English   /   Kannada   /   Nawayathi

دنگوں کے لئے چنگاری فراہم کر رہا ہے فیس بک

share with us

یوں تو پورے ملک کے امن وامان کو ان سائٹس سے خطرہ لاحق ہے مگر اترپردیش اس معاملے میں زیادہ حساس واقع ہوا ہے۔ یو پی میں گزشتہ رمضان کے آخری ہفتے میں درجن بھر فرقہ وارانہ جھگڑے ہوئے۔ قنوج سے لے کر مہوبہ اور میرٹھ تک لوگ ایک دوسرے کو مرنے ،مارنے پر آمادہ نظر آئے۔ سوالوں کے گھیرے میں بی جے پی کے ساتھ ساتھ حکمراں سماج وادی پارٹی بھی آئی مگرفساد کی کوشش اور اشتعال نگیزیوں میں فیس بک، واٹس ایپ اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کا گناؤنارول سامنے آیا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر کمنٹ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے، یوپی کے وزیر برائے شہری ترقیات اعظم خان کے خلاف پوسٹ کرنے پر سیدھے جیل جانا پڑتا ہے مگر دنگا بھڑکانے کی کوشش ہوتی ہے اور مذہب وفرقہ کے تعلق سے فیس بک کے ذریعے اشتعال انگیزی کی جاتی ہے تو کسی طرح کی کارروائی مشکل ہی سے ہوتی ہے۔ گویا قابل اعتراض پوسٹ پر حکومت کو اعتراض نہیں ہے یا وہ اس سے بے خبر ہے۔ 

غازی آباد کے دنگے میں فیس بک کا کردار
گزشتہ رمضان کے دوران غازی آباد کے لونی علاقے میں فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کے لئے فیس بک پوسٹ کا استعمال کیا گیا۔ یہاں حالات بگڑتے دیکھ پولس نے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی۔ ان کا فیس بک اکاؤنٹ چیک کیا گیا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے، مخصوص فرقے کے خلاف قابل اعتراض پیغام لکھنے کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔مقامی ایس ایس پی کے مطابق فیس بک اکاؤنٹ کی جانچ کے بعد آئی پی سی کی دفعہ 153 اے، آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66 (ا) اور (ب) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
ملائم کے گڑھ میں آگ لگانے کی کوشش
ملائم سنگھ کے آبائی ضلع مین پوری میں ۹ جولائی کو فیس بک پر قابل اعتراض پوسٹ کو لے کر دو فرقے آپس میں الجھ گئے۔ یہاں 8 پولس اسٹیشن کے سامنے دیر رات تک ہنگامہ ہوتا رہا۔ بہت مشکل سے پولیس حالات کو قابو میں کر پائی۔یہ وہ حلقہ انتخاب ہے جہاں سے ملائم سنگھ کے خاندان کے افراد ہی بار بار منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں۔ بہت دن سے فرقہ پرستوں کی نظریں اس علاقے پر ہیں۔ یہاں ہندو۔مسلم اتحاد کے سبب ہی ملائم سنگھ یا ان کے افراد خاندان الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اگر فرقہ پرست یہ اتحاد توڑنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ سیٹ ملائم خاندان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ 
160حیدر آباد کی آگ سے بریلی کو جلانے کی کوشش
160 ماضی میں یوپی کے ہی بریلی میں تشدد پھوٹ پڑا تھا اور ا سکا سبب ایسے فیس بک پوسٹ بتائے گئے ہیں جو قابل اعتراض تھے۔ جانچ میں سامنے آیا ہے کہ حیدرآباد سے یہ فیس بک پوسٹ کئے گئے تھے۔ایک انگریزی روزنامہ کے مطابق سائبر ونگ کے افسران اب اس معاملے میں کاالعدم تنظیم سیمی کے ہاتھ ہونے کے خدشہ کی بھی جانچ کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حیدرآباد کے جن علاقوں سے یہ پوسٹ کئے گئے تھے وہ سیمی کے زیر اثر ہیں۔حالانکہ پولس جانچ ٹیم کے ذرائع کے مطابق جس شخص نے قابل اعتراض تصاویر اپ لوڈ کی تھیں اس کا نام مسلمانوں جیسا نہیں ہے مگر جس علاقے سے یہ تصاویر اپ لوڈ کی گئیں ،وہ مسلم علاقے ہیں۔پولیس کے مطابق قابل اعتراض تصاویر کو ایڈٹ کرکے پوسٹ کیا گیا ہے۔
راجستھان جل سکتا تھا فیس بک کی آگ سے
راجستھان کے ادے پورمیں ایک مذہب کی مقدس کتاب پر قابل اعتراض تبصرہ کی وجہ سے تشدد بھڑک اٹھا۔یہ تبصرہ فیس بک پر کیا گیا تھا۔علاقے میں اس قدر اشتعال پھیل گیا کہ لوگ سڑکوں پر تر آئے اور پولس کو حالات کنٹرول کرنے کے لئے جدوجہد کرنی پڑی۔بعد میں مظاہرین اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ظاہر ہے اگر پولس نے وقت رہتے کوشش نہیں کی ہوتی تو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔
جب مدھیہ پردیش فیس بک چنگاری سے بچ گیا
مدھیہ پردیش کے رائے پورمیں ایک فیس بک پوسٹ کے سبب فرقہ وارانہ تشدد بھڑک اٹھا اور پولس کو کئی تھانہ علاقوں میں کرفیو لگانا
پڑا۔ تشدد کے دوران کئی گاڑیوں میں آگ لگادی گئی اور کئی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔یہاں تک کہ رائے پور کو جگدلپور سے جوڑنے والی سڑک پر آگزنی کے سبب گھنٹوں رکاوٹ رہی۔حالات کو قابو کرنے کے لئے تقریبا 500 جوانوں کو تعینات کیا گیا ۔تشدد کا سبب یہ تھا کہ ایک خاص فرقے کے نوجوان نے فیس بک پر ایک مذہبی پوسٹ پر تبصرہ کر دیاتھا، جس سے دوسرے فرقے کے لوگ ناراض ہو گئے اور اس پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگانے لگے۔ اس کے بعد شام کو دونوں گروپوں کے درمیان تنازعہ شروع ہوگیا۔فیس بک پر قابل اعتراض تبصرہ کرنے والے نوجوان پر تھانے میں دفعہ 295 (مذہبی جذبات کو مجروح کرنے) اور آئی پی سی 66 بھارتی انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
افواہوں کی نیٹ ورکنگ سائٹس
افواہیں پھیلانے کے لئے نیٹ ورکنگ سائٹس کا کئی بار استعمال ہوا ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں بیتے جب جنوبی ہند میں نارتھ ایسٹ کے باشندوں کے درمیان اسی ذریعے سے افواہیں پھیلائی گئیں۔ محض افواہ کے سبب شمال مشرقی ریاستوں کے باشندوں نے جنوبی ہند سے انخلا شروع کردیا اور چند دن میں ہی وسیع پیمانے پر لوگوں نے نقل مکانی کی۔ حکومت کو اس وقت سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس مثلا فیس بک، ٹوئٹر یا گوگل پلس پر نشر گمراہ کن پیغامات کو کنٹرول کرنے میں کافی دقت آئی تھی۔اس سے پہلے بھی حکومت اور ان کمپنیوں کے درمیان کئی دفعہ اختلاف کی صورت بنی ہے۔ حکومت نے سوشل میڈیا سے وابستہ کمپنیوں کی قومی سلامتی سے متعلق حساس معاملے پر تعاون نہ کرنے کے لئے تنقید کی ہے۔اگرچہ اس طرح کے مواد کو کنٹرول کرنے کے لئے کئی تکنیکی چیلنجز بھی سامنے آتی رہی ہیں جن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
لگام لگانا مشکل
حکومت ہند کے لئے نئے دور کی نیٹ ورکنگ سائٹس کے قابل اعتراض موادکو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہورہا ہے جس کے سبب جگہ جگہ فرقہ وارانہ اشتعال پھیل جارہا ہے اور بعض جگہوں پر دنگے بھی ہوجاتے ہیں۔خاص طور طور پر اتر پردیش میں فرقہ وارانہ تشدد کی آگ پھیلانے میں اس کاخوب کااستعمال کیا گیا ہے۔ ماضی قریب میں یہاں جتنے بھی دنگے ہوئے ہیں ان کا رشتہ فیس بک اور واٹس ایپ جیسی سائٹس سے رہا ہے۔قابل غور پہلو یہ ہے کہ واٹس ایپ کے بھارت میں 4 کروڑ یوزر ہیں لیکن اس کا یہاں کوئی دفتر نہیں ہے۔ حیرانی کی بات ہے یہ کہ واٹس ایپ کا کوئی سرور بھی ہندوستان میں نہیں ہے۔ ایک سرکاری افسر کا کہنا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں کئی طرح کے تکنیکی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔کئی ایسی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں جہاں واٹس ایپ پر متنازعہ ویڈیو کے ذریعے فرقہ وارانہ تشدد کو پھیلایا گیا یا اس کی منصوبہ بندی کی گئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ جب حال میں سہارنپور میں فساد بھڑکا تب حکومت نے فیس بک اور واٹس ایپ کے عالمی دفاتر کو بھی اس پر کنٹرول کرنے کے لئے لکھا اور پھر بڑی مشکل سے ایک متنازعہ ویڈیو کو بلاک کرایا گیا۔ ایسے متنازعہ مواد کا مسئلہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ حکام کا کہنا ہے، کسی مواد کو بلاک کرنے میں کافی وقت لگتا ہے اور یہ پیچیدہ بھی ہے۔گر حکومت ہندسائٹ کے ذمہ داروں سے کوئی درخواست بھی کرتی ہے تو جواب فورا نہیں ملتا ہے کیونکہ بھارت اور امریکہ کے وقت میں کافی فرق ہے۔ ایسے میں فرقہ وارانہ تشدد جیسے حساس مسئلے پر بھی کوئی فوری کارروائی نہیں ہو پاتی ہے۔

انٹرنیٹ سروس فراہم کرنی والی ایک کمپنی کے افسران نام نہ بتانے کی شرط پر کہتے ہیں کہ، کسی خاص مواد کو حذف کرنا ممکن نہیں ہے ایسے میں پورے ا یپلیکیشن کو ہی بلاک کرنا پڑے گا۔ ایسی سائٹس سے تمام ناخوشگوار مواد کو حذف کرناتقریباً ناممکن ہے۔ اگر آپ کچھ کی شناخت کر بلاک بھی کرتے ہیں تو ایک نئے نام سے کچھ ایسی ہی متنازعہ چیزیں تیار کی جا سکتی ہیں۔.ان کا کہنا ہے، واٹس ایپ کو بلاک کرنا ممکن ضرور ہے لیکن حکومت کے لئے ایسا کرنا مشکل ہے کیونکہ ایسے میں اسے سینسر شپ کو لاگو کرنا ہوگا۔
حکومت کے پاس پالیسی کی کمی
بھارت میں درجنوں مقامات پر اب تک فیس بک، واٹس ایپ اور نیٹ ورکنگ سائٹس کے ذریعے تشدد برپا ہوچکے ہیں۔مظفر نگر دنگوں کو ابھی زیادہ دن نہیں بیتے جہاں اشتعال انگیزی اور افواہیں پھیلانے کے لئے انٹرنیٹ کا خوب استعمال ہوا۔ سہارنپور کے دنگوں میں بھی ان سائٹس نے آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا۔ اس قسم کی سائٹس بہت سی خوبیاں رکھتی ہیں اور ان کے مثبت استعمال سے ہم ساری دنیا سے جڑسکتے ہیں اور بہت سے کام نکل سکتے ہیں۔ مگر بھارت میں جس طرح سے اس کا منفی استعمال کیا جارہا ہے وہ ملک اور سماج سب کے لئے خطرہ ہے۔ پولس کے پاس بہت سے کام ہیں وہ اس قدر فرصت میں تو نہیں ہے کہ سب کام چھوڑ کر صرف فیس بک اور واٹس ایپ پر لگی رہے۔ ایسے میں اس قسم کی سائٹس کے لئے حکومت کے پاس کسی پالیسی کی عدم موجودگی بھی کھلتی ہے اور کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا