English   /   Kannada   /   Nawayathi

بابری مسجد شہید کرنے والی تنظیم کے سربراہ کو قلب اسلام میں مندر بنانے کی اجازت

share with us

ہمارے وزیراعظم ہر غیر ملکی دورے پر وہاں کے حکمرانوں کے ساتھ سیلفی بناتے ہیں متحدہ عرب امارات کے دورے کے دوران حکام نے مودی کو ہندوؤں کے لئے مندر بنانے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ مندر کے لئے زمین دے کر تاریخی بابری مسجدکو شہید کرانے والی بھارتی انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے لیڈر کا سرشرم سیجھکادیا۔

خیر وزیراعظم مودی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کی حکومت کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے ابوظہبی میں مندر کی تعمیر کے لئے زمین فراہم کرادی ہے۔ اس سے قبل دبئی میں دو ہندو مندر پہلے سے موجود ہیں۔ یمن میں بھی پچھلے۰۵۱سال سے منادر موجود ہیں اس طرح بحرین عمان اور ایران میں بھی ہندو منادر موجود ہیں۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جہاں ساری آبادی مسلمانوں کی ہے اور جہاں ہندو محض روزگار کی خاطر جاکر آباد ہوئے وہاں کی مسلم حکومتیں مذہبی رواداری اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں نہ صرف مندر بنانے کی اجازت دیتی ہے بلکہ ان کے انتظام وانصرام او ران کے تحفظ کا بھی انتظام کرتی ہیں نیز یہاں کے مسلم آبادی سے ان مندروں کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں ہندوؤں کے ہاتھوں سینکڑوں مساجد صرف تنگ نظری اور نفرت کی بنیاد پر شہید کردی جاتی ہیں بابری مسجد کی شہادت بھی اسی کا شاخسانہ ہے اس کے باوجود رد عمل کے طور پر بھی عرب ممالک میں موجود ان مندروں کو کبھی نقصان نہیں پہنچایاگیا۔ بلکہ عرب ممالک کے حکمرانوں نے حضور ٓکی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جو ہمارے ساتھ برا کرے گا اسلام کو نقصان پہنچائے گا ہم اس کے ساتھ اچھے حسن سلوک سے پیش آئیں گے۔
اس سے پہلے شاید کسی کو بھی یاد نہیں ہوگا کہ مودی جی کسی مسجد میں تشریف لے گئے ہوں گے۔وزیر اعظم بننے کے بعد وہ نیپال، بنگلہ دیش، چین اور جاپان کے سفر کے دوران کئی ہندو اور بدھ مندروں میں گئے۔ اس لیے ان کے شیخ زاید مسجد میں جانے کے حوالے سے طرح طرح کے نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں۔کچھ سیاسی لیڈران اور سیاسی نظر رکھنے والے حضرات کا کہنا ہے کہ مودی کا دورہ دبئی شایدیہودی پلان کا ایک حصہ ہو یا پھر تیل کی معیشت کو لے کر عرب ہندوستان میں اپنے پاؤں پسارنے کے لئے تیار ہورہا ہے۔بہر حال کچھ لوگ اسے بہار انتخابات سے بھی منسلک کر کے دیکھ رہے ہیں کہ یہ وہاں کے مسلم ووٹ بینک کو پیغام دینے کی نریندر مودی کی کوشش ہے۔ حالانکہ ایسے نتائج سراسر بے تکے ہیں۔اسی طرح، مندر کی بات کو مودی بھکتوں کی ایک قسم یہ کہہ کر تشہیر کر رہی ہے کہ یہ نریندر مودی کی ہی عظمت ہے کہ وہاں کی حکومت مندر کے لیے زمین دینے کے لیے تیار ہو گئی۔ایسے لوگوں کو یہ جان کر تھوڑی مایوسی ہوگی کہ دبئی میں شیو اور کرشن مندر کے علاوہ اکشر دھام کی سوامی نارائن تنظیم کی مذہبی عبادت گاہ، گردوارہ اور گرجا بھی ہیں.نماز کے لئے استعمال ہونے والی ٹوپی پہننے سے انکار کر دینے اور مسلسل دو سال صدر کی افطار پارٹی میں نہ جانے کے بعد مودی اگر شیخ زاید مسجد کو اپنے سفر میں نہ شامل کرتے تو اس سے ساری اسلامی دنیا میں ان کا کٹر ہندو کا خیال ہی پختہ ہوجاتا۔گذشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ مودی کیرالہ میں ہندوستان کی قدیم مسجد میں مذیری پروجیکٹ کا افتتاح کرنے جا سکتے ہیں۔ اگر وہ اب وہاں گئے، تو اس میں کسی کو کچھ نیا نہیں لگے گا۔لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے وزیراعظم ہندوستان کی ہی کسی مسجد سے اپنا ’’دبئی والا دورہ شروع کرتے۔تو ہندوستانیوں کے دل میں ان کے لئے کسی نہ کسی طور پر الفت ومحبت کی ایک کرن جاگ اٹھتی تھی چاہے پھر وہ بہار الیکشن کے لئے ہی کیو ں نہ ہوں۔۔۔
اب یو اے ای کے تقریباً ۵۰؍ ہزار ہندوؤں کے لئے ایک مندر کی زمین حاصل کرکے ہردے سمراٹ بن کر وطن واپس لوٹیں گے ایسے میں یہ بات ہر ذہن میں آنی چاہئے کہ انتہائی شدید اسلامی عقیدہ رکھنے والی ملکی شہنشاہیت اگر مندر کے لئے زمین الاٹ کرنے کا حوصلہ اور رواداری کا جذبہ رکھتی ہے تو کیا اتنے ہی سخت ہندو نظریات کے حامل نریندرمودی اس سے کچھ سبق حاصل کرسکیں گے۔ہندوستان میں ان کی حکومت کے قیام کے بعد روزانہ کسی نہ کسی شہر میں مسجد شہید کی جاتی ہے نماز سے روکا جاتا ہے مسجدسے ملحق زمینوں پر قبضے کئے جاتے ہیں نئی مساجد کی تعمیر تو دور کی بات پرانی مساجد کی مرمت کا کام تک کرنے نہیں دیا جاتا کیا مودی جی اس رواداری کے جذبے سے سرشار ہو کر اب مساجد کی ان مصیبتوں کو دور کئے جانے کی جانب توجہ فرمائیں گے ملک کی مختلف ریاستوں میں مساجد اور درگاہوں کی تعمیر اور مرمت سے متعلق انتہائی ظالمانہ قوانین موجود ہیں۔ مودی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد سے اگر مسلمانوں کے خلاف کئے گئے کاموں کی لسٹ تیار کریں تو شاید ایک کتاب تیار ہوجائے مگر ان سب سے ہٹ کر ہم یہ سوچتے ہیں کہ کیا اب مودی جی اور ان کے خاص چیلے جو ارکان پارلیمنٹ بھی ہیں کیا ان ارکان پارلیمان کو مسلم اور اسلام مخالف نفرت انگیز حرکتوں سے باز آنے کا حکم دیں گے۔ خود گجرات میں ۲۰۰۲کے فسادات کے دوران سینکڑوں مساجد اور درگاہوں کو مسمار کیا گیا تھا اس وقت وہ خود وہاں کے وزیراعلیٰ تھے ان میں سے اکثر مساجد آج تک دوبارہ تعمیر نہیں ہوسکیں، کیا اب ان مساجد اور درگاہوں کے تعلق سے ہمارے مودی جی کا دل تھوڑا بہت نرم پڑے گا۔کیا مندر والے تحفے سے کٹر ہندوذہن نرم پڑ جائے گا۔بابری مسجد کا معاملہ تو خیر عدالت میں ہے لیکن جس طرح عدالتوں کا استعمال کرکے آئے دن اس مقام پر مندر کی تعمیر کا راستہ صاف ہوتا جارہا ہے کیا اس پر کوئی روک لگے گی۔ 
بہر حال اسلام تو یہی درس دیتا ہے کہ ہمارا دشمن ہماری جان کا دشمن بن جائے وہ لاکھ اسکیمیں ہمارے خلاف استعمال کریں مگر اسے ہم حضور ﷺکی تعلیمات کیذریعے ہی جواب دیں گے۔ہر اینٹ کا جواب پتھر نہیں ہوتا۔اور ہم یہی امید کرتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم مودی جی دورہ یو اے ای سے کچھ حاصل کرکے لوٹیں گے اورملک میں بی جے پی اور اس کے زیر اثر جاری تنظیموں کی کٹرپنتھی کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم خون کا بدلہ خون سے دیں کیونکہ ہم ایک ایسے جمہوری ملک میں رہتے ہیں جہاں رواداری محبت آپسی بھائی چارگی،ایک دوسرے سے اخوت محبت او رملنساری کا درس پیش کیا جاتا ہے۔لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ظالم کا ظلم سہنا بھی ظالم کی مدد ہی کرنا ہوتا ہے۔ خیر اللہ سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کی ہر طرح سے مدد فرمائیں اوراسی کی بندگی کرنے والا بنائیں۔(آمین)۔(یو این این)
چلئے پھر ملیں گے انشاء اللہ۔۔۔بولا چالا معاف کرا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی۔۔۔۔اللہ حاف٭۔۔۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا