English   /   Kannada   /   Nawayathi

فرقہ پرستی کو سماجی جرم قرار دینے کی ضرورت

share with us

قانون سزا ضرور دے سکتا ہے مگر جرائم پر قابو نہیں پاسکتا کیونکہ جرائم جب تک انفرادی حدود تک رہتے ہیں قابل تعزیر سمجھے جاتے ہیں لیکن جس لمحہ اجتماعی عادت کی صورت اختیار کر جائیں سوسائٹی کی اکثریت ان کے حق میں ہوجاتی ہے اور وہیں سے قانون کا عمل بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ لہذا وہ ان جرائم کو روکنے کے بجائے ان کے تحفظ کی خاطر استعمال ہونے لگتا ہے۔ پوری دنیا میں ابھی تک امرو پرستی اور ہم جنسی ایک لعنت اور جرم خیال کی جاتی ہے لیکن برطانیہ، سویڈن اورکئی یوروپی ممالک میں وہ ایک ایسا فعل بن گئی ہے جس پر اعتراض کرنا خلافِ قانون ہے۔ ابھی ماضی قریب تک پنجاب میں ہندواقلیت کے خلاف جو کچھ ہوا یا آج کل کشمیر میں ہورہا ہے تو وہ یہی ثابت کررہا ہے کہ قانون ایک ایسا ہتھیار ہے جو افراد کے خلاف سخت اور سماج کے روبرو نرم اور بے بس نظر آنے لگتا ہے اور اس کی عمل پذیری کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کہ اس کا غلط اور بے جا استعمال جرائم کو روکنے میں عاجز بلکہ ان کے فروغ کا سبب بنتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ فرقہ پرستی کے انسداد میں قانون کوئی کارگر کردار ادا نہیں کرسکتا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ میں قانون کی حیثیت امداد دینے والے ایک ہتھیار کی ہوتی ہے ۔ اس کی مشین کیونکہ انسان کی ہی بنائی ہوئی ہے لہذا وہ مقاصد میں امداد کرسکتی ہے۔ فریق بننا اس کے لئے مشکل ہے۔ اسی طرح وہ حرکت میں لائی جاسکتی ہے خود بخود حرکت پذیر نہیں ہوسکتی۔
ہمارے ملک میں قانون اور سماج کے اجتماعی رجحان کے ٹکراؤ کا مشاہدہ کرنا ہو تو چھوٹ چھات کے مسئلہ میں کیا کیا جاسکتا ہے۔قانون طویل مدت سے اچھوت اقوام کی مدد پر کھڑا ہے لیکن چھوت چھات کے چہرہ کی رونق ذرا بھی کم نہیں ہوئی اچھوت آج بھی نہایت بے دردی سے مارے جارہے ہیں اور ان کو زندہ نذر آتش کیا جارہا ہے فرقہ وارانہ مسئلہ کی بھی کم وبیش یہی نوعیت ہے۔
فرقہ پرستی سماج کی نظر میں اس طرح کا جرم نہیں جیسا کہ ڈاکہ زنی اور چوری ہوا کرتی ہے یہ دوسری بات ہے کہ فرقہ پرستی کی بدولت چوری اور ڈاکہ زنی سے بھی کہیں زیادہ شدید اور ہولناک جرائم کا نمونہ سماج کو دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ویسے بھی آزاد ہندوستان میں فرقہ واریت کے سلسلہ میں قانون کو گذشتہ ۶۸ برسوں کے دوران اس انداز میں حرکت دی گئی ہے کہ وہ حملہ کا نشانہ بننے والوں کے بجائے حملہ آوروں کو طاقت بہم پہونچانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ اقلیت کا جہاں تک تعلق ہے اسے ڈنڈے سے زیادہ تسلی، تشفی اور انصاف کی ضرورت ہے فرقہ واریت کوئی مادی اور ٹھوس شئے نہیں کہ کسی کو شک ہو تو اسے چھوکر یا ٹٹول کر اطمینان کرلے۔ جہاں جہاں فرقہ وارانہ تصادم ہوتے ہیں اور فرقہ پرستی بجلی بن کر اقلیتوں پر گرتی ہے کمزوروں سے تعصب کا سلوک ہوتا ہے وہاں اگر تباہی وبربادی کے بعد اقلیت کے لوگوں کی تسلی اور تشفی کی شکل یہی سمجھ لی جائے کہ ان پر ظالموں کو انتظامیہ کی سرپرستی حاصل ہواور احتساب ومقدمات میں وہی سب سے زیادہ ماخوذ کئے جائیں، تو یہ اس تھانے دار کا سا عمل ہوگا جو چور کے بجائے اس آدمی کو حوالات میں بند کردے جس کے گھر چوری ہوگئی ہے اس عمل کو قانونی عمل تو کہاجائے گا مگر یہ ہر طرح کے حق وانصاف کے خلاف ہی شمار ہوگا۔ کم از کم آزاد ہندوستان میں آج تک مسلم اقلیت سے یہی سلوک ہوتا رہاہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا