English   /   Kannada   /   Nawayathi

خالد محمود کی شاعری کا فکری و فنی آہنگ

share with us

عارف عزیز(بھوپال)

 شاعر و ادیب انسانی معاشرہ کے محاسب ہیں اور شعر و ادب اُن کی بصیرتوں کی دائمی دستاویز، جس میں اپنے عہد کی خوبیوں، خامیوں، محبتوں، نفرتوں، ناانصافیوں اور جبر و استحصال کی زندہ کہانیاں وہ اپنے خون جگر سے رقم کرتے ہیں، دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اردو کا دامن بھی فکر و آگہی کے ایسے گہرپاروں سے مالا مال ہے، اگر ہم موجودہ عہد کے شعری و ادبی منظر نامہ کو دیکھیں تو ارضِ مدھیہ پردیش کے ایک چھوٹے سے شہر سے طلوع ہوکر مطلعِ ادب پر چھا جانے والے زندہ، توانا اور رواں دواں پیکر پرنگاہ جاکر تھم جاتی ہے، جب وہ روبرو ہوتا ہے، سچائیوں کی تلاش میں غلطاں، زندگی کے دشتِ بے اماں میں متاعِ جاں کے عوض سچ کی خرید میں سرگرداں، شاعرِ حق نوا کو ہم پہچان لیتے ہیں کہ یہ اردو دنیا کا جانا پہچانا سخن طراز خالد محمود ہے۔

جس نے اردو غزل کی فکری و فنی کائنات میں لفظوں کی معنویت موضوع کی ندرت اور سماجی بصیرت سے ایک منفرد شناخت قائم کرلی۔ خالد محمود کی غزلوں کا اپنا ایک مزاج ہے، لفظوں کے استعمال، تشبیہات و موضوع کے انتخاب میں وہ جتنی احتیاط سے کام لیتے ہیں، اُتنی ہی فکر انہیں اِس بات کی ہوتی ہے کہ اُن کے اشعار سماعت پر بانہ بنیں، اُن کے دونوں مجموعہ کلام ’سمندر آشنا‘ اور ’شب چراغ‘ میرے زیر مطالعہ رہے ہیں اور محمد علی تاج مرحوم کے بعد وہ دوسرے شاعر ہیں، جنہیں میں نے بار بار پڑھا اور ایک سے زیادہ بار لکھا ہے۔ اِس بنا پر میں کہہ سکتا ہوں کہ ’سمندر آشنا‘ ہو یا ’شب چراغ‘ اُن کی حیثیت فنی تجربوں کے البم کی نہیں انسانی نفسیات و کیفیات کے آئینہ کی ہوجاتی ہے، بالخصوص ’شعر چراغ‘ کی بعض غزلوں کے مطالعہ سے احساس ہوتا ہے کہ یہ اُن کی اپنی آواز ہے، جس میں گہرے خلوص اور کسی قدر انکساری سے انہوں نے اپنے تجربات کو بیان کیا ہے۔ عشق و مشک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’اُس کی خوشبو چھپائے نہیں چھپتی‘ یہی حال خالد محمود کے اشعار کا ہے کہ اُس کی مہک سے دل و دماغ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ؂
آواز آئی پیچھے پلٹ کر تو دیکھئے
پیچھے پلٹ کے دیکھا تو پتھر کا آدمی
باقی ہیں دنیا میں جب تک دونوں کے دیوان
ہر سچے شاعر کی الجھن اک غالبؔ اک میرؔ 
ہر اک فیصلہ اُس نے بہتر کیا
مجھے آنکھ دی، تم کو منظر دیا
خالد محمود کی شاعری متعدد رنگوں سے تشکیل پائی ہے لیکن اُس کا کوئی رنگ دھندلا یا ملگجا نہیں اور وہ رنگ زیادہ دلفریب یا گہرا ہے، جہاں خالدؔ ایک دنیا شناس کی طرح طنز سے کام لیتے ہیں، لیکن اِس طنز میں بھی ایک ترکیبی حسن اور تجربہ کا ارتکاز ملتا ہے جو ہمارے تجربہ سے مختلف ہوسکتا ہے تاہم اُس کی سچائی سے انکار اِس لئے آسان نہیں کہ اکثر اُس کی نشتریت کا نشانہ خود اُن کی ذات بنتی ہے مثلاً ؂
شاید کہ مر گیا مرے اندر کا آدمی
آنکھیں دکھا رہا ہے برابر کا آدمی
ابھی دھوپ خالدؔ پہ آئی نہ تھی
کہ دیوار دیوار چلنے لگا
میں اِس مزار میں ہر شام دفن ہوتا ہوں
زمانے بھر کو جو بستر دکھائی دیتا ہے
خالدؔ نے شاید آؔ ئینہ دیکھا نہیں کبھی
دلی میں چاہتا ہے کہ اپنا مکاں رہے
اردو شاعری میں طنز کی روایات جتنی قدیم ہیں اُتنی طرحدار نہیں، طنز نگار شعراء کی تعداد بھی محدود ہے، اُن میں بھی کثرت اُن شاعروں کی ہے جو عموماً اپنا دامن مزاح تک محدود رکھتے ہیں اور طنز ان سے سرزد ہوجاتا ہے، مفکر طنز یہ شعراء میں جن کو شمار کیا جاسکتا ہے اُن میں اکبرؔ کا طنز چڑچڑاہٹ اور شکست خوردگی کی نذر ہوگیا ہے، اقبال کے یہاں تفکر کی بلندی نے طنز کو دوسری ہی ہیئت عطا کر دی ہے، شبلیؔ ، حسرتؔ اور فیضؔ سیاسی طنز کے زیادہ خوگر رہے، یگانہ کے لہجہ میں زہرناکی اور جوشؔ و شادؔ عارفی کے یہاں طنز کا جو برمحل اظہار ملتا ہے خالد محمود کا طنز اُس سے جدا ہے، وہ نہایت بردباری اور سنجیدگی کے ساتھ نیز بڑے متوازن لہجہ میں طنز کا استعمال کرتے ہیں اور خوب کرتے ہیں ؂
روز اخبار ہم سے کہتا ہے
جھوٹ کو سچ کے باب میں رکھئے
عروج آدم خاکی کا دور ہے خالدؔ 
فلک پہ جاتے ہیں اب لوگ سیر فرمانے
دماغ رہزن اخلاق، دل گہن کی طرح
بدن پہ پوشش بے داغ ہے کفن کی طرح
کچھ نشیمن پھونک ڈالو کچھ رکھو آباد بھی
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
میں تجھ سے بڑھ کے سیاسی شعور رکھتا ہوں
مری گلی میں یہ کچے مکان رہنے دے
دہلی کے قیام سے خالدؔ محمود کی جذباتی اور ذہنی زندگی میں وسعت ہی پیدا نہیں ہوئی، زندگی کے تضادوں اور محرومیوں کا عرفان بھی حاصل ہوا ہے لیکن جب اس نے طنز کی شکل اختیار کی تو یہ شعر وجود میں آئے ؂
کام دلی کے سوا ہوتے نہیں
اور ناہنجار دلی دور ہے
ہر کس و ناکس پہ کر لیتا ہے فوراً اعتبار
بے خبر کتنا ہے خالدؔ باخبر ہوتے ہوئے
اس گھر کا ٹیلی فون ابھی جاگ جائے گا

صاحب کو لینے چل دیا دفتر کا آدمی
بنگلوں کی زندگی ہے نہ کاروں کی زندگی
یوں بھی گزر رہی ہے ہزاروں کی زندگی
مجھے عزت سے اپنی یہ گلہ ہے
کہ میرے دوستوں کا دل دکھا ہے
خالدؔ محمود کی غزلیات میں صرف طنز پر ہی اکتفا نہیں ایک خاص نوع کا لطافت اور صدیوں کے تہذیبی اقدار کی وہ رنگ و روشنی بھی رچی بسی ہے جس کو آپ رومان پسندی یا روایت پرستی کا نام دے سکتے ہیں۔
ان کے یہاں ایک اور خصوصیت پائی جاتی ہے اور وہ ہے ادبی، تاریخی اور مذہبی تلمیحات اور تلمیحاتی اشاروں یا اساتذہ کے مصرعوں پر تضمین مثلاً
ہمارا گھر بھی صحرا ہوگیا ہے
مگر غالبؔ سی ویرانی نہیں ہے
صبح گزری شام ہونے آئی میرؔ 
تیز کر رفتار دلی دور ہے
اسے روز ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر
کہیں انسان بھی بیٹھا نہ ہو شیطان کے اندر
خالدؔ محمود نے اپنے اشعار میں تضاد یا تکرار کو جس خوبصورتی سے برتا ہے اُس کے لئے بھی وہ داد کے مستحق ہیں ؂
میں اپنے گھر کے اندر چین سے ہوں
کسی شے کی فراوانی نہیں ہے
و مجھ کو ٹوٹ کے چاہنے لگا ہے کچھ دن سے
وہ کچھ دنوں سے برابر خفا سا رہتا ہے
مندر کی گھنٹیوں سے فضا گونجنے لگی
شاید ہوا ہے وقت سحر کی اذان کا
وہیں ڈوبنے کا یقین آگیا
جہاں اس نے ہم کو شناورکیا
موت کا ایک دن معین ہے
زندگی دسترس سے باہر ہے
میں گنجان شہروں کا مارا ہوا

نوازش، نوازش، نوازش ہوا
ہر کس و ناکس پہ کر لیتا ہے فوراً اعتبار
بے خبر کہتا ہے خالد باخبر ہوتے ہوئے
’’شعر چراغ‘‘ کے خالق کو زبان و بیان پر مکمل دسترس حاصل ہے اور جہاں انہوں نے تجربات و حوادثات کو طنز پر فوقیت دی ہے وہ ایک بڑے مگر جدید شاعر نظر آئے ہیں مثال کے طور پر چند اور اشعار ؂
مقابلہ ہو تو سینے پہ وار کرتا ہے
وہ دشمنی بھی بڑی پُروقار کرتا ہے
جو ہوسکے تو اُسے مجھ سے دور ہی رکھئے
وہ شخص مجھ پہ بڑا اعتبار کرتا ہے
اس فرد سے پھر آج میں ہنس کر ملا کہ جو
موقع ملے تو پشت پہ خنجر اتار دے
مذکورہ اشعار میں گہرے تفکر کے ساتھ مشاہدہ کی جو چمک نظر آتی ہے وہی خالد محمود کی انفرادیت اور اٹھان ہے۔ ایک اور خوبی جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، وہ ان کے اشعار کی زود فہمی ہے، ہر سطح کا قاری اُن اشعار سے لطف اندوز ہوسکتا ہے، وہ دقیق سے دقیق مضمون کو آسان بنانے کے فن پر قادر ہیں، عموماً یہ موضوعات زندگی کے ہمہ رنگ پہلو کا اظہار کرتے ہیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ 
26؍ فروری 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا