English   /   Kannada   /   Nawayathi

ناوابستہ تحریک کی معنویت ختم ہورہی ہے

share with us

یہ پالیسی بذاتِ خود ایک ایسی پالیسی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی دانست میں بہتری فیصلے کرتے ہیں جن سے ان مقاصد اور اصولوں کو فروغ ملے جو ہمارے ہیں اس کے دوسرے مثبت پہلو دنیا میں آزادی کو فروغ ، نوآبادیات کو آزاد اور خود مختار ملکوں میں بدلنا اور قوموں کے درمیان وسیع تر پیمانے پر بھی باہمی تعاون پیداکرنا ہے۔
یہی وہ نظریہ تھا جس کی بنیاد پر ہندوستان نے ناوابستہ تحریک کو فروغ دیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد مختلف بلاکوں میں تقسیم دنیا کو تیسری عالمگیر جنگ سے بچانے کے لئے یہ ایک نسخہ کیمیا ثابت ہوا، اس کا پہلا سنگ میل ۱۹۵۵ء کی بانڈونگ کانفرنس ثابت ہوئی جس میں افریقہ اور ایشیا کے ۲۹ ملکوں نے شرکت کی تھی جہاں ’’پنچ شیل‘‘ کے اصولوں نے جنم لیا اور اس کے لئے نیز امن کے استحکام کے لئے ناوابستگی کو راہ عمل بنایاگیا اس لئے انڈونیشیا کے شہر بانڈونگ کو ناوابستہ تحریک کی جنم بھومی قرار دیاجاسکتا ہے مگر اس کی باقاعدہ تشکیل ۱۹۶۱ء میں یوگو سلاویہ کے شہر بلغراد میں نہرو، ناصر اور ٹیٹو کے ہاتھوں عمل میں آئی اور ۲۵ ملکوں کی مختصر تعداد کے ساتھ شروع ہونے والی یہ تحریک دیکھتے ہی دیکھتے ایک عالمگیر حیثیت کی مالک بن گئی ۔ بڑی طاقتوں نے اس کا کافی مذاق اڑایا امریکہ کا کہنا تھا کہ’’ دنیا میں صرف دو امریکی اور روسی بلاک ہیں اور ہر ملک کو ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے لیکن ناوابستگی کے نام پر ایک ایسی تحریک کھڑی کی جارہی ہے۔ جس کا ان دونوں میں سے کسی سے تعلق نہیں اور یہ عملی طور پر ناممکن ہے‘‘ لیکن اس درمیانی راہ پر چلنے والے ملکوں کی تعداد میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا اسے دیکھ کر بڑی طاقتیں حیرت زدہ رہ گئیں اور انہیں اپن چودھراہٹ خطرہ میں نظر آنے لگی، خطرہ کے اس احساس نے انہیں ناوابستہ تحریک میں دلچسپی لینے پر مجبور کیا لیکن ان کی یہ دلچسپی خود ناوابستہ تحریک کے لئے خطرہ کا سگنل ثابت ہوئی اور اس کے اندر بھی روس اور امریکہ کی لابیاں پیدا ہوگئیں ایک لابی اس تحریک کو روس سے قریب لے جانے کی کوشش کرتی تو دوسری اسے امریکہ کے زیر اثر دیکھنے کی خواہاں تھی اس طرح کی سرگرمیوں سے جہاں ناوابستہ تحریک بہت سی نظروں میں مشکوک ہوگئی وہیں تحریک کے ممبر ملکوں نے اس کا یہ فائدہ اٹھایا کہ وہ فنی، صنعتی اور دفاعی امداد روس سے حاصل کرتے تو نقدی یا اجناس کی شکل میں مدد امریکہ اور اس کے حلیفوں سے لیتے، سیاسی امور میں ناوابستہ ممالک کی اکثریت کا رجحاان روس کی طرف رہا اس حکمت عملی سے ناوابستہ تحریک کو دھچکے تو لگے لیکن اس کو نفع کا سودا سمجھتے ہوئے آزادی حاصل کرنے والے تمام ایشیائی اور افریقی ممالک اس میں شامل ہوتے گئے اور صرف ۱۰ برسوں کے مختصر عرصہ میں یہ تحریک اپنے شباب پر پہونچ گئی بعد کے برسوں میں دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان عدم توازن کی پالیسی اور اپنے تضادات کی وجہ سے یہ تحریک کمزور ہوتی گئی، کمپیوچیا میں ویت نام کی فوجی مداخلت اور افغانستان پر روس کے قبضہ نے تحریک کو عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم کردیا پنڈت نہرو، ناصر اور ٹیٹو کے انتقال کے بعد کوئی ایسی قد آور سیاسی شخصیت بھی نہیں ابھر سکی جو تحریک کو رہنما خطوط سے بھٹکنے سے روک سکتی ایک گروپ چاہتا تھا کہ کسی غیر ملک میں فوجی مداخلت کے لئے ویت نام اور روس دونوں کی مذمت کی جائے جبکہ دوسرا گروپ اس کے خلاف تھا، تحریک کے دو اور ممبر عراق اور ایران میں برسوں تک چلنے والی جنگ بھی تحریک کے لئے ایک چیلنج بن گئی اور باوجود کوشش کے دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کی کوئی راہ نکالی نہ جاسکی ایک اور متنازعہ مسئلہ بانی ممبر مصر سے متعلق سامنے آیا جس نے اسرائیل کے ساتھ ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ معاہدہ کرکے عرب ممالک کو ناراض کرلیا ، اس کے ساتھ ہی ترقی پذیر ملکوں کے درمیان تعاون باہمی کا کوئی رابطہ نہ ہونے اور ممبر ملکوں کے مابین تنازعات کا کوئی طریقہ وضع نہ کرنے سے بھی تحریک کے امیج کو کافی نقصان پہونچا۔
دوسری طرف روس کے زوال سے فوجی بلاکوں کی رقابت ختم ہونے یا امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کے عراق پر حملے آور ہونے کے بعد دنیا میں ایک قطبی نظام کے لئے راہ ہموار ہونے سے ناوابستہ تحریک کی معنویت پر سوالیہ نشان قائم ہونے لگے پھر بھی تحریک کی بنیادی روح یعنی دنیا کو اسلحہ کی دوڑ سے بچاکر امن وامان کا گہوارہ بنانے اور معاشی امور کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے اس کے وسیلہ سے بہت کام انجام دیا جاسکتاتھا۔
اسی طرح ناوابستہ تحریک جن موضوعات کو اٹھاتی رہی ، وہ آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں، روس کی سربراہی والا بلاک ضرور بکھر گیا لیکن امریکہ کی بالادستی کا حامل ناٹو فوجی بلاک اور اقتصادی استحصال کا شکنجہ جی۔۷ بعد میں زیادہ مستحکم ہوگئے ، جن کے غلبہ سے ترقی پذیر ممالک کا بہتر طور پر دفاع ناوابستہ تحریک ہی کرسکتی تھی۔
اقوام متحدہ کے بعد دوسرے درجہ کے ممبروں کی اس عالمی تنظیم کے اجلاس اب برسوں نہیں ہوتے اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا اس تحریک کو فراموش کرتی جارہی ہے اس کا تاریخی کردار بھی آج ختم ہوچکا ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا