English   /   Kannada   /   Nawayathi

کثرت و قلت کی بحث جہالت ہے

share with us

مسلمانوں اور غیرمسلموں میں وہ ہندو ہوں، عیسائی ہوں، یا سکھ ہوں بنیادی فرق یہ ہے کہ مسلمان کا ایمان ہے کہ وہ نہ بچہ پیدا کرتا ہے نہ اسے کھلاتا ہے نہ پہناتا ہے نہ پڑھاتا ہے اور نہ اسے کہیں نوکر رکھواتا ہے یا کاروبار کراتا ہے۔ یہ سارے کام وہ کرتا ہے جسے وہ پاک پروردگار مانتا ہے۔ آج کی دنیا میں صرف ایک کتاب قرآن عظیم ایسی کتاب ہے جو 1500 برس پہلے قسطوں میں پروردگار نے اپنے پیغمبرؐ پر نازل فرمائی اور اس میں جو کچھ کہہ دیا وہ قیامت تک اسی طرح ہوگا جیسا ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ اس قرآن عظیم میں فرمایا گیا ہے کہ ’زمین میں کوئی پیدا ہونے والا کیڑا بھی ایسانہیں ہے جس کا رزق اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ نہ رکھا ہو اور ایک جگہ فرمایا ہے جس کا ترجمہ ہے: ’یعنی وہ (یعنی اللہ تعالیٰ) تم کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے تمہارا وہم و گمان بھی نہیں ہوگا۔ اور ایک جگہ حکم دیا ہے کہ ’فاقوں یا تنگی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو۔ (سب آزاد ترجمے ہیں)
اب ہر غیرمسلم کو یہ سوچنا چاہئے کہ کوئی مسلمان اگر خدائے ذوالجلال کی یقین دہانی اور حکم پر عمل نہ کرے تو وہ مسلمان ہی نہیں رہے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ ہر کسی نے وہ ہندو ہو مسلمان ہو، سکھ ہو عیسائی ہو یہ دیکھا ہوگا کہ بے سامان و گمان اللہ کا کوئی بندہ فقیر سے امیر اور امیر سے فقیر ہوگیا۔ مسلمان کا ایمان ہے کہ یہ سب وہی کرتا ہے جس نے دنیا بنائی ہے اور جس نے ہر جاندار کو پیدا کیا ہے وہ چاہے انسان ہو یا جانور ہوں، پانی میں رہنے والی مچھلیاں ہوں یا نالی میں پیدا ہونے والے کیڑے۔
ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنا جائزہ لے کہ وہ کل کیا تھا اور آج کیا ہے؟ اس نے وہ کون سے غلط کام کئے تھے جس کی بنا پر وہ امیر سے فقیر ہوگیا اور اس نے وہ کون سے اچھے کام کئے تھے جن کی وجہ سے وہ فقیر سے امیر ہوگیا۔ وہ کون سی طاقت ہے جو کسی کو بے مانگے دس بچے دیتی ہے اور لاکھوں روپئے خرچ کرکے علاج کرانے کے بعد بھی ایک بچہ بھی نہیں دیتی اور جسے چاہتی ہے لڑکے دیتی ہے اور جسے چاہے لڑکیاں۔ اس معاملے میں ہر آدمی کو اپنا مواخذہ خود کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ ہم خود جتنا اپنے کو جانتے ہیں کوئی نہیں جانتا۔ حکومت آج کی ہو یا اس وقت کی جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگائی تھی اسی فکر میں دبلی ہورہی ہے کہ آبادی پر اگر روک نہیں لگی تو ملک میں لوگ بھوک سے مرنا شروع ہوجائیں گے اور مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ اگر ہندوستان کی آبادی تین سو کروڑ بھی ہوجائے گی اور پیدا کرنے والا نہیں چاہے گا تو ایک کتا یا بلّی بھی بھوکی نہیں مرے گی۔
میں اپنے اعمال نامہ سے ابتدا کرتا ہوں کہ میں نے 1953 ء میں ایک پریس کرایہ پر لیا یہ وہ پریس تھا جس کی 20 روپئے مہینے کی بھی آمدنی نہیں تھی۔ میں نے محنت کی رات دن محنت پوری ایمانداری سے کام کیا اور ممکن حد تک اچھے سے اچھا کام کیا۔ دینے والے نے مجھے محنت اور ایمانداری کی مزدوری بھی دی اور انعام بھی اور مجھے چار بیٹے دیئے اور دو بیٹیاں دیں اور آج میرا شکر کے سجدے سے سر نہیں اٹھتا کہ میرے بیٹے بھی وہاں ہیں جو کسی بات کے خواب کی تعبیر ہوسکتی ہے اور بیٹیاں بھی اتنے عیش میں ہیں کہ خدا ہر باپ کو اپنی بیٹی کی طرف سے ایسی ہی خوشیاں دے۔
خدا کی قسم اگر کوئی مجھ سے کوئی حلفیہ بیان لے کہ میں نے کیا کیا؟ تو میرا صرف ایک ہی جواب ہوگا کہ میں نے صرف دعا کی۔ اپنے بچوں کو حرام کمائی کا ایک نوالہ نہیں کھلایا اور اسی روش پر سب بچے بھی چل رہے ہیں۔ میری بیٹیاں دو ہیں اور نواسے نواسیاں گیارہ۔ بیٹے چار ہیں اور پوتے پوتیاں وہی گیارہ۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ ہمارا ایمان ہے کہ وہ ملک میں کتنے بچے مسلمانوں کے گھر میں پیدا کرے اور کتنے غیرمسلموں کے گھر میں۔ ایمرجنسی کے زمانہ میں بکنے والے مولویوں نے فتویٰ دے دیا تھا کہ منصوبہ بندی کی شریعت میں اجازت ہے لیکن تمام بڑے عالموں نے صاف انکار کردیا تھا اس لئے کہ جب انہوں نے فرما دیا ہے کہ میں ہی پیدا کروں گا اور میں ہی کھانے کو دوں گا تو فکر کا ہے کی؟
میں پھر اپنی بات دہراتا ہوں کہ میرے بڑے داماد انیمل ہز بینڈری میں ملازم تھے معمولی تنخواہ تھی نیک خاندان کے نیک فرزند تھے انہوں نے قسم کھانے کو بھی رشوت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ وہ گزیٹیڈ افسر ہوکر ریٹائر ہوئے بھرا پرا گھر تھا سب کو فکر تھی کہ کیا ہوگا؟ پھر وہ ہوا کہ میرے نواسے دو بلڈنگوں کے مالک ہیں اور تین دکانیں ہیں کسی بھائی کو سر کھجانے کی فرصت نہیں اور سب کے بچے لامارٹینئر اور لاریٹو میں پڑھ رہے ہیں اور ایک لاکھ روپئے سال سے زیادہ زکوٰۃ دی جاتی ہے۔
چھوٹی بیٹی کی شادی کی تو داماد صرف ہائی اسکول پاس تھے لیکن میری بیوی کے بھانجے تھے ان کا ہر بات کے جواب میں صرف ایک جملہ ہوتا تھا کہ کیا آپ کو بھی اللہ پر بھروسہ نہیں؟ اور شادی کردی۔ انہوں نے زندگی میں کسی انجینئرنگ کالج میں ایک دن بھی تعلیم نہیں پائی نہ کسی انجینئر سے کوچنگ لی ہاں اُن کے باپ بھی انجینئر تھے اور ان کے دو بڑے بھائی بھی انجینئر تھے۔ آج وہ سعودی عرب کے دو سرکاری اخباروں کے دفتر میں سب سے بڑے انجینئر ہیں اور ہر مشین ان کی محتاج ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو پانچ سال لندن میں رکھ کر آکسفورڈ میں انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرائی اور اب وہ بھی ان ہی اخباروں میں انجینئر ہیں۔ میری بیٹی بھی ایک بہت مہنگے اسکول میں پڑھارہی ہے اور نواسی بھی ایک اس سے بھی بڑے اسکول میں پڑھا رہی ہے۔ یہ وہ گھرانہ ہے جس کے ساتھ رشتہ جوڑتے وقت صرف یہ دیکھا تھا کہ وہ بھانجہ ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ اللہ پر بھروسہ کرو۔ وہی سب دے گا تم کچھ نہیں ہو۔
چائنا کی مثال سامنے ہے۔ اس کی آبادی ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ یاد نہیں کہ آج تک وہاں سے بھوکے مرنے کی کوئی خبر آئی ہو۔ وہ نہ توحید کے قائل ہیں نہ مسلمان ہیں لیکن انہیں ان کی محنت اور ایمانداری کا بدل مل رہا ہے۔ ہر غیرمسلم کو بھی اس کی محنت کا اور دیانتداری کا صلہ ملتا ہے۔ آج ہماری حیثیت چین سے زیادہ ہونا چاہئے تھی لیکن ہمیں یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ حکومت ہاتھ میں آتے ہی ہم نے بے ایمانی شروع کردی اور 1962 ء میں جب چین نے دوستی کی کمر میں خنجر مارا تو ہماری فوجوں کو واپس آنے کا راستہ مل رہا تھا نہ سڑک نہ پل۔ اس لئے کہ وہ سب کاغذ پر بنے تھے زمین پر کوئی نہیں تھا۔ اگر ہمارے حکمراں بھی ماؤزے تنگ اور چو این لائی کی طرح ایماندار ہوتے تو چین کو نہ ہمت ہوتی اور اگر وہ غلطی کر بیٹھتا تو اسے بھاگنے کا راستہ نہ ملتا۔
ہمارے ملک کے تنگ نظر ہندو لیڈر اگر صرف اتنی بات مان لیں کہ پیدا کرنا اور نہ کرنا اور زندہ رکھنا یا مارنا نہ ہندو کے اختیار میں ہے نہ مسلمان کے تو انہیں یہ شکایت نہیں ہوگی کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی اور ہندوؤں کی کم رہ گئی۔ وہ بھی یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ پیدا کرنا نہ کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ اور یہ سوچنا چھوڑدیں کہ کھلانا اور نہ کھلانا بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے جو پیدا ہوگا اسے پیدا کرنے والا کھلائے گا تو ان کی پریشانی ختم ہوجائے گی۔ اگر ہر ہندو کے گھر میں دس دس بچے پیدا ہونے لگیں اور اگر ان کی تعداد ایک سو دس کروڑ ہوجائے تب بھی کسی مسلمان کا یہ سوچنا کہ ہندو زیادہ ہوگئے اور ہم بہت کم تو یہ بھی اسلام کے خلاف ہے کسی ہندو یا سکھ کی کیا ہمت ہے کہ وہ اپنی مرضی سے دس بچے پیدا کرسکے؟ اور نہ ان کی یہ حیثیت ہے کہ وہ مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے سے روک سکیں۔ اس لئے یہ بحث جاہلوں کا کام ہے اور ایسی بحث سے نہ کچھ حاصل ہوا ہے نہ ہوگا۔ اسی ہندوستان پر سیکڑوں برس مسلمانوں نے اقلیت میں ہوتے ہوئے حکومت کی اور انگریزوں نے بھی مٹھی بھر ہوتے ہوئے سو سال حکومت کی جس سے ثابت ہوگیا کہ حکومت کا تعلق اکثریت اور اقلیت سے نہیں ہے اور مسلمان کا یہ بھی ایمان ہے کہ پوری دنیا پاک پروردگار کی ہے وہ جسے چاہتا ہے حکومت دے دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے لے لیتا ہے اس لئے یہ خیال بھی دماغ سے نکال دینا چاہئے کہ حکومت کے لئے اکثریت ضروری ہے۔ حکومت نااہل سے لے لی جاتی ہے اور اہل کو دے دی جاتی ہے۔ اس کا کوئی تعلق اکثریت اور اقلیت سے نہیں ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا