English   /   Kannada   /   Nawayathi

اسٹیفن ہاکنگ :حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

share with us

محمدصابرحسین ندوی

 

طبیعی کائنات کا غیرجانبدارانہ مشاہدہ کرنا اور اس کے متعلق بنیادی حقائق کا مطالعہ کرناسائنس کہلاتا ہے،اس کا سارا کا سارا مدار تجربات وتحقیقات اور ذہنی کدو جد پر ہوتا ہے؛لیکن یہ انسانی دنیا کی عظیم ترین خدمت اور ضرورت ہے؛یہی وہ ذریعہ ہے جس نے انسانوں کیلئے زندگی کی آسانیاں فراہم کیں،

اور بسااوقات اسے خالق حقیقی سے بھی جا ملا یا،اس میدان میں افلاطون، ارسطو، برکلے،ڈیکارٹ،اور سرایڈنگٹن،رسل اور سرآرتھر و ڈارون جسے ماہرین پیدا ہوئے تو وہیں مسلم سائنسدانوں نے بھی علمی جوہر کا مظاہرہ کرتے ہوئے نت نئے اور متعدد کائناتی اکتشافات کرکے اس دنیاکی عظیم ترین خدمت انجام دی ؛بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے؛ کہ آج یورپ اور مغربی ممالک کی ترقی وعروج بالخصوص سائنسی وتحقیقی میدانوں کی فتوحات اسلام کی مرہون منت ہیں،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے ؛کہ جب سولہویں صدی میں یوروپ کا علمی جمود ٹوٹا ،تو اس کے بعد انہوں نے مسلموں ہی کے علمی ذخائر سے استفادہ کیااور انہیں اپنا اتالیق و استاذ سمجھا جیسے: حمیاری جو کیمیادان جابر بن حیان کے استاذوں میں سے ہیں، ابراہیم الفزاری،جابربن حیان جنہیں بابائے کیمیا کا لقب دیا گیا،جن کی کتاب کتاب الکیمیا اور کتاب الزھرۃجو آفاقیت کی حیثیت رکھتی ہیں،یعقوب بن طارق،الاصمعی جوکتاب الخلیل اور کتاب خلق الانسان سے پہچان رکھتے ہیں،الخوارزمی جن کی تعارف کتاب الجبر اور کتاب المقابلہسے ہے،اسی طرح جاحظ،کندی،جابر بن سنان، الفرغانی،ابوبکررازی،زہراوی،فارابی،ابن رشد،ھیثم، ابن سینا،عمر خیام،غزالی،ابن خلدون وغیرہ،ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ مغرب نے اپنی شاگردی کا صلہ حق شناسی کے بجائے ناشناسی وناسپاسی سے دیا اور اپنے اتالیق کو ہی نیست ونابود کرنے اور انہیں تہہ و تیغ کردینے پرآمادہ ہوگئے۔
اس میں کوئی شک نہیں ؛کہ سائنس یا تجرباتی علم کسی خاص قوم یا ملت کی جاگیردار نہیں؛بلکہ یہ انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے، اسے کسی مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں،کیونکہ مسلمانوں کی سائنسی خدمات بھی بہت حد تک یونانی خدمات پر مشتمل تھی،یہ بات الگ ہے مسلمانوں نے اسے دوبالا کردیا،بالخصوص مامون کے دورخلافت میں خوب پروان پایا اور ا سکے قائم کردہ دارالحکمت نے اسے اکسیر بنادیا، آج مغربی عروج کا زمانہ ہے اسی لئے فی الوقت اس سلسلہ میں وہیں سب سے زیادہ تگ دو ہورہی ہیں،اور مختلف نابغہ روزگار پیدا ہورہے ہیں،انہیں میں ایک نام اسٹیفن ولیم ہاکنگ کا ہے،جنہوں نے ۸ جنوری ۱۹۴۲ ؁ءکیمبرج میں زندگی کی صبح کی،اپنی غیر معمولی ذہانت اور تفتیش و جستجو اور تحقیقات میں مجنونانہ کیفیت رکھنے والے اس شخص کےساتھ ۱۹۶۲ ؁ءمیں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے دوران ایک حادثہ ہوا ؛کہ وہ سیڑھیوں سے پھسل کر گئے اور طبی معائنے کے بعد پتہ چلا کے انہیں سنگین ترین بیماری موٹر نیوران ڈزیز نے آ پکڑا ہے،اور پھر ۱۹۶۵ ؁ءمیں وہیل چیر تک ہی سمٹ کر رہ گئے،رفتہ رفتہ ان کی گردن بھی دائیں طرف جھک گئی ،جو کبھی سیدھی نہ ہو سکی،وہ ہر کام میں محتاج ہوگئے حتی؛ کہ کھانے،پینے اور فراغت کیلئے بھی نوکر کی ضرورت پڑتی تھی،ان کا پورا جسم مفلوج تھا ،صرف پلکوں میں رمق باقی تھی،نوبت یہ آن پڑی تھی کہ طبی ماہرین نے ۱۹۷۴ ؁ءمیں ہاکنگ کو الوداع کہہ دیاتھا،لیکن اس عظیم انسان نے شکست تسلیم نہ کی اور اپنی زندگی کے آگے ڈٹ گیا،اور اپنی نیم مردہ پلکوں اور بدن کی اسی کیفیت کے ساتھ زندہ رہنے اور بلند پایہ کا سائنسدان بننے کا خواب دیکھا،اورپھر اس نے کائنات کےوہ رموز وا کئے کہ دنیا حیران رہ گئی۔
واقعہ یہ ہے کہ اسٹیفن کیلئے کیمبرج کے سائبر ماہرین نےٹاکنگ کمپیوٹرایجاد کیا،کمپیوٹر وہیل چیر پر لگا دیا گیا،کمپیوٹرہاکنگ کے پلکوں کی آواز سمجھ لیتا تھا، اسٹیفن اپنے خیالات پلکوں سے کمپیوٹر پر منتقل کرتے،خاص زاوئے،توازن اور ردھم کے ساتھ ہلتی پلکیں کمپیوٹر کے اسکرین پرلفظ ٹائپ کرتی جاتیں اور ساتھ ساتھ اسپیکر کے ذریعہ یہ الفاط نشر بھی ہوجاتے تھے، اسٹیفن واحد ایسے انسان تھے جو اپنی پلکوں سے بولتے اور پوری دنیا انہیں سنتی تھی،حتی کہ تصنیف وتالیف میں بھی پیچھے نہ رہے،اور پلکوں ہی سے متعدد کتابیں لکھیں،جن کے اندر شاہکار کائناتی معلومات اور دنیاوی خزانوں کو جمع کردیا،آپ کی کتاب کوانٹم گریویٹی"(۱۹۸۸؁ء)نے کائناتی سائنس(کاسمالوجی)کو نئی روح وجان دی ،اور اسے منفرد ویکتا بنادیا،ان کی کتاباے بریف ہسٹری آف ٹائمنے ایسے علوم کی نشاندہی کی تھی ؛کہ جنہیں پاکر پوری دنیا میں طوفان برپاہوگیاتھا،یہ کتاب ۲۳۷ ہفتے تک دنیا کی سب سے زیادہ خریدی جانے والی کتاب بن کر رہی،اور ہر کسی نے اسے ادبی گراں قدر سمجھ کر خریدا اور پڑھا؛یہی وہ کتاب تھی جس کے ذریعہ وہ آئنسٹائن کے بعد بیسویں صدی کے سب سے عظیم سائنسداں قرار پائے۔
ہاکنگ نے اس کے ذریعہ ایک چیلنج دنیائے طبعیات کو بھی دیا،انہوں نے وقت میں سفر(ٹائم ٹریول)سے روکنے کیلئے قوانین طبعیات کی روشنی میں ایک نظریہ تحفظ تقویمپیش کیاتھا،تاکہ گزرے ہوئے وقت (تاریخ)کو دخل اندازی سےبچاتے ہوئے حال کا تحفظ کیا جاسکے،بلیک ہول اور ٹائم مشین دو ایسے پیچیدہ ریاضیاتی موضوع ہیں، جن پر تحقیق سے انہوں نے دنیا بھر میں ممتاز مقام پایا۔اسی طرح ہاکنگ نے اس کتاب کے بعد سنہ۲۰۰۶ ؁ءمیں اے بریفر ہسٹری آف ٹائم نامی ایک کتاب لکھی؛جسے اس کا دوسرا حصہ کہاگیا،جس کے اندر انہوں نےاکیسویں صدی کی ابتدا تک کونیات کے دقیق شعبوں میں ہونے والی تحقیق کو بہت انوکھے اور آسان وسہل انداز میں پیش کیا،نیز گذشتہ سال کیمبرج یونیورسٹی نے ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کو شائع کیا تھا؛جسے اہل ذوق نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ایک رکارڈ قائم کردیا۔
اسٹیفن نے ۱۹۹۰ ؁ءسے ایک منفرد کام شروع کیا تھا،انہوں نے زندگی سے مایوس اور ناامید لوگوں اور ایسے لوگوں کے درمیان جو زندگی کو بوجھ سمجھتے تھے؛ ان کیلئے پرامید لیکچر دینے اور انہیں زندگی کا احساس دلانے نیز زندگی کے چیلینجیز سے لڑکر اپنے آپ کو طاقت ور اور باصلاحیت بنانے پر ابھارنا شروع کیا،انہیں بڑی بڑی کمپنیوں اور آرگنائزیشن سے دعوت دی جاتی اور وہ لوگوں کے مابین اپنے ٹاکنگ کمپیوٹر کے ذریعے گفتگو کرتے،اور بساوقات کہتے:مجھے دیکھو! جس کے پاس جسم مفلوج،وہیل چیر جس کا مقدر،محتاجی جس کی پہچان؛باوجود اس کے میں نے زندگی سے شکست نہیں کھائی،اور جب تمہارے پا س ہاتھ، پیر سلامت ہیں ،تم کھا پی سکتے ہو،چل سکتے ہو،اور قہقہ لگا سکتے ہو تو بھلا کس چیز کا غم اور کس چیز کی مایوسی،اسٹیفن کا یہی جذبہ اور حوصلہ تھا اور انسانیت کیلئے عظیم خدمات تھیں کہ اسے ۲۰۰۲ ؁؁؁؁؁؁؁ءمیں بی،بی،سی کی سالانہ عظیم برطانوی شخصیات کی فہرست میں ۲۵ واں درجہ دیا گیاتھا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہاکنگ کی سب سے بڑی خدمت کاسمالوجی کے میدان کی ہے،یعنی کائنات میں غورو خوض کرنا اور اس کی اصل حقیقت تک رسائی کرنا،شاید اس فن کے سب سے پہلے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ؛یہی وہ علم تھا جس کی بنا پر حضرت ابراہیم نے اللہ رب العزت کی پناہ اور راہ راست کی راہ پائی تھی،قرآن کریم نے باقاعدہ ان کے اجتہاد کا تذ کرہ کیا ہے،اور بہت خوب کیا ہے؛(الانعام:۷۵تا ۷۹)لیکن اس سلسلہ میں قابل غور امر یہ ہے؛کہ حضرت ابراہیم نے اپنی کاوش اور ذہانت وفطانت پر اعتماد نہیں کیا؛ بلکہ آپ نے اللہ سے دعا مانگی کہ انہیں سیدھے راستے کی توفیق نصیب ہو،جسے اللہ قبول کرتے ہوئے انہیں تاریخ انسانی کا عظیم شخص بنادیا،اسٹیفن ہاکنگ یقنا ناقابل یقین کائناتی علم رکھتے تھے؛ لیکن ان کے پاس جذبہ ہدایت کی کمی تھی؛ یہی وجہ ہے کہ اس قدر اسرار وحکم کا ماہر ہونے خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہےکا اقرار کرنے کے باوجود یقین پیدا کر اے غافل کہ مغؒوب گماں تو ہےکا اعتراف اور روز جزا ء وسزاء اور زندگی مابعد الموت کااعتبار نہ کرسکے؛ البتہ اس کی تحقیقات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں خالق کا یقین ضرور رکھتے تھے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسٹیفن کی تحقیقات سے دنیا صدیوں فیض یاب ہوتی رہے گی،اور ایک عظیم سائنسدان کے طور ہمیشہ یادرکھاجائے گا،ہم بھی ان کی خدمات کی قدر کرتے ہیں؛کیونکہ یہ ایک ایسا کام تھا جو قرآن کریم کے مطابق بھی تھا،قرآن کریم نے مسلمانوں کو یہی تلقین کی ہے؛ کہ وہ کائنات مین غور کریں،اور اس کیلئے سیر وسیاحت کیلئے بھی کہا گیا؛بلکہ قرآن نے ایک جگہ پر ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے ،جو سوچ سمجھ کر ایمان لاتے ہیں،لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اتنا عظیم سائنسداں جس کاکام ہی یہ تھا کہ ہر وقت آسمان پر نگاہیں جمائے رکھے،اور کائنات کی پہیلیاں سلجھائے ؛لیکن اپنی آخرت و جنت وجہنم اور خدائے وحدہ کی ذات اور اس کا اندازہ نہ لگا پایا اور اسی تنگ دامنی و تنگ دستی اور نعمت بیش بہا سے بے بہرہ ہوکر ۱۴ مارچ ۲۰۱۸ کو اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر بیٹھا،اس حال میں کہ وہ ظاہراًخیر البریہ ہوتے ہوئے بھی نہ ہوسکا إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُولَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ (۶) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ (البینۃ:۷) (معلومات ماخوذ از:stephen hawking wikipedia)
حسرت ان غنچوں پر یے جو بن کھلے مرجھا گئے

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا