English   /   Kannada   /   Nawayathi

کس کروٹ بیٹھے گا یہ اونٹ

share with us

کل ’سامنا‘ اخبار میںجو بال ٹھاکرے کی ایک نشانی ہے۔ صاف صاف لکھا ہے کہ جین فرقہ کے پاس ہر فرقہ سے زیادہ دولت ہے اور سب سے زیادہ کالا دھن اُن کے ہی پاس ہے اور وہ سیاسی پارٹیوں کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔ ٹھاکرے خاندان کی کمزوری یہ ہے کہ وہ خود تو مرہٹہ نہیں ہیں لیکن ان کی طاقت صرف مرہٹہ قوم ہے اور مرہٹہ مسلمانوں سے زیادہ گوشت کھاتے ہیں اور اب تک جو مہاراشٹر میں گائے کے گوشت کی سب سے زیادہ دکانیں تھیں اور ایک قریبی عزیز کے کہنے کے مطابق ہوسکتا ہے کہ آزادی سے پہلے گائے کا اتنا اچھا گوشت ہندوستان میں بکتا ہو جتنا اب مہاراشٹر میں بکتا ہے۔ لیکن بی جے پی کے غلبہ والی حکومت بننے کے بعد اس پر پابندی سے مسلمانوں کے مقابلہ میں مرہٹہ زیادہ پریشان ہیں۔ اس لئے شیوسینا نے دھمکی دی ہے کہ جینی زیادہ پائوں نہ پھیلائیں کیونکہ ان کے سارے کاروبار کو مہاراشٹر سے باہر کرنے میں ہمیں دو دن سے زیادہ نہیں لگیں گے۔
ہندوستان میں اسلام کے علاوہ ہر دھرم من چاہا ہے۔ یہ جین فرقہ اس وقت کہاں تھا جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی جو مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ لیکن ان کے 100 برس میں ہر دن ہندوستان میںلاکھوں جانور ذبح ہوتے تھے اور کبھی نہیں سنا کہ جینی فرقہ کا تہوار ہے جس میں وہ پندرہ دن روزہ رکھتے ہیں اس لئے کہیں آٹھ دن کہیں چار دن اور کہیں تین دن جانور نہیں کاٹے جائیں گے؟ جن میں مرغ اور مچھلی نہیں ہے۔ اس احمقانہ بات پر کیسے سر نہ پیٹا جائے کہ مرغ اور مچھلی کو مارنا کاٹنا اور کھانا جیوہتھیا نہیں ہے۔ سب نے کہا ہے کہ جینی فرقہ کے لوگ پیاز اور لہسن بھی نہیں کھاتے تو اس پر پابندی کیوں نہیں۔
بات پابندی کی نہیں اس کی ہے کہ ملک میں تعداد کے اعتبار سے سب سے چھوٹے فرقہ کے لوگ پندرہ دن روزہ رکھتے ہیں تو باقی کروڑوں لوگ گوشت نہ کھائیں۔ مسلمان ہندوئوں کے بعد تعداد میں سب سے زیادہ ہیں ان میں کم از کم پانچ کروڑ ضرور ایسے ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور تیس دن رکھتے ہیں۔ انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ ملک کے باقی 120 کروڑ اس ایک مہینہ میں کیا کھائیں کیا پئیں یا کیا کریں کیا نہ کریں؟ ان کے مذہب نے ان کو پابند کیا ہے کہ وہ ایک مہینہ تک دن کیسے گذاریں اور رات کیسے گذاریں۔ ہمارے مذہب کے معاملہ میںمذہب کے عالم بتاتے ہیں اس میں نہ حکومت کو بولنے کا حق ہے نہ عدالت کو اور جین فرقہ ہو یا بودھ ہو، عیسائی ہوں یا سکھ اُن کے مذہبی عالم انہیں بتائیں گے کہ انہیں کیا کھانا چاہئے کیا نہیں۔
ہندوئوں میںسناتن دھرم کے ماننے والے نوراتروں میں برت رکھتے ہیں ان دنوں میں وہ پھل کھاتے ہیں۔ ساون میں بھی وہ برت بھی رکھتے ہیں اور گوشت نہیں کھاتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسی ساون میںمیرے پوتے کے عقیقہ کیلئے لکھنؤ جیسے شہر میں دو بکرے ملنا مشکل ہوگیا بکروں کے بازار میں بکریاں اور بھیڑیں تو تھیں بکرے اس لئے نہیں تھے کہ پانچ سو روپئے کلو گوشت مسلمان گنے چنے ایسے ہیں جو خرید سکتے ہیں لیکن کسی ہندو لیڈر نے یہ نہیں کہا کہ ساون میں جانوروں کی قربانی نہیں ہوگی۔
حکومت کسی کی بھی ہو یہ کس مذہب کا حق ہے کہ وہ دوسروں پر اپنا حکم نافذ کرے؟ جینیوں کو کیا حق ہے کہ وہ یہ کہیں کہ ہمارا روزہ ہے اس لئے کوئی گوشت نہ فروخت کرے اور نہ کھائے۔ راج ٹھاکرے اور اودھو ٹھاکرے نے سڑکوں پر ٹھیلے لگاکر مرغ بکوائے تو مسلمان قصائیوں کو کیوں یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی دکان یا گھر میں بکرے کاٹیں اور انہیں سڑکوں پر ٹھیلہ لگاکر فروخت کریں؟ بتایا گیا ہے کہ گوشت کا کاروبار کرنے والوں پر یہ پابندی بھی ہے کہ نہ سلاٹر ہائوس میں جانور کٹیں گے اور نہ دکان کھول کر بکیں گے۔ کسی بھی حکومت نے اس مطالبہ کو کیوں قبول کیا؟ سلاٹر ہائوس (مذبح) عام طور سے آبادی سے دور ہوتا ہے۔ کل ایک مذاکرے میں ایک جینی خاتون مذبح سے اُٹھنے والی ہوائوں کی مخالفت میں دلیلیں دے رہی تھیں اگر کوئی مذبح جینیوں کے قریب ہے تو جینی وہ علاقہ چھوڑکر کہیں اور جابسیں۔ انہیں کیا حق ہے کہ وہ مذبح بھی بند کرادیں اور مسلمان قصائیوں کی دکانیں بھی۔ اگر یہ سب اُن کی دولت کی گرمی کی وجہ سے ہورہا ہے تو اُن کے اوپر یہ پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی کہ وہ ہر دُکان کا آٹھ دن یا چار دن کا کرایہ اور پانچ ہزار روپئے روز کے حساب سے اس دُکان سے جڑے ہوئے لوگوں کے اخراجات کے لئے ادا کریں؟
ہر پڑھے لکھے آدمی کو معلوم ہے کہ عید، رمضان اور بقرعید چاند کے حساب سے ہوتی ہیں اور ہر سال دس یا بارہ دن یہ عیسوی سنہ سے پیچھے ہوجاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ سال ہی عیدالاضحی کے تین دن ان دنوں میں پڑجائیں جب سرکاری اور عدالتی حکم سے پورے ملک میں جانور ذبح کرنا جرم ہو تو کیا بیس کروڑ مسلمان مٹھی بھر جینیوں کے روزوں کے احترام میں قربانی کا فرض ادا کرنے سے محروم رہیں گے؟ اور یہ تو ضرور ہونا ہے کہ یہ دن رمضان شریف میں آجائیں جس میں مسلمان پندرہ گھنٹے کے روزوں کے بعد دال سبزی پر اس لئے گذر نہیں کرسکتا کہ مسلمان عورتوں کو عام طور پر ایسی سبزی اور دال پکانا ہی نہیں آتی جیسی ہماری ہندو بہنیں پکاتی ہیں۔ رہی عید تو غریب سے غریب بھی نئے کپڑے ضرور بناتا ہے اور میٹھے کے ساتھ گوشت کے ساتھ چاول بھی ضرور کھاتا ہے اور یہ بات تو ہم بھی جانتے ہیں کہ کشمیری مسلمان کی خوراک صرف چاول، لسّی اور گوشت ہے۔
حکومت اور عدالتوں کو جذبات کا ضرور خیال کرنا چاہئے جیسے جیل میں جہاں سب حکومت کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں وہاں رمضان میں مسلمان بندیوں کو پانی کی جھجھری مٹی کی رکابیاں دونوں وقت کا کھانا ایک ساتھ اور ناشتہ کی جگہ گڑ تاکہ وہ سحری کھاسکیں۔ اس میں یہ پابندی نہیں ہے نہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں کہ مسلمانوں کی طرحٌ ہندوئوں کو بھی کھانا اس طرح ایک وقت میں دیا جائے گا۔ مسلمان حرام جانور نہیں کھاتے اور سکھ حلال کو بھی اتنا ہی برا سمجھتے ہیں وہ گوشت جھٹکا کی دُکان سے خریدتے ہیں۔ کسی حکومت نے کسی سے نہیں کہا کہ ملک میںیا حلال گوشت بکے گا یا صرف جھٹکا کا۔ یہ ہمارے اختیار میں ہے اور ہمارا مذہب بتاتا ہے کہ ہمیں کیسا کھانا چاہئے؟
اس بات کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ قرآن عظیم میں کہا گیا ہے کہ تمہارے لئے حرام کردیا گیا مرُدہ جانور اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ جسے کاٹتے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ میرے دو سکھ دوست کھڑک سنگھ اور اندر سنگھ تھے دونوں ہم عمر تھے اور ماموں بھانجے تھے۔ میری موجودگی میں دونوں میں گرودوارے کے کسی معاملہ میں اختلاف ہوگیا۔ بات بڑھی تو اندر سنگھ نے کھڑک سنگھ سے کہا کہ تو دھرم کے معاملہ میں کیا بولے گا تو حفیظ کے گھر حلال گوشت کھاتا ہے۔ مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ سکھوں کے ہاں حلال ایسا ہی ہے جیسے اسلام میں حرام۔ اب کیا حق ہے کسی حکومت کو کہ وہ یہ حکم دے کہ گوشت حرام بکے گا یا حلال۔ ابھی تک سپریم کورٹ کا ذکر کسی کی زبان پر نہیں ہے۔ پورے ملک کے مسلمانوں کو اس مسئلہ کو لے کر سپریم کورٹ جانا چاہئے اس لئے کہ راجستھان کی بھگوا حکومت کا یہ فیصلہ عیدقرباں کی چھٹی نہیں ہوگی اس بات کا اشارہ ہے کہ کل اگر بہار میں بھی کمل کھل گیا تو وہاں بھی وہی ہوگا جو سنگھ کہے گا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا