English   /   Kannada   /   Nawayathi

ممبئی کے قاتلوں کو کبھی سزا ہوگی؟

share with us

افضل گرو پر الزام تھا کہ اس نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کی سازش رچی، جس کی سزا میں اسے موت دی گئی۔اجمل عامر قصاب پر ممبئی میں دہشت گردانہ حملہ کرکے معصوم لوگوں کو مارنے کا الزام لگا اور اسے بھی سزائے موت دی گئی۔ ان سبھیلوگوں پر دہشت گردی کاالزام تھا جس کے لئے ان پر مقدمے چلے اورموت سے قبل برسوں تک انھیں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند بھی رہنا پڑا۔حالانکہ بھارت میں دہشت گردی کی پیدائش کا بنیادی سبب تھا، بابری مسجد کا انہدام اور مسلم کش فسادات ،جن کا استعمال ہمیشہ سیاسی مقاصد سے کیا گیا مگر ان فسادات کے لئے کبھی کسی ایک شخص کو سزا نہیں ہوئی، بلکہ ان پر نہ کبھی مقدمے چلے اور نہ ہی قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ۱۹۹۳ء کے ممبئی بلاسٹ جن کے لئے یعقوب میمن کو پھانسی دے دی گئی اور یعقوب کے تشدد کی طرف میلان کا سبب بابری مسجد کا انہدام وممبئی کے مسلم کش فسادات بتائے گئے، ان کے لئے سری کرشنا کمیشن نے جن لوگوں کے نام لئے تھے ان میں خاص نام تھے ،لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اشوک سنگھل، اوما بھارتی، بال ٹھاکرے، نارائن رانے، چھگن بھجبل، کلیان سنگھ، پروین توگڑیا۔یہاں ہم نے صرف چند مشہور نام گنوائے ورنہ کمیشن نے بہت سے بھاجپا، شیو سینا، بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد کے نیتاؤں اور پولس والوں کے نام لئے ہیں۔اس رپورٹ میں ایسے نام بھی ہیں جن کا تعلق کانگریس اور این سی پی سے ہے اور بعض نے بعد میں کانگریس و این سی پی میں شامل ہوکرسیکولرازم کا تمغہ حاصل کیا۔بابری مسجد کے انہدام کے بعد پورے ملک میں فسادات کی آگ بھڑکی اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے جب کہ اکیلے ممبئی میں سرکاری رپورٹ کے مطابق 1100 لوگوں کا قتل ہوا۔ہندی فلموں کا مشہور ڈائیلاگ ہے کہ’’ ایسی کوئی جیل نہیں بنی جو ہمیں قید کرسکے‘‘یہ ڈائلاگ اگر واقعی کسی پر صادق آتا ہے تو وہ سیاسی لوگ ہیں جو دنگے کرانے کے بعد اپنی ایم پی، ایم ایل اے اور منتری کی کرسیاں پکی کر لیتے ہیں اور قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتا۔
قاتلوں میں بھید بھاؤ کیوں؟
ممبئی فساد پہلے ہوا تھا، دھماکے بعدمیں ہوئے، بابری مسجد کے انہدام پر فسادات پہلے ہوئے تھے اور پارلیمنٹ پر حملہ بعد میں ہواتھا، انسانیت کش دنگے پہلے ہوئے تھے اور قصاب کی تخریب کاری بعد میں سامنے آئی تھی مگر بعد کے واقعات پر سزا پہلے ہورہی ہے اور پہلے کے دنگوں پر سزا تو دورایف آئی آر تک نہیں ہوئی۔ سری کرشنا کمیشن کا قیام سرکار نے ہی کیا تھا اور اس کی رپورٹ کو سردخانے میں ڈالنے کا کام بھی اسی نے کیا۔ جس وقت دنگے ہوئے اورکمیشن کا قیام ہوا تھا اس وقت مہاراشٹر اور مرکز دونوں جگہ کانگریس کی سرکاریں تھیں اور جس وقت کمیشن کی رپورٹ آئی اس وقت مہاراشٹر میں شیو سینا بی جے پی کی سرکار آچکی تھی مگر اس کے بعد دوبارہ کانگریس ریاست میں بھی آئی اور مرکز میں بھی مگر اس نے ایک بار بھی سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ مسلمان نہ صرف اپنے سودوزیاں سے بے خبر ہے بلکہ اس سے ہم ووٹ بی جے پی کا خوف دکھا کر لے سکتے ہیں۔آ ج اگر خود جسٹس سری کرشنا یہ کہہ رہے ہیں کہ بم دھماکوں کے مقدموں کی سماعت میں جس قدر جلد بازی دکھائی گئی ویسی جلد بازی فسادات کے ذمہ داروں کو سزا دلانے میں نہیں دکھائی گئی تو ا سمیں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ایک طرف تو یہاں کی حکومتیں بار بار داؤد ابراہیم، ٹائیگر میمن اور بم دھماکوں کے لئے ملزمان کو بھارت لانے کی کوششوں میں مصروف رہے ں،وہیں دوسری طرف وہ فرقہ پرست لیڈران جو دنگوں کے لئے ذمہ دار تھے وہ ملک کے اندر اونچی کرسیوں پر بیٹھے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور ان کے خلاف رسمی کارروائی بھی نہیں کی گئی۔انصاف کا یہ دوہرا پیمانہ ہندوستان،اس کے جمہوری سسٹم اور اس کے مستقبل کے لئے مفید نہیں کہا جاسکتا۔ 
فساد کے ذمہ داروں پر کارروائی
فسادات کے دوران شرمناک کردار کے لئے، اس وقت کے ممبئی کے ایس پی اور 31 پولیس والوں کی ٹیم پر 30 سے زیادہ مزدوروں کو مارنے کا الزام تھا مگر نچلی عدالت نے انھیں محض پھٹکار لگا کر چھوڑ دیا۔ جب ایک گونگے بچے نے ایک پولیس اہلکار سے اپنی جان کی بھیک مانگی تو اس نے اسے دنگائیوں کے حوالے کر دیا۔جنھوں نے اسے جلتی آگ میں پھینک دیا۔ اس قسم کے واقعات یہاں کئی ہوئے جن کے لئے کمیشن کی رپورٹ کو دیکھا جاسکتا ہے۔دنگے بھڑکانے کے لئے سری کرشنا کمیشن نے بال ٹھاکرے اور شیوسینا کے ترجمان اخبار ’’سامنا‘‘ پر شدید تنقید کی تھی مگر ان کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور بال ٹھاکرے اپنی زندگی جی کر فطری موت سے مرا۔160ایک عدالتی فیصلے میں بھی جج نے زور دے کر کہا تھاکہ بم دھماکے مسلمانوں کی سازش سے ہوئے، جبکہ ممبئی فسادات، خاص طور پر جنوری 1993 میں ہوئے دوسرے مرحلے کے فسادات بی جے پی۔ شیو سینا نے کرائے تھے۔ممبئی دنگوں کے قصورواروں کے خلاف کارروائی کی مانگ بار بار اٹھی مگر حکومت نے اسے قابل توجہ کبھی نہیں گردانا۔ بی جے پی کی حکومت سے تو خیر ہم کارروائی کی امید نہیں کرسکتے مگر کانگریس اور این سی پی جو مسلمانوں کی ہمدردی کے بلند بانگ دعوے کرتی رہتی ہیں، ان کا رول اس معاملے میں شرمناک رہا۔اگر انھوں نے ایمانداری سے کام کیا ہوتا تو شاید اس ملک میں دہشت گردی کا وجود نہیں ہوتا۔
جسٹس سری کرشنا کا سوال
جسٹس سری کرشنا جن کی سربراہی میں دنگوں اور بم دھماکوں کی جانچ کے لئے کمیشن قائم ہوا تھاوہ بھی سمجھتے ہیں کہ انصاف کا پیمانہ دوہرا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کا رویہ جانبدار دکھائی دیتا ہے اور اس میں 1992 کے ممبئی فسادات کے ملزمان کو سزا دلانے میں کوئی تجسس نہیں دکھائی دیتا۔ جسٹس شری کرشنا نے کہا کہ جن کے پاس اقتدار اور طاقت رہی ان کی طرف سے جانبداری صاف دکھائی دے رہی ہے کہ اس طرح فسادات کی تحقیقات نہیں ہو پائی جس طرح 1993 کے بم دھماکے کی جانچ کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ فسادات کے جن ملزمان کے خلاف واضح ثبوت تھے ان کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی گئی۔انھوں نے مزید کہا کہ فسادات کے 22 سال بعد بھی 900 لوگوں کی موت کے لئے اب تک صرف تین لوگوں کو مجرم پایا گیا ہے۔ وہیں، 1993 دھماکوں کے لئے اب تک 100 لوگوں کو مجرم قرار دیا گیا ہے۔حالانکہ اسی کے ساتھ انھوں نے یعقوب میمن کی پھانسی کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بچنے کے پورے موقع دیئے گئے، لیکن ان کی خواہش ہے کہ ایک دن 1992 کے فسادات کے قصورواروں کو بھی سزا ملے ۔
اگر پھانسی انصاف ہے۔۔ 
یعقوب کی پھانسی کے بعد اب انصاف کے دوہرے معیار پر مزید شدت سے سوال اٹھ رہے ہیں۔ مجلس اتحادالمسلمین کے اسدالدین اویسی نے کہا، ’’ ممبئی فسادات میں جو لوگ مارے گئے تھے، ان کے قصورواروں کو سزا ملنی چاہئے، بابو بجرنگی،مایا کوڈنانی، کرنل پروہت اور سادھوی پرگیہ کو بھی پھانسی ملنی چاہئے۔ پھانسی پر لٹکانا اگر انصاف ہے تو ان لوگوں کو بھی پھانسی ملنی چاہئے۔ میں یعقوب کی پشت پناہی نہیں کرتا، لیکن ہمیشہ ہمارا ہی نقصان ہوتا ہے۔ بینت سنگھ کے قاتل کو مذہب کے نام پر بچایا جا رہا ہے۔ یہی حال راجیو گاندھی کےقاتلوں کا ہے۔ بابری مسجد گرانے والوں کو بھی پھانسی ہو۔ اگر میں احترام کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ناخوش ہوتا ہوں تو کیا غلط ہے؟ ‘‘اویسی نے یہ بھی کہا، ’’ یعقوب نے تو انڈین ایجنسیوں کی مدد کی۔ اس نے اپنے بھائی کے خلاف بھی ثبوت دیا۔ گجرات فسادات کے قصورواروں کو حکومت پھانسی کیوں نہیں دیتی؟
ایک قانون اور دو انصاف
اس وقت سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ ہمارے ملک میں قانون ایک ہے، عدلیہ ایک ہے، سرکار ایک ہے اور قانون ساز ادارہ بھی ایک ہے تو انصاف کے پیمانے دو کیوں ہیں؟ آخر قاتل کا مذہب دیکھ کر اس کے خلاف کارروائی کیوں کی جاتی ہے؟قاتل اگر مسلمان ہے اور وہ ملک سے باہر ہے تو اسے پکڑلایا جاتا ہے اور اسے قانون کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا جاتا ہے جب کہ قاتل اگر ہندو ہوتا ہے تو اسے قتل کے انعام کے طور پر وزیر کیوں بنادیا جاتا ہے؟ آج اگر یعقوب میمن کی پھانسی پر اسدالدین اویسی سوال اٹھاتے ہیں، ابو عاصم اعظمی سوال اٹھاتے ہیں، اعظم خاں سوال اٹھاتے ہیں تو انھیں میڈیا بھی کوسنے دینے سے نہیں چوکتا مگر وہ حکومت سے کیوں نہیں پوچھتا کہ فسادات کے مجرموں کو کب سزا ملے گی؟ ممبئی دنگوں کے ذمہ داروں کو کب کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا؟ آخر ایک ملک میں انصاف کا دوہرا معیار کیوں اپنایا جارہا ہے؟ جب فسادات اور دہشت گردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو سزا صرف دہشت گردوں کو کیوں ہوتی ہے فسادیوں کو کیوں نہیں ہوتی؟ 
سوتیلا انصاف کیوں؟
بھارت میں کچھ دنوں سے بحث چل رہی ہے کہ کیا 1984 میں دو دن کے اندر اندر ہوئے تقریبا چار ہزار سکھوں کے قتل عام کے لیے سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو معافی مانگنی چاہئے ؟اس سے پہلے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی سے ان کے مخالف یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ گجرات میں 2002 میں ہوئے فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کے مارے جانے کے لئے معافی مانگیں۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ہوئے ہیں، جن میں ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں۔چونکہ الزام یہ لگتے ہیں کہ فرقہ وارانہ فسادات یا تو انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے ہوتے ہیں یا پھر سیاستدانوں کے اشاروں پر، لہذا فساد کرنے والوں کے خلاف کارروائی پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ آج مسئلہ صرف یہ نہین ہے کہ فسادات کے لئے سیاست داں معافی مانگ لیں اور ہزاروں معصوموں کے خون دھبے ان کے دامن دھل جائیں۔اصل بات یہ ہے کہ دنگوں کی سیاست بند ہونی چاہئے، ذمہ داروں کے خلاف منصفانہ کارروائی ہونی چاہئے ،خواہ وہ کتنے بڑے سیاستداں کیوں نہ ہوں۔جب تک دہشت گردی اور فساد کے مجرموں میں بھید بھاؤ کیا جاتا رہے گا اور اس ملک میں سوتیلا انصاف ہوتا رہے گا تب تک نہ فسادات رکیں گے اور نہ ہی دہشت گرد ی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔(یو این این)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا