English   /   Kannada   /   Nawayathi

تو بھی ذرا میری یہ داستاں سن لے

share with us

ایسے کھلاڑی بھی ہر موڑ پر برساتی مینڈک کی طرح دکھائی پڑ رہے ہیں جنہوں نے اس کھیل کا کوئی مطلب بھی نہیں سمجھا ہوگا اور شاید انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوگا آخر کن اصولوں کو اپنا کر سیاست کے ماحول کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے،اس میں اپنے بھی ہیں اور غیر بھی جانے پہچانے چہرے بھی ہیں اور انجان مکھڑے بھی ،عوام سے محبت کا دم بھر نے والے بھی ہیں اور نفرت کی سیاست کرنے والے مکروہ لوگ بھی ،جی حضوری کرنے والے بھی ہیں اور مفاد پرست و ابن الوقت بھی ،وہ بھی ہیں جن کی پیشانیوں پر سیکولر کی مہر لگا دی گئی ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ اپنی سیاست کی روٹی سینکنے کے لئے نفرت و تعصب اور فرقہ پرستی کی بھٹی کا استعمال کرنے کے عادی ہیں ،اور اگر تھوڑا سنجیدہ ہوکر دیکھئے تو گنے چنے چند چہرے ایسے بھی آپ کو سیاست کے اسٹیج پر مل جائیں گے جو ذاتی مفادات کے لئے کسی بھی گندے لقمے کو اپنے حلق سے اتار لینا اپنا فن سمجھتے ہیں،ظاہر ہے کہ اس پورے منظر نامے کوبہار کے خوش آئند مستقبل کی علامت قرار دے دینا کسی بڑی خوش فہمی سے کم نہیں ،عالم تو یہ ہے کہ ہر کوئی خود کو عوام کا محبوب بنانے اور ان کے کندھے پر بیٹھ کر اپنے آپ کو سیاسی منجھدار سے باہر نکالنے کے لئے گلی گلی چکر لگا نے کے ساتھ سڑکوں کی دھول پر سر رگڑ رہا ہے اور اگر آپ ان کو روک کر اپنی غیرت کو محفوظ نہ کریں تو یہ سیاسی بہروپئے آپ کی قدم بوسی میں بھی اپنے لئے شرم محسوس نہ کریں گے ،اور ہاں میں تو بھول ہی گیا کہ مسلمانوں کو اپنا بنانے اور اپنا سمجھنے کی وہی پرانی روش ایک بار پھر اختیار کی جا رہی جس کے مناظر آزادی کے بعد سے آج تک سینکڑوں نہیں ہزاروں بار دیکھے جا چکے ہیں اور ہمیشہ مسلمان اپنی وفاداری کے بدلے بے وفائی اور ظلم و نا انصافی کا درد جھیلتا رہا ہے ،بڑی عجیب بات تو یہ بھی ہے کہ ایسے لوگ بھی بہروپئے کی طرح مسلم قوم کے سامنے بھیک کا پیالہ لے کر کھڑے ہیں جن کو بھیک دینا بھی اس قوم کے نزدیک جرم کی حیثیت رکھتا ہے ،اور وہ صرف اس لئے نہیں کہ وہ غیر ہیں بلکہ اس لئے کہ ان کے ہاتھ ان معصوموں کے خون سے رنگے ہیں جو اپنی توتلی زبان سے رحم کی بھی مانگتے مانگتے موت کا قدم چوم لیا۔
خیر یہ ہے بہار کے اندر جاری سیاست کی زمینی تصویر ، ایسی حالت میں آپ نے کیا سوچا ہیاور اس حوالے سے آئندہ کیا کر نا چاہتے ہیں وہ فیصلہ جلد کیجئے ،کہیں اس میں تاخیر نہ ہو جائے اس بابت میں آپ کو کوئی مشورہ دینے کی پوزیشن میں اس لئے نہیں ہوں کہ کہیں آپ اسے ایک سیاسی گالی سمجھ کر بکھر نہ جائیں لیکن دیکھئے بغیر دانشمندی کے کوئی بھی قدم بہار کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ، کیونکہ معاملہ اس وقت صرف سیاست کا نہیں بلکہ قوم کے پر امن مستقبل کا ہے اور تمام تر سیاسی اصولوں کو اپنے پاوں سے روندتے ہوئے فرقہ پرست جماعتیں جس مہم میں سرگرم ہیں اس نے ہر کسی کی پیشانیوں پر سوالیہ لکیر کھینچ دی ہے ،خطرہ صرف یہ نہیں کہ آنے والے وقت میں بہار کی عوام کو مذہبی خانوں میں بانٹ کر مہاتما بدھ کی اس دھرتی پر پھر سے نفرت کی بیج بونے کی کوشش کی جائے گی اور ماحول کو پراگندہ بنانے کے حیلے اور بہانے تلاش کئے جائیں گے بلکہ خوف تو یہ ہے کہ کہیں اس پورے سیاسی منظر نامے پر فرقہ وارانہ فسادات کی چادر نہ اوڑھا دی جائے ،جس کے اشارے وقفے وقفے سے ملتے رہے ہیں ،اس لئے بڑی ہوشیاری سے اپنے لئے کوئی سیاسی سمت طے کر نے کی ضرورت ہے تاکہ مایوسی و افسر دگی کے حالات دیکھنے کے لئے آپ کو مجبور نہ بنا یا جا سکے ,لیکن ان تمام حالات کے باوجود مجھے آپ کی دانشمندی پر فخر ہے اور میں تاریخ کی روشنی میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ نے کبھی بھی بہار کی آبرو کو داغدار ہو نے نہیں دیا اور نہ ہی اس ملک کی عظمت کے ساتھ کسی کو کھلوار کر نے کی اجازت دی ، اور ایسا آپ ہونے بھی کیوں دیتے جبکہ آپ جانتے ہیں کہ یہ ملک آپ کا ہے اور اس ملک کو سینچنے سنوارنے اور اس کی آبرو کو بچا نے میں آپ کے پر کھوں کا خون لگاہے ،ارے کیا آپ بھول گئے کہ یہی وہ ہندوستان ہے جس کی آزادی کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کے لئے آپ کے اکابر نے وہ رول ادا کیا کہ تاریخ کے لئے اسے فراموش کر نا آسان نہیں ،یاد کیجئے وہ آپ ہی کے آباو اجداد تھے جس نے ظالم انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھائی ،جنہوں نے ڈیڑھ سو سال تک اس ملک کی آبرو کو بچانے کے لئے اپنی ناقابل فراموش قربانیاں پیش کیں ،جنہوں نے 1803 سے 1857 تک تنہا انگریزوں کے مظالم سہے ،جنہوں نے پھانسی کے پھندے کو چوم کر خوشی خوشی اپنے گلے کا گہنا بنا لیا ،جنہوں نے شاملی کے میدان میں انگریزوں کی گولیوں کو اپنے سینوں میں پیوست کر لیا اور جن کو آزادی کی آواز اٹھانے کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن ان سب کے باوجود انہوں نے ملک کی آزسدی کے لئے جس جنگ کی شروعات کی تھی اسے انجام تک پہونچائے بغیر ان کی غیرنے انہیں آرام کی نیند سونے کی اجازت نہیں دی حالانکہ اس دوران نہ معلوم حالات نے کتنے ہچکولے کھائے اور کتنی ہی بار ان کے سامنے مسائل و مصائب کی دیواریں کھڑی کی گئی ، آج میں آپ سے بلا تکلف کے کہتا ہوں کہ کل بھی آپ اس ملک کی آبرو تھے اور آج بھی آپ ہی کی ڈوبتی نیا کے کھیون ہار ہیں ،اگر آج فرقہ پرست جماعتیں تاریخ کے پنوں کو بدل کر اس ملک کے اندر نفرت کی ہولی کھیلنا چاہتی ہیں تو کیا ہوا کیا اس سے ملک کے اصلی سیکولر چہرے پر پردہ پڑجائے نہیں کیونکہ جس دن اس سمت میں قدم اٹھا اس دن یہ ملک ٹوٹ کر بکھر جائے گا اس لئے آپ کی ذمہ داری ہے کہ سیاست کی ا گرما گرمی میں کوئی بھی ایسا غیر ذمہ دارانہ قدم نہ اٹھائیں جو آپ کح لئے نقصان دہ ہو ،لیکن اگر ایسا نہیں ہوا اور آپ نے باطل پرستوں کی چال کو سمجھنے کی کوشش نہ کی تو یاد رکھئے کہ آج تو بس یہ ملک تعصب ،مذہبی منافرت ،تہذیبی و لسانی عصبیت اور تشدد و فرقہ پرستی کے نرغے میں پھنس کر سسکیاں لے رہا ہے لیکن کل آپ کے تمام حقوق پر سوالیہ نشان ڈال دی جائے گی لہذا سوچئے اور پھر اپنے لئے کسی بھی دباو یا جی حضوری کے ماحول سے الگ ہو کر کوئی ایسی سیاسی سمت طے کیجئے جو آپ کے خوش آئند مستقبل کی راہ آسان کر سکے ،یہ مودی اڈوانی ،اوما ،ساکشی ،سادھوی یہ سب ایک ایسے غبارہ کی طرح ہیں , جس پر بچہ بھی انگلی رکھ دے تو اس کی ہوا نکل جائے ،اور ملائم جیسے مفاد کی سیاست کرنے والے کو تو چھوڑ ہی دیجئے جس نے کبھی بھی آپ کے لئے سوچنے کی زحمت نہیں کی بلکہ فرقہ پرستوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر اپنی سیاسی روٹی سینکنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے رہے سیکولرزم کی بات کر نا تو ان کا ایک ایسا سیاسی کھیل ہے جو تقریبا ہر پارٹی الیکشن کے وقت میں کھیلتی ہے ،آپ چاہے یقین نہ کریں مگر میں شروع ہے ہی نہ جانے کیوں ان کی وفاداری اور ان کی ایمانداری پر شک کر تا رہا ہوں اور جب جب وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی پالیسیوں پر چلتے نظر آئے ہمارے اس شک کو تقویت ملتی گئی ،پہلے جنتا پریوار کی تشکیل اور پھر اپنت ہی ہاتھوں اس کی قبر کھودنے کی گندی پالیسی شاید اس طرح کی سیاست سے آپ کو بھی گھن آرہی ہو گی ،میں سلام کر تا ہوں مسٹر لالو پرشاد اور بہار کی آبرو کہلانے والے نتیش کمار کے اس عزم کا جس نے کو وقت کا غلام ہونے کی اجازت دینے کی بجائے انہیں چٹان بن کر حالات کے سامنے کھڑے رہنے کا حوصلہ دیا ،اور میں یقین کی زبان سے کہ سکتا ہوں کہ اگر ان کے حوصلے سلامت رہے تو آنے والا وقت انہیں جھک کر سلام کرے گا ،بس آپ ان کی قوت کا مضبوط حصہ بنے رہیں اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا