English   /   Kannada   /   Nawayathi

اب گیند عوام کے پالے میں

share with us

لیکن ملائم سنگھ کی زبان سے نتیش کمار اور بی جے پی کے تعلق کا طعنہ اور دوسری طرف سے ملائم سنگھ کے ساکشی مہاراج اور کلیان سنگھ کی قربت کی کہانیاں دہرانے اور سابق ایم پی محمد ادیب صاحب کا ملائم سنگھ پر خاندان نوازی کا الزام اور ملائم سنگھ کا یہ فیصلہ کہ وہ بہار میں اُترپردیش کی کامیابیوں کے بل پر الیکشن لڑنے جارہے ہیں نے معاملات کو بری طرح الجھا دیا ہے۔
اُترپردیش اور بہار ایک دوسرے سے اتنے دور نہیں ہیں کہ ایک دوسرے کے معاملات کے لئے بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں کرنا پڑیں۔ ہم جو جسمانی طور پر بھی ٹوٹے پھوٹے ہیں اور لکھنؤ میں رہتے ہیں بہار کے حالات اور مسائل سے اس حد تک واقف ہیں کہ ان پر مسلسل مضمون لکھ رہے ہیں جبکہ ہم سیاست کے میدان سے کوسوں دور ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہر دن کسی نہ کسی عنوان سے ملائم سنگھ اور وزیر اعلیٰ اکھلیش یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے ہر وعدہ پورا کردیا لیکن کسی نہ کسی طرف سے یہ بھی آواز آجاتی ہے کہ وہ جو مسلمانوں کو 18 فیصدی ریزرویشن کا وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا؟ یا وہ جو مظفرنگر میں دو برس کے بعد بھی اب تک بے گھر پڑے ہیں وہ کیوں پڑے ہیں؟ یا یہ یادو سنگھ کون ہے جس کی بے ایمانیاں بھی سورج سے زیادہ روشن ہے اور یہ خبر بھی چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہی ہے کہ یو پی حکومت اسے پھانسی دلوانے کے بجائے سپریم کورٹ میں انتہائی قابل وکیلوں سے بے قصور ثابت کرانے میں مدد کررہی ہے؟؟
ملائم سنگھ بہار جاکر بیشک اپنی کامرانیوں کی فہرست گنائیں گے لیکن ادیب صاحب جیسے اور جماعت اسلامی کے امیر جیسے محترم اور مسلمانوں کے ہمدرد یہ ضرور کہیں گے کہ اگر نتیش کمار اور لالو یادو نے سیٹوں کی تقسیم آپس میں کرکے غلطی کی ہے تو وہ بڑے ہوکر ایسی غلطی کیوں کررہے ہیں جس سے سیکولر کہے جانے والے ووٹ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور وہ قسم کھاکر یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ وہ ڈاکٹر لوہیا اور اُترپردیش میں اپنے نزدیک کامیابیوں اور کامرانیوں کی بدولت بہار میں اتنی سیٹیں جیت سکتے ہیں کہ وہ اپنی حکومت بنالیں یا اتنی سیٹوں پر کامیاب ہوجائیں کہ بی جے پی، کانگریس، راشٹریہ جنتا دل اور جنتادل یو کو ٹھوکر مارکر صرف بایاں محاذ اور طارق انور کے بل پر حکومت بنا لیں گے۔ جب یہ نہیں ہوسکتا اور انہیں بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایسا نہیں ہوگا تو ظاہر ہے کہ پھر بی جے پی کو کون روک سکتا ہے؟
شری ملائم سنگھ کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ دو سال کے بعد انہیں بھی اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا آج نتیش اور لالو کررہے ہیں۔ اس موقع پر اگر وہ دونوں ہارے ہوئے نیتا اُتر پردیش میں آکر ٹکٹ بانٹیں اور اپنے امیدواروں کا الیکشن لڑائیں گے تو ان پر کیا گذرے گی؟ ملائم سنگھ بیشک اُترپردیش کے بڑے لیڈر ہیں لیکن لالو اور نتیش کمار بھی راستے کے کنکر پتھر نہیں ہیں اور نتیش کمار کی حمایت میں اروند کجریوال اور ہاردِک پٹیل کے آجانے کے بعد انہیں کمزور سمجھنے کی غلطی کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔
ہمیں پروردگار نے سوچنے، فیصلہ کرنے اور لکھنے کی جو صلاحیت دی ہے۔ اس کے بل پر کہنا چاہتے ہیں کہ لالو یادو واحد ہندو لیڈر ہیں جن پر کسی وقت یہ الزام نہیں لگا کہ انہوں نے سیکولرازم سے منھ موڑا اور یہ بھی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہ جتنے بڑے سیکولر لیڈر ہیں یا عوامی لیڈر ہیں اتنے بڑے منتظم نہیں ہیں۔ یہ صلاحیت نتیش کمار کے اندر اتنی ہے جتنی ایک وزیر اعلیٰ کے اندر ہونا چاہئے۔ بہار کے مسلمانوں اور سیکولر ہندوؤں کے لئے ان دونوں کا اتحاد بہت بڑی نعمت ہے وہ اس کی ناقدری کرکے بہت پچھتائیں گے۔
مسلمانوں نے لالو یادو کو آنکھ بند کرکے حمایت دے کر حق ادا کردیا تھا اور لالو جی نے بھی پندرہ سال تک مسلمانوں کے خلاف نہ کسی فرقہ پرست کی گولی آنے دی اور نہ تلوار چلنے دی۔ ہم بہار سے دور بیٹھے مسلمان بھی اس احسان کو مانتے ہیں لیکن انہوں نے مسلمانوں کو زخم تو نہیں لگنے دیئے اور نہ ان کے جنازوں سے قبرستان آباد کئے۔ لیکن کانگریس نے مسلمانوں کو معاشی طور پر بھی جس طرح برباد کیا تھا اسے سنبھالنے میں ان کی ایسی مدد نہیں کی جیسی کرنا چاہئے تھی۔ وہ شاید اس لئے کہ وہ ریلوے کے تو بہت اچھے وزیر ہوسکتے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ بن کر کامیاب نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ بھاگل پور محفوظ تو ہوگیا لیکن اس کی خوشحالی واپس نہیں آئی۔
کسی بھی الیکشن میں اصل طاقت ووٹر ہوتے ہیں جہاں تک لیڈر کا تعلق ہے تو ان کی حیثیت تو جمہوریت میں بھکاری کی ہوتی ہے۔ کوئی بھی لیڈر اس لئے ووٹ نہیں مانگتا کہ وہ آپ کو کچھ بنا دے گا۔ بلکہ وہ اس لئے مانگتا ہے کہ اسے حکومت مل جائے۔ ہر ووٹر کو اپنی یہ حیثیت سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے۔ جیسے کہا جارہا ہے کہ بی جے پی وکاس کے نام پر الیکشن لڑے گی لیکن کسی بی جے پی کے لیڈر کے پاس اس کا جواب نہیں ہے کہ اس نے 18 مہینے میں وکاس کہاں کیا اور کیا کیا؟ 2014 ء میں مودی صاحب نے بہار کے ہر شہر میں کہا تھا کہ ہر کسی کو میری حکومت 100 دن کے بعد 15 لاکھ روپئے لوٹائے گی۔ یہ سرکاری روپیہ نہیں ہے بلکہ عوام کا ہے جسے بے ایمان سرمایہ داروں نے چھپاکر دنیا کے دوسرے ملکوں میں رکھ دیا ہے۔ میری حکومت اگر بن گئی تو 100 دن کے اندر میں اُسے واپس منگوا لوں گا۔ کیا بہار کے لوگوں کو یاد نہیں کہ آزاد ہندوستان میں اتنا بڑا دھوکہ آج تک کسی لیڈر نے نہیں دیا ہے اور سواسو کروڑ ہندوستانیوں نے مودی پر بھروسہ کرکے تاریخ کی سب سے بڑی غلطی کی ہے کیا بہار کے 25 سے 35 سال کے نوجوانوں کو روزگار دینے کا یقین نہیں دلایا تھا؟ دنیا کے ملکوں کی سیر کرنے پر مودی صاحب نے 38 کروڑ روپئے خرچ کردیا لیکن 18 مہینے میں نہ کمپنی کہیں سے آئی نہ کارخانہ لگا اور نہ بہار کا کوئی نوجوان نوکر ہوا کیا مودی نے نہیں کہا تھا کہ میری حکومت بنتے ہی مہنگائی خود بخود ختم ہوجائے گی اور ارہر کی دال ڈیڑھ سو روپئے کلو ہوگئی اور پیاز 100 روپئے کلو، میرے بہار کے بھائی غور کریں کہ اگر یہ وکاس ہے تو جھوٹ اور فریب دھوکہ اور عوام سے دشمنی کسے کہتے ہیں؟
میں عرض کرچکا ہوں کہ نہ میں نے کسی کو دیکھا نہ میرا کسی سے کوئی تعلق۔ میری تو مودی صاحب سے بھی دشمنی نہیں ہے۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ ممبئی جیسے شہر میں جہاں گوشت کاروبار صرف مسلمان کرتے ہیں وہاں ہر بڑے جانور کا گوشت نہیں بکے گا اور جہاں جینی ہندوؤں کی دلجوئی کے لئے 11 ستمبر سے 18 ستمبر تک کسی بھی قسم کے گوشت کی بوٹی بھی نہ بکے گی نہ پکے گی اور نہ کھائی جائے گی اس لئے کہ وہاں آر ایس ایس کی حکومت ہے۔ اس طرح بہار میں مسلمانوں کو نہ جھیلنا پڑے۔ جہاں خود ہم نے رانچی اور لوہردگا کے درمیان گاؤں کے ہفتہ واری بازاروں میں گائے کا گوشت بکتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور جھارکھنڈ میں بنگال کی طرح گائے کا گوشت لوگ کھاتے ہیں۔
بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ نتیش کمار کرسی کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ کیا ملک میں کوئی ایسا لیڈر ہے جو کرسی کے لئے سب کچھ کرنے کے لئے تیار نہ ہو؟ سونیا، لالو اور نتیش کے ساتھ رہنے و الے جو اُٹھتے بیٹھتے مودی کو سنگھ کا غلام کہتے تھے وہ جب بی جے پی میں گئے تو بھگوا ہوگئے اور مودی نے انہیں اپنی کرسی کے لئے وزیر بھی بنا دیا۔ آج ہر پارٹی کلب بن گئی ہے۔ ہر ممبر کو حق ہے جسے جہاں اچھا لگے چلا جائے اور جسے چاہے چھوڑ دے۔ اب یہ باتیں نہ کرنے کی ہیں نہ کہنے کی اس لئے کہ سب سے بڑی طاقت عوام کی اور ووٹروں کی ہے انہیں نہ یہ دیکھنا چاہئے کہ کس لیڈر نے کیا کہا نہ یہ کہ کس اخبار نے کیا لکھا بس انہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کون ہے جس کے دل میں ان کا درد ہے اور کون ہے جس نے بہار کی صورت حال بدلی ہے۔ ہمیں 500 کلومیٹر دور بیٹھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ نتیش کمار کافی حد تک اچھے وزیر اعلیٰ رہے۔ مسلمانوں کو ان سے بھی شکایتیں ہیں اور اردو والوں کو بھی لیکن اس کا علاج صرف انہیں ہٹانا نہیں ہے بلکہ انہیں اس کا قائل کرنا ہے کہ انہوں نے جو کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ نہیں کیا اور انہیں اس پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ رکے ہوئے کاموں کو پورا کریں گے۔ ہم نے مانجھی کی بغاوت کا ڈرامہ دیکھا تھا اور اس وقت نتیش نے جس مقبولیت کا ثبوت دیا تھا اس کے بعد یہی کہا جائے گا کہ ابھی انہیں کو کام کرنے دیا جائے شاید بہار کے لئے یہی اچھا ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا