی بھی قدم کو روکنے میں ترددیا تذبذب سے کام نہیں لیا ،آپ یقین کیجئے میں بڑے اعتماد سے کہتا ہو ں کہ آج تک مسلم پرسنل لا بورڈ نے قوم کی دینی رہنمائی کا فرض جس خوش اصلوبی سے نبھا یا ہے اس کی اپنی ایک شاندار تاریخ ہے ،اور اگر آپ کا حافظہ ساتھ دے تو یاد کیجئے کہ آزادی کے بعدسیلے کر آج تک امت پر جب بھی کو ئی مشکل گھڑی آئی اسی تنظیم نے سب سے پہلے بڑھ کر ملت کو سہا را دیا ،اور آج بھی جبکہ ملک کو بھگوا رنگ میں رنگنے اور مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو پامال کر دینے کی گھناونی سازش رچی جارہی ہے مسلم پرسنل لاء آہنی دیوار کی طرح باطل پرستوں کے سامنے نہ صرف کھڑی ہے بلکہ مو لانا ولی رحمانی جیسی بیدار مغز شخصیت کی قیادت میں وہ خدمات انجام دے رہی ہیں جنہیں اعتماد کی سند دی جا سکے ،دین بچاو تحریک بھی ان کی اسی فکر مندی کی منھ بولتی تصویر ہے،اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمانوں خود کو اس تحریک کا حصہ بنا لیا تو ملک میں ایک خوشگوار انقلاب کی امید روشن ہو سکتی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا