English   /   Kannada   /   Nawayathi

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی

share with us

لکھنؤ کے آصفی امامباڑہ کے سلسلہ میں یہ بات مشہور ہے کہ دن میں مزدور اسے بناتے تھے اور رات کے اندھیرے میں شرفا اس کی اینٹھیں اٹھاکر الگ رکھ دیتے تھے جس کی انہیں اجرت ملتی تھی یعنی جس کو نہ دے مولا اسے دے آصف الدولہ کہے جانے والے اودھ کے نواب نے بھی مفت خوری کی عادت کو فروغ نہیں دیا۔ جدید معاشی علوم کے بابا آدم کہے جانے والے ممتاز برطانوی ماہر معاشیات کینس نے بھی عوام میں مفت خوری کی عادت کی حوصلہ افزائی کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے لیکن ہمارے جمہوری شہنشاہوں میں یہ شوق بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ۔ آزادی کے بعد جب ملک میں اشیائے خورد ونوش کی شدید قلت تھی غربت اپنی انتہا پر تھی اس وقت یقیناً آزاد ملک کی پہلی حکومت پر عوام کو راحت دینے کی ذمہ داری تھی اور حکومتوں نے اس زمانہ میں کئی فلاحی اسکیمیں چلائیں بھی لیکن 90کی دہائی آتے آتے حکومت کے ذمہ داروں کو احساس ہوگیا کہ یہ مفت خوری بنام سبسڈی عوام کو کچھ وقتی راحت بھلے پہنچارہی ہو لیکن سبسڈی کے بڑھتے بوجھ کی وجہ سے ترقیاتی سرگرمیوں پر بہت منفی اثر پڑرہا ہے اور ملک معاشی طور سے پچھڑتا ہی چلا جارہا ہے اس لئے سبسڈی کے بوجھ کو بتدریج کم کرنے کا سلسلہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بطور وزیر مالیات شروع کیا اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے لائسنس کوٹہ پرمٹ اور انسپکٹر راج کو بھی ختم کرنے کی مہم شروع کی اور تجارتی وصنعتی سرگرمیوں کو کافی حد تک آزاد کردیا جس کا فائدہ صنعتی انقلاب کے طور پر سامنے آیا۔ تجارتی سرگرمیاں بڑھنے سے لوگوں کی قوت خرید بڑھی جس سے پیداوار بڑھنا لازمی تھی اور 20سال کے عرصہ میں ہندوستان دو ہندسوں والے شرح نمو کے دہانے پر پہنچ گیا۔ آج کا ہندوستان 20-25سال پہلے کے ہندوستان سے کتنا مختلف ہے اس کا اندازہ ایمانداری سے ماضی کے حقائق کو یاد کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ 
یہ بات بھی درست ہے کہ ابھی ہمارے عوام کا ایک بڑا طبقہ اس حیثیت میں نہیں ہے کہ وہ اپنی ہر ضرورت کی چیز اس کی اصل قیمت ادا کرکے خرید سکے اس لئے سبسڈی دی جاتی ہے مگر وہ مستحق اور غیر مستحق دونوں لوگوں تک پہنچتی ہے۔ مثلاً سستا گیس سلنڈر ایک مزدور بھی اتنے کا ہی خرید تا ہے جتنے کا امبانی یا ٹاٹا خریدتے ہیں حکومت یہ سلسلہ روکنا چاہتی ہے اور اس کے لئے اس نے سبسڈی کی نقد منتقلی (CTOS) کا سلسلہ شروع کیا ہے لیکن اس کی جو شرائط اور ضوابط وضع کی گئی ہیں ان تک ابھی سبھی لوگوں کی رسائی نہیں ہوسکی ہے ۔ لکھنؤ میں آدھار کارڈ ابھی 15-20فیصدی لوگو ں کے ہی بنے ہیں جب کہ گیس پر سبسڈی کی نقد منتقلی کا سلسلہ یکم جنوری سے شروع کردیا گیا ہے گیس صارفین پریشان ہیں مگر کوئی ٹھوس حل ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔ 
دہلی کے نئے وزیراعلیٰ اروند کیجروی وال نے دہلی میں 20ہزار لیٹر ماہانہ مفت پانی اور بجلی پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے لیکن مفت پانی انہیں کو ملے گا جن کے گھر میں پائپ فٹنگ ہے جو ٹینکروں سے بالٹیوں میں پانی لے جاتے ہیں انہیں کوئی راحت نہیں یعنی جن کو راحت دی گئی ہے وہ سب کے سب اس معاشی پوزیشن میں ہیں کہ پانی کا بل ادا کرسکیں بجلی بلوں میں بھی بالکل یہی صورت حال ہے حالانکہ اروند کیجری وال نے دام گھٹانے کا انتخابی وعدہ کیا تھاسرکاری خزانہ یا عوام کی رقم پر بوجھ ڈال کر سبسڈی کی شکل میں راحت دینے کی بات نہیں کی تھی۔ وہ اس معاملہ میں خوش نصیب ہیں انہیں شیلا دکشت سے وراثت میں بھرا خزانہ ملا ہے اور وہ اسے کچھ دنوں تک جس طرح چاہیں لٹا سکتے ہیں لیکن جب خزانہ خالی ہوجائے گا تب وہ یہ معاشی بوجھ کیسے اٹھاپائیں گے۔ اس کے علاوہ سبسڈی کا سرکاری خزانہ پر جو بوجھ پڑے گا اس کا اثر دیگر ترقیاتی کاموں پر لازمی طور سے پڑے گا مثلاً جن کالونیوں میں پانی سپلائی کے لئے پائپ لائن نہیں پڑی ہیں یا جو اوور برج وغیرہ بننے ہیں ان کے لئے وہ رقم کہاں سے لائیں گے مگر فی الحال کیجری وال کی خوش نصیبی ہے کہ میڈیا ان سے تلخ سوال نہیں کررہا ہے بلکہ اندھی تعریف میں ہی مشغول ہے مگر کبھی نہ کبھی میڈیا ہی نہیں وہ عوام بھی ان سے تلخ سوالات پوچھیں گے جو آج انہیں سروں پر بیٹھائے ہوئے ہیں۔ 
مرکزی حکومت کا غذائی تحفظ قانون ہو یا یوپی حکومت کا لیپ ٹاپ تقسیم کا منصوبہ یہ تمام غیر پیداواری اخراجات ہیں جو ووٹ خریدنے کے لئے کئے جارہے ہیں مگر عوام بہت ہوشیار اور سیاسی طور سے باشعور ہیں وہ صرف اچھی حکمرانی پر ہی ووٹ دیتے ہیں اس طرح کے ٹوٹکوں پر نہیں ضرورت ہے کہ منصوبہ بندی کمیشن، سپریم کورٹ اور ماہرین معاشیات کی ایک کمیٹی اس طرح کے غیر پیداواری اخراجات کی روک تھام کا کوئی ایسا قانون وضع کریں کہ عوام کی گاڑھی کمائی سے ووٹ خریدنے کی یہ خطرناک روش روکی جاسکے ورنہ ملکی معیشت کبھی صحیح معنوں میں پٹری نہیں آسکے گی۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا