English   /   Kannada   /   Nawayathi

اترپردیش کے امن وامان پر فرقہ پرستو ں کی بری نظر

share with us

اس نے ایک اسکول کے سامنے پرچے بانٹ کر ہندو لڑکیوں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ مسلمان لڑکے انھیں محبت کے جال میں پھنسا کر شادی رچا سکتے ہیں لہٰذا وہ ہوشیار رہیں۔حالانکہ مسلمانوں کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ ریاست میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کے لئے اس قسم کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے ورنہ آج تک ایک ثبوت بھی لوجہاد کی حمایت میں سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ خبر بھی میڈیا آئی کہ وشو ہندو پریشد نے اجو چوہان کو بجرنگ دل سے باہر نکال دیا ہے۔مگر اصل سوال یہ ہے کہ ریاستی حکومت ، انتظامیہ اور پولس اب تک خاموش تماشائی کیوں ہے؟ وہ نفرت انگیز مہم کے خلاف قدم کیوں نہیں اٹھاتی؟ کیا اسے انتظار ہے کہ مظفر نگر کی طرح دنگے بھڑک اٹھیں ،اس کے بعد وہ اس کی آگ پر سیاست کی روٹی سینکے؟
محبت کے خلاف نفرت انگیز مہم 
ہندو خواتین کومبینہ ’’لو جہاد‘‘ سے بچانے کے لئے بجرنگ دل نے ’’بہو لاؤ، بیٹی بچاؤ‘‘ مہم دوبارہ شروع کی ہے۔اترپردیش میں تنظیم کے ریاستی کنوینر اجوّ چوہان نے فروری میں کہا تھا کہ اس طرح کی مہم شروع کی جائے گی۔ گزشتہ سال دسمبر میں ہوئے ’’گھر واپسی‘‘ تنازعہ کے بعد چوہان نے اب اسے نئے سرے سے شروع کرنے کا پلان کیا ہے۔حال ہی میں بجرنگ دل کے کارکنوں نے آگرہ شہر کے اسکولوں کے باہر طالبات کے بیچ پرچے بانٹے جن میں مسلم نوجوانوں کے ’’فریب اورفراڈ‘‘ سے بچنے کو کہا گیا ہے۔پرچے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندو لڑکیوں کو پہلے تعلقات میں پھنسالیا جاتا ہے اور پھر انہیں عرب ممالک کے بازاروں میں بیچ دیا جاتا ہے۔دل نے شہر کے صدر علاقے کے کچھ اسکولوں میں اس طرح کے ہینڈبل بانٹے۔ 
ایک لاکھ لڑکیاں فروخت کی گئیں؟
آر ایس ایس سے وابستہ ایک خواتین تنظیم ’’درگا واہنی‘‘ بھی اس مہم سے جڑ گئی ہے۔ اس نے بھی اسکول طالبات سے سے مسلم نوجوانوں سے ہوشیار رہنے کے لئے کہا ہے جو اپنا نام بدل کر ہندو دیوی دیوتاوں کے لاکیٹ پہن کر لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کران سے شادی کر لیتے ہیں۔بجرنگ دل کی طرف سے آگرہ میں بانٹے گئے پرچوں میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں تقریبا ایک لاکھ لڑکیاں ’’لو جہاد‘‘ کا شکار بن چکی ہیں۔ان میں سے زیادہ تر لڑکیوں کو ممبئی، کولکتہ اور سعودی عرب کے بازاروں میں بیچ دیا گیاہے۔پرچوں میں ایک نمبر بھی دیا گیا ہے تاکہ کسی کو ’’لو جہاد‘‘ کے سلسلے میں کوئی معلومات ملے، تو اس کے ذریعہ اطلاع دی سکے۔ حالانکہ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ بجرنگ دل کے پا س جب ایک لاکھ لڑکیوں کے غائب ہونے اور فروخت ہونے کی اطلاع ہے تو اس نے پولس سے شکایت کیوں نہیں کی اور حکومت سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا کہ ان لڑکیوں کی بازیابی کی جائے؟ آخر مرکزمیں تو بی جے پی کی ہی سرکار ہے۔
غیر ہندوبہو لانے کی تیاری؟
اجو چوہان (اونیندر پرتاپ سنگھ) نے بتایا کہ ہم نے خواتین کالجوں میں جاکر وہاں پڑھ رہی طالبات کو ’’لو جہاد‘‘ کے برے نتائج کے بارے میں بتایا۔اگلے مرحلے میں ہم ان نوجوانوں کی ماؤں سے ملیں گے جن کی شادی کی عمر ہو گئی ہے۔ ہم انہیں مسلم یا عیسائی خاندانوں سے بہولانے کے لئے کہیں گے۔ دوسرے دھرمو ں سے بہو لانے پر ہندو خاندان انہیں ہندوتو کی ثقافت اور روایت کے بارے میں بتائیں گے۔چوہان نے بتایا کہ "بہو لاؤ، بیٹی بچاؤ‘‘ مہم ’’لو جہاد ‘‘سے نمٹنے کے لئے شروع کی گئی ہے۔
مسلمانوں کا ردعمل
جہاں ایک طرف فرقہ پرستوں کی طرف سے نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے وہیں مسلمانوں کی طرف سے بہت ہی محتاط ردعمل سامنے آیا ہے۔ بریلی واقع آل انڈیا جماعت رضا ئے مصطفی کے جنرل سکریٹری مولانا شہاب الدین رضوی نے بجرنگ دل کے پرچار کو گمراہ کن بتایا اور کہا کہ مسلمانوں کے پاس اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے پیسہ نہیں وہ ’’لوجہاد‘‘پر کہاں سے خرچ کریں گے۔ان کے خیال میں بجرنگ دل اس قسم کی حرکتیں فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے کے لئے کر رہا ہے لہذا حکومت کو چاہئے کہ اس کے خلاف کارروائی کرے۔انھوں نے لوجہاد کے الزام کو بے بنیاد بتاتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے الزامات پر جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس طرح کی افواہ پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے۔دوسری طرف صدر پولیس اسٹیشن کے سرکل آفیسر اسیم چودھری نے کہا کہ اس طرح کے پرچے تقسیم کرنا غیر قانونی ہے۔ ان پرچوں کو بانٹنے والے تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ چودھری نے آگے بتایا کہ ہم ان لوگوں سے رابطہ کر رہے ہیں جن کے بیچ پرچے بانٹے گئے۔ساتھ ہی بجرنگ دل کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی جائے گی۔
اجو چوہان کے خلاف کارروائی
اسی دوران یہ خبر بھی میڈیا میں آئی کہ اگرہ میں ’’لوجہاد‘‘ کے خلاف مہم چلانے والے اجو چوہان کو وشو ہندو پریشد نے بجرنگ دل کنوینر کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔آگرہ میں 200 مسلمانوں کی ’’گھر واپسی‘‘ پروگرام کے پیچھے اججو چوہان ہی تھے۔چوہان کو ہٹانے کے پیچھے تنظیم کی ہدایات نہ ماننا بتایا جا رہا ہے۔ چوہان’’ لو جہاد‘‘ کے خلاف پرچے بانٹ کر سرخیوں میں آئے تھے۔ادھر وشو ہندو پریشد کے علاقائی صدر راگھویندر سنگھ نے کہا کہ اونیندر پرتاپ سنگھ عرف اججو بھیا کو بجرنگ دل کی تمام ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ وی ایچ پی نے چوہان کو دھرم جاگرن ونگ میں بھیج دیا ہے۔ وشو ہندو پریشد کے برج علاقے کے صدر، سنیل پراشر کا کہنا ہے، 'وی ایچ پی آر ایس ایس کی ایک ذمہ دار تنظیم ہے۔ ہم سنگھ کی طرف سے دکھائے گئے راستے پر چلتے ہیں لیکن ہم محسوس کر رہے ہیں کہ گزشتہ چند ماہ سے کچھ لیڈر اپنی مرضی سے کام کرنے لگے ہیں۔پراشر نے کہا کہ ایسے لیڈروں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ تنظیم کی تصویر کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اججو چوہان وہی متنازعہ شخص ہیں جنہوں نے آگرہ شہر میں ’’گھر واپسی‘‘ پروگرام چلایا تھا، جو اصل میں وی ایچ پی یا آر ایس ایس کی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں ہے۔اس معاملے پر چوہان کا کہنا ہے کہ اسے بجرنگ دل کے کنوینر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، لیکن کوئی بھی اسے دل سے نہیں ہٹا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 'تمام ہندو بجرنگ دل کا حصہ ہیں۔ میں آخری سانس تک تنظیم کا حصہ رہوں گا۔
غازی آباد کا ایک تنازعہ
فرقہ پرستوں کی طرف سے لوجہاد کی افواہ پھیلانا اور اس کے جواب کے طور پر بہو لاؤ بیٹی بچاؤ مہم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس قسم کے معاملے آئے دن روشنی میں آتے رہتے ہیں۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب غازی آبادمیں واقع رجسٹرار آفس میں نکاح رجسٹرڈ کرانے پہنچے ایک عاشق جوڑے کے ساتھ دوسرے فرقہ کے لوگوں سے تنازعہ ہو گیاتھا۔ اس کے بعد رجسٹرار آفس میں ہی دونوں فریقوں کے درمیان مارپیٹ شروع ہو گئی۔ پولیس نے درمیان میں پڑ کربیچ بچاؤ کی کوشش کی اور دونوں فریقوں کو تھانے لے آئی۔معلومات کے مطابق ایک فرقے کی لڑکی نے اپنا مذہب تبدیل ک اپنے پریمی کے ساتھ نکاح کر لیا تھا۔ اس کے بعد دونوں نکاح کو رجسٹرڈ کرانے رجسٹرار آفس آئے ہوئے تھے جہاں تنازعہ شروع ہوگیا۔لڑکے والوں کا کہنا تھا کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا تھا اور شادی کی تھی۔ خود لڑکی نے پولس کے سامنے بھی قبول کیا کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے اپنے پریمی سے شادی کی ہے مگر ایک فرقہ پرست جماعت کے کچھ ارکان کا الزام تھا کہ لڑکی کو بہلا پھسلا کر مذہب تبدیل کرایا گیا ہے۔پولیس نے دونوں فریقوں کو تھانے لا کر گواہوں اور ہندو تنظیم کے لوگوں کی شکایت پر مقدمہ درج کر لیا تھا۔
فرقہ وارانہ فساد مہم
اترپردیش میں ایک بار پھر’’ لوجہاد‘‘ کے بھوت کا ظہور اور بہو لاؤ، بیٹی بچاؤ مہم کی شروعات کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ لگتا ہے۔ حالات کے جانکار محسوس کرتے ہیں کہ یہ سب ریاست کے فرقہ وارانہ ماحول کو زہر آلود کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ غور طلب ہے کہ مظفر نگر کے فسادات کی ابتدا اسی قسم کی مہم سے ہوئی تھی جس کے خلاف جگہ جگہ جاٹوں کو بھڑکایا گیا تھا۔ کئی جگہوں پر مہاپنچایت ہوئی اور ان اجتماعات سے لوٹنے والوں نے مسلمانوں پر حملے کئے۔ اس کا فائدہ بی جے پی کو لوک سبھا الیکشن میں ملا اور اس نے سیٹو ں کی فصل کاٹی۔ مسلمانوں کے قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور وہ قانون ساز اداروں میں پہنچ گئے۔ ۲۰۱۷ء میں یہاں ودھان سبھا انتخابات ہیں جن کے پیش نظر ریاست میں دنگا کرانے کی مہم چلائی جارہی ہے اور اسے ’’بہو لاؤ بیٹی بچاؤ‘‘ ابھیان کا نام دیا جارہاہے۔ اکھلیش سرکار امن وامان قائم کرنے میں ناکام رہی ہے اور اگر ذرا بھی ڈھیل دی گئی تو یہاں حالات بد ست بدتر ہوسکتے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا