English   /   Kannada   /   Nawayathi

امید ابھی باقی ہے

share with us

یہاں تک کہ رام لیلا میں اگر کوئی ہندو راون بنتا ہے تو رام کا کردار کوئی مسلمان ادا کرتا ہے ۔ نغمہ گانے والا اگر کوئی مسلمان ہے تو ہارمونےئم کسی ہندو کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ تاریخ نے ان کے رشتوں کو پیاز کے پرتوں کی طرح جوڑا ہوا ہے کہانہیں الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ یہاں کسی انسان کی غلطی اس کی اپنی مانی جاتی ہے خاندان یا برادری کو اس سے نہیں جوڑا جاتا ۔ ہم بھارت کے لوگ خیال ،سوچ ( وچار) کو اہمیت دیتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ بات کہنے والا کون ہے اچھائی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ویدو یا گیتا پر اس کے مرتب کرنے والوں کا نام نہیں ہے لیکن پھر بھی ان کی اچھائیوں سے فیضیاب ہوتے ہیں ۔ صوفیوں کی قبر پر یونہی میلے نہیں لگتے ان کی خدمات اور انسانی ہمدردی کو ہم سلام کرتے ہیں حب الوطنی کے ترانے ہم نے ساتھ مل کر گائے ہیں اسی وطن کی مٹی نے ہمارے خمیر میں وہ سوچ پیدا کی ہے جس سے قومی ہم آہنگء ہیدا ہوتی ہے ۔ اسی سے وہ طاقت ملتی ہے جو ملک کو نا انصافی ، نا برابری ، تعصب اور ظلم سے بچانے میں مدد کرتی ہے ۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ سرکار آنے کے بعد فرقہ پرست جس طرح سرگرم ہوئے اس میں ایک بار تو ایسا لگنے لگا تھا کہ شاید پورا ملک اس رنگ میں رنگ جائے گا ۔ملک میں سیکولر قدروں کے لئے کوئی ہمدردی اقلیتوں پر بھاری پڑے گی ۔ہمیشہ کی طرح ملک کے امن و انصاف پسند اور قومی اتحاد کی فکر رکھنے والوں نے فرقہ پرستی کے طوفان کو روکنے کے لئے اپنے طریقہ سے کام شروع کر دیا ۔ گجرات کے سینئر وکیل مکل سنہا نے سہراب الدین اور عشرت جہاں کو ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑکر انصاف دلانے کی کوشش کی ۔ تیستا سیتلواڑ نے گجرات میں رونما ہوئے 2002کے بھیانک فسادات کے مجرموں کو جیل تک پہنچایا ۔ اس کے لئے انہیں اور ان کے شوہر کو فرقہ پرستوں کی طرح طرح کی دھمکیوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا ۔رشی کیش کے شیوا نند آشرم کے بزرگ سادھو شیو آنند مہاراج نے یوپی پولس کے ذریعہ ددہشت گردی کے الزام میں گرفتارمسلم نو جوان کے حق میں گواہی دے کر پولس کی جھوٹی کہانی سے پردہ اٹھا دئا ۔ جب عدالت نے شیو آنند مہاراج سے پوچھا کہ آپ رشی کیش سے چل کر تین بار گواہی دینے کے لئے لکھنؤ تک آئے تو آپ کے سفر پر جو خرچ آیا ہو بتا دیجےئے تو سوامی جی نے کہا انہوں نے یہ گواہی صرف ایک بے گناہ کو بچانے کے لئے دی ہے اور ان کو عدالت سے کسی قسم کا خرچ نہیں چاہئے ۔ سوامی جی کی گواہی سے ہی تین مسلم نو جوانوں کی زندگی برباد ہونے سے بچ گئی ۔
سرکار دہشت گردی کو لے کر بہت سنجیدہ ہے اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ دہشت گردی اس وقت عالمی مسئلہ بن چکی ہے ۔ دنیا کا بڑا حصہ اس کی زد میں ہے ملکی سطح پر نکسلواد اور فرقہ وارانہ فسادات دیشت گردی سے کم سنگین مسئلہ نہیں ہے ۔تینوں گناہوں کی نوعیت کم و بیش ایک جیسی ہے ۔ دہشت گرد باہر سے آکر حملہ کرتے ہیں اور بے گناہوں کو نشانہ بناتے ہیں ، نکسلی جنگلات سے نکل کر ، دیہی بستیوں اور آبادیوں پر حملہ کرتے ہیں یا گھات لگا کر حفاظتی دستوں کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ فسادات میں بھیڑ ایک فرقہ کی دوسرے فرقہ کی قلیل آبادی پر حملہ کرکے جان و مال کا نقصان پہچاتی ہے ۔ فسادات میں کمزور ، مزدور ، بت سہارا جگی جھونپڑی میں رہنے والے اور بھٹکے ہوئے راہگیر نشانہ بنتے ہیں ۔ اس لئے سرکار کو ان تینوں مسئلوں سے نپٹنے کے لئے سخت قانون بنانا چاہئے ۔ اگر فساد کرنے کے گناہگاروں کو سزا ملنے لگے گی تو ملک کے کروڑوں روپے کے نقصان سے بچایا جا سکتا ہے ۔ دوسری طرف سماج نفرت کی بیماری سے محفوظ رہ سکے گا ۔
کرشنا کمیشن نے 1993میں ہوئے ممبئی میں سلسلہ وار بم دھماکوں کو 1992کے ممبئی کے مسلم کش فسادات کا رد عمل بتایا تھا ۔1992کے فرقہ وارانہ فسادات کے گناہ گاروں کو اگر سزا ملی ہوتی تو شاید یہ دھماکہ نہ ہوتا بہرحال دھماکوں کے گناہ کے لئے بعقوب میمن کو پھانسی کی سزا ہو چکی ہے ، یعقوب کی پھانسی پر بحث جاری ہے ایمنسٹی انٹر نیشنل نے پھانسی کو دہشت گردی سے نپٹنے کی طرح قدم بتایا تھا تو یونائیتیڈ نیشن کے جنرل سکریٹری بان کی مون نے پھانسی کے خلاف اپنا رد عمل درج کرایا تھا ۔ جسٹس مارکنڈے نے کہا تھا کہ اس کے خلاف ثبوت بہت کمزور تھا اس لئے اس کی سزا غکط تھی ۔کارٹجو نے تو اپنے آپ کو ملک کی اکثریت سے الگ کرنے کا بھی اعلان کر دیا تھا ۔ سیاسی لوگوں کے بھی بہت سے بیان آئے یعقوب پر ان باتوں کا کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ یعقوب کی پھانسی سے جہاں کئی سوال ابھرے ہیں وہیں سماج اور عدلیہ کا ناقابل یقین رویہ بھی سامنے آیا ہے ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ملک کی عوام دو حصوں میں بٹ چکی ہے ایک وہ تھے جو اس کی پھانسی چاہتے تھے ان کی تعداد بہت کم تھی دوسرا حصہ وہ تھا جو اس پر نظریں لگائے ہوئے گا کہ اس کا فیصلہ ہوگا یا اسے انصاف ملے گا ۔دو سو سے زائد لوگوں نے صدر جمہوریہ کو رحم کی درخواست دی تھی جس میں مسلمان نا کے برابر تھے ۔ سپریم کورٹ کے 20سے زائد سینئر وکلاء نے چیف جسٹس سے اس معاملہ کی دوبارہ سماعت کئے جانے کی اپیل کی تھی ان اپیل کرنے والوں میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا ۔ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ سپریم کورٹ رات کو کھلا اور 4.30بجے صبح تک سماعت چلی ۔ ملک کا بڑا حصہ رات بھر جاگتا رہا ۔عوام جانتے ہیں کہ بم دھماکوں کے مجرم بھلر کی پھانسی ٹل چکی ہے ، مکہ مسجد ، سمجھوتہ ایکسپریش اور مالیگاؤں میں دھماکہ کرنے والے ابھی تک بچے ہوئے ہیں ۔ راجیو گاندھی اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بیعنت سنگھ کے قاتلوں کی پھانسی ملتوی ہو چکی ہے بیعنت سنگھ کے قاتل بلونت سنگھ عرف راجو آنا نے عدالت میں صرف اپنا جرم قبول کیا تھا بلکہ کہا تھا کہ اسے اس کا کوئی افسوس نہیں ہے ۔ اس نے اپنے خاندان سے صدر جمہوریہ سے رحم کی اپیل کرنے کو بھی منع کر دیا تھا 2012میں جب اس کی پھانسی کا وقت قریب آیا تو پنجاب میں راجو انا کی حمایت میں ریلیاں ہونے لگیں پھانسی سے دو دن قبل شرومنی گرودوارہ انتظامیہ کمیٹی نے اپنی طرف سے رحم کی درخواست داخل کی جو تین سال سے زیر غور ہے ۔ اکال تحت نے اسے زندہ شہید کا درجہ دے رکھا ہے اکالی دل مرکز کی بھاجپا سرکار میں شامل ہے راجو انا نے اپنی پھانسی رکنے پر کہا تھا کہ ’’ میں خوش ہوں کہ سکھ راشٹر نے دہلی سرکار کی چولیں ہلا کر رکھ دیں ‘‘ ۔سوال یہ ہے کہ راشتر واد کا ہنکار بھرنے والے آج تک خاموش کیوں ہیں ؟ اسے ملک کا دشمن کیوں نہیں کہا ؟ بچو ں کا قتل کرکے ان کا گوشت کھانے والے کوہلی کی پھانسی کئی مرتبہ ملتوی ہوکر رک چکی ہے کیوں ؟یہ وہ سوال ہے جنہوں نے دیش کے انصاف پسندوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ وہ نا انصافی یا انصاف کے دو پیمانوں کے لئے ملک کو رسوا ہوتے نہیں دیکھ سکتے ۔اس لئے یہ امید بندھی ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا راستہ ہموار ہوگا اور ایسے لوگ ساتھ آئین گے جو ملک کے حق میں سوچتے ہیں ۔
فرقہ پرستوں کو دیش کا شیرازہ منتشر کرنے میں کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ ملک میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو امن ، سلامتی اور قومی ہم آہنگی چاہتے ہیں ۔ مظفر نگر میں ہوئی ہندو مسلم ایکتا ریلی اس کی مثال ہے جبکہ اس ریلی کو ضلع انتظامیہ اور ایکتا مخالف لوگوں نے ناکام کرنے کی پوری کوشش کی ۔ یہ ریلی راشٹریہ کسان مزدور سنگھ کے زیر انتظام کی گئی تھی اور اس کی صدارت پنجا ب کے ڈی جی پی کے پی ایس گل نے کی تھی ۔ اس میں مہمان خصوصی کے طور پر آچاریہ پرمود کرشنم شریک ہوئے ۔ اس میں مولانا کلب رشید ، سوامی اگنی ویش ، مولانا محمد اکرام ندوی ، میجر ہمانشو ، الیاس اعظمی وغیرہ شامل تھے ۔ ریلی میں یہ بات صاف طور پر ابھر کر آئی کہ ملک نفرت کی آگ میں جھونکنے والے کبھی بھی دیش کے وفادار نہیں ہو سکتے ۔
نوبل انعام یافتہ سوشل سائنس داں امرتسین نے اپنی تازہ کتاب میں لکھا ہے کہ این ڈی اے کی حکومت میں نصابی کتابوں میں پھر بدل کی جاتی ہے اور اکثر ہندوتو کو بڑھاوا دینے کے لئے اپنے کو وقف کرنے والوں کو دیش میں اہمیت رکھنے والے اداروں کا ذمہ دار بتایا جاتا ہے ۔ سنکھ نے پچھلے ساتھ برسوں میں تعلیمی اداروں کو اپنے نظریات پھیلانے کا ذریعہ بنایا ہے جس کے نتیجہ میں ایسی نسل تیار ہوئی ہے جو ہر مسئلہ کو سنگھ کے چشمہ سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہے ، لیکن ملک میں ایسے اداروں کی بھی کمی نہیں جو اپنی تعلیم اور ماحول سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ایسا ہی ایک ادارہ ماسٹر اسکول آف مینجمٹ دیکھنے کو ملا جہاں مذہبی و سیاسی حضرات کا دخل ممنوع ہے یہاں مسلم طلباء و طالبات کے لئے سحری و افطار کا پورا انتظام غیر مسلم طلبہ و طالبات کرتے ہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کئی غیر مسلم طلباء و طالبات روزہ بھی رکھتے ہیں اس طرح نو راترے میں مسلم طلبہ و طالبات یہ خدمات انجام دیتے ہیں ۔ کانوڑ کے دنوں میں مسلمانوں کی جانب سے کانوڑیوں کی خدمت کرنے کی خبریں بھی آتی ہیں معلوم ہوا کہ سوراج ابھیان سے جڑے لوگ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے بھی ملک گیر مہم چلانے والے ہیں ۔ پرانی کہاوت ہے کہ چند شر پسند اس لئے کامیاب ہو جاتے ہیں کہ امن پسند اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتے ۔ وقت آگیا ہے کہ امن و انساف پسند اور قومی اتحاد کو فوقیت دینے والے مل کر ملک کو نفرت و فرقہ پرستی کے چنگل سے آزاد کرائیں ۔ آگے بڑھیں تبھی کامیاب ہوں گے عوام میں ابھی امید باقی ہے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا