English   /   Kannada   /   Nawayathi

تملناڈو کو پانی فراہم کرنے کیلئے حکومت کرناٹک مجبور(مزید اہم ترین خبریں )

share with us

اسی لئے موجودہ حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی تملناڈو کو پانی فراہم کرنے کیلئے مجبور ہے۔ انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کے روبرو کاویری تنازعہ کے سلسلے میں ریاست کی پیروی کرنے میں سینئر وکیل فالی ایس ناریمن نے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ تملناڈو کو روزانہ 15؍ ہزار کیوسک پانی دس دنوں تک مہیا کرایا جائے۔ فی الوقت حکومت عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل کررہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ناریمن نے عدالت کو بتایاتھاکہ کرناٹک اس وقت سخت مشکلات سے دو چار ہے، ان حالات میں پانی کی قلت کے باوجود تملناڈو کو چھ دنوں کیلئے روزانہ دس ہزار کیوسک پانی دیاجاسکتا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے ان کے استدلال کو نامنظور کرتے ہوئے روزانہ 15ہزار کیوسک پانی دس دنوں تک فراہم کرنے کاحکم صادر کیا۔ وزیر اعلیٰ نے کہاکہ کاویری طاس کے علاقوں میں بارش کی شدید قلت کے سبب چاروں آبی ذخائر میں پانی کی سطح میں زبردست گراوٹ آئی ہے۔ فی الوقت چاروں آبی ذخائر میں 46.7 ٹی ایم سی فیٹ پانی بچا ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تملناڈو کو پانی فراہم کرنا ممکن ہی نہیں ہے، اسی لئے ریاستی حکومت عدالت عظمیٰ سے یہ گذارش کرے گی کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ ساتھ ہی چار دنوں کے اندر کاویری نگرانی کمیٹی سے بھی کرناٹک یہ نمائندگی کرے گی کہ فوری طور پر مشکل حالات میں تملناڈو کو پانی کی فراہمی کی پابندی سے کرناٹک کو بری کیاجائے۔ انہوں نے کہاکہ دریائے کاویری میں فی الوقت جتنا پانی ہے اس میں سے 28 ٹی ایم سی فیٹ پانی پینے کیلئے درکار ہے۔ جون 2017تک پانی کی اس مقدار کو استعمال میں لایا جاناہے۔ اس میں سے شہر بنگلور کیلئے 19 ٹی ایم سی فیٹ پانی درکار ہے، باقی پانی میسور، منڈیا اور آس پاس کے علاقوں کو مہیا کرایا جاتاہے۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ اس کے علاوہ کاویری طاس کے علاقوں میں زراعت کیلئے بھی پانی کی ضرورت ہے۔ ان تمام ضروریات کو نظرانداز کرکے تملناڈو کو پانی کی فراہمی نہیں کی جاسکتی۔ تملناڈو میں شمال مشرقی مانسون اب شروع ہونے والا ہے ،ایک اندازے کے مطابق وہاں کاویری طاس کے آبی ذخیروں میں پانی کی مقدار 220 ٹی ایم سی سے متجاوز ہونے والی ہے۔ اس کے علاوہ فی الوقت کرناٹک سے تملناڈو 36ٹی ایم سی فیٹ پانی کی فوری فراہمی کی مانگ کررہاہے، جوکہ ناممکن ہے۔ وزیراعلیٰ نے بتایاکہ بارش نہ ہونے کے باوجود تملناڈو کے بلیگنڈلو آبی ذخیرہ میں 36 ٹی ایم سی فیٹ پانی جمع ہے، جوکہ اس کی سامبا فصلوں کیلئے کافی ہے۔ اس کے باوجود بھی انسانیت کے ناطے کرناٹک کے وکیلوں نے چھ دن کیلئے تملناڈو کو روزانہ دس ہزار کیوسک پانی فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہاکہ ریاستی حکومت کی طرف سے فوری طور پر عدالت عظمیٰ سے اپیل کی جائے گی کہ اس فیصلے پر حقائق کی بنیاد پر نظر ثانی کی جائے۔ وزیر اعلیٰ کے ہمراہ اس موقع پر وزیر برائے آبی وسائل ایم بی پاٹل، ریاست کے اڈوکیٹ جنرل مدھو سودھن نائک وغیرہ موجود تھے۔


9ستمبر کوبنگلوربند احتجاج کیلئے سخت حفاظتی انتظامات

تعلیمی اداروں کو چھٹی کا اعلان کرنے کمشنر کو مشورہ

بنگلورو۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع) دریائے کاویری سے تملناڈو کو پانی کی فراہمی کی مخالفت کرتے ہوئے بروز جمعہ 9 ستمبر کو کرناٹک بند منانے کیلئے ایک ہزار سے زائد تنظیموں کی طرف سے دی گئی آواز کے پیش نظر شہر بھر میں معقول پولیس بندوبست کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔اس کیلئے پولیس فورس کو بھی مستعد کیا جاچکا ہے۔یہ بات شہر کے پولیس کمشنر این ایس میگرک نے بتائی۔ شہر میں حفاظتی انتظامات کے سلسلے میں اعلیٰ پولیس عہدیداروں کے ساتھ ایک میٹنگ کے بعد اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ احتیاطی طور پر شہر کے ان علاقوں میں جہاں تمیلوں کی آبادی زیادہ ہے وہاں اضافی حفاظتی بندوبست کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ انہوں نے کہاکہ بند کے دوران شہر میں حفاظتی انتظامات کیلئے نیم فوجی دستوں کو طلب کرلیا گیا ہے۔حساس علاقوں میں یہ دستے فلاگ مارچ کریں گے ۔شہر کے آر ٹی نگر اور دیگر علاقوں میں مرکزی دستوں نے فلاگ مارچ کیا۔ محکمۂ پولیس کے افسران نے کمشنر کو بتایاکہ بند کے پیش نظر شہر کے تعلیمی اداروں اور نجی کمپنیوں کو اس دن چھٹی کا اعلان کردینا مناسب ہوگا۔ اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے پولیس کمشنر نے شہر کے اسکولوں ،کالجوں ، سرکاری دفاتر ، نجی کمپنیوں، کارخانوں وغیرہ کو چھٹی دینے کے سلسلے میں حکومت سے گذارش کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ یاد رہے کہ 1991 میں کاویری مسئلہ پر جب اسی طرح کا فیصلہ آیاتھا تو شہر میں بڑے پیمانے پر پرتشدد واقعات پیش آئے تھے، اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے پولیس حکام نے کمشنر کو مشورہ دیا ہے کہ بند کے دن شہر میں چھٹی کااعلان کردینا مناسب رہے گا۔


کاویری تنازعہ پر عوام اور کسانوں کے احتجاج میں شدت

تملناڈو کوپانی فراہم کرنے کی شدید مخالفت

بنگلورو۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع)عوام اور کسانوں کی شدید مزاحمت کے باوجود ریاستی حکومت نیکل کرشنا راجہ ساگر ، ہیماوتی اور کبنی آبی ذخائر سے تملناڈو کو سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق 15؍ہزار کیوسک پانی جاری کردیا۔ جس کی وجہ سے کاویری طاس کے علاقوں میں کسانوں اور عوام نے سڑکوں پر اترکر احتجاجی مظاہروں میں شدت پیدا کردی ہے۔ منڈیا، میسور، چامراج نگر، بنگلورکے علاوہ بلگام ، وجئے پور ، گدگ، داونگیرے اور ریاست کے دیگر اضلاع میں کاویری کے مسئلہ پر کنڑا تنظیموں کی طرف سے زوردار احتجاجات کا سلسلہ چلتا رہا۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد سے ریاست میں احتجاج دن بدن شدت اختیار کرتا جارہاہے، کاویری طاس کے علاقوں میں پولیس کا معقول بندوبست کیاگیا ہے۔ کے آر ایس ، کبنی اور ہیماوتی آبی ذخائر سے تملناڈو کو پانی فراہم کرنے حکومت کے اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے کسانوں ،رعیت تنظیموں ، کنڑا نواز تنظیموں وغیرہ کی طرف سے ان آبی ذخائر میں گھسنے کی کوشش کی گئی ، پولیس نے ان لوگوں کو احتیاطی طور پر گرفتار کرکے احتجاج کو ناکام بنایا۔ سری رنگا پٹن اور دیگر بعض مقامات پر کسان دریائے کاویری میں اتر گئے اور وہاں پانی میں کھڑے ہوکر ان لوگوں نے احتجاج کیا۔ بتایاجاتاہے کہ یہاں ایک کسان نے خود کشی کی کوشش بھی کی۔ بار بار آبی ذخائر کے قریب احتجاجات کو دیکھتے ہوئے ریاستی حکومت نے تمام آبی ذخائر کے ایک کلومیٹر کے دائرہ میں امتناعی احکامات نافذ کردئے ہیں۔ کے آر ایس سے پانی بہانے کی مشینوں کے کمرہ پر کل کسانوں کی طرف سے تالا لگادئے جانے کے بعد آج حکام کو دوبارہ پانی فراہم کرنے میں دشواری پیش آئی، ساتھ ہی کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے آج میسور کو پانی فراہم نہیں کیاجاسکا۔ منڈیا میں کسانوں نے جابجا راستہ روکو احتجاج کیا اور ٹائر جلاکر اپنے غم وغصہ کا اظہار کیا اور کہاکہ حکومت کی طرف سے تملناڈو کو پانی فراہم کرنا درست نہیں ہے۔ بنگلور میں بھی جابجا احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے ، کنڑا نواز تنظیموں نے کاویری کا پانی تملناڈو کو دئے جانے کی سخت مذمت کی۔ ریاست کے مختلف اضلاع میں بھی اسی طرح کے احتجاجات اور ان احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے ٹریفک میں خلل کی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں۔منڈیا ، میسور اور چامراج نگر میں کسانوں کی طرف سے سڑکوں پر اتر کر احتجاج کئے جانے کے سبب بنگلور سے ان علاقوں کیلئے ٹریفک نظام پوری طرح درہم برہم ہوگیا ہے۔بنگلور اور میسور کے درمیان ٹریفک پوری طرح بند ہوچکی ہے۔ اس دوران پچھلے تین دنوں سے کرناٹک اور تملناڈو کے درمیان سرکاری بسوں کی آمد ورفت کاجو سلسلہ بند کردیا گیا تھا وہ اب بھی برقرار ہے۔ تملناڈو میں کے ایس آر ٹی سی کی بعض بسوں پر پتھراؤ کی شکایات کے بعد کے ایس آر ٹی سی حکام نے ان بسوں کو روک دیاتھا۔


کرناٹک میں جے ڈی ایس باغی اراکین اسمبلی کونااہل قرار دینے کا مطالبہ

اسپیکر نے معاملہ کی سماعت پھر ملتوی کردی

بنگلورو۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع)جنتادل (ایس) قیادت کے خلاف بغاوت کرنے والے آٹھ اراکین اسمبلی کو نااہل قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے پارٹی کی طرف سے جو عرضی دائر کی گئی تھی ،ریاستی اسمبلی اسپیکر کے بی کولیواڈ نے اس عرضی کی سماعت کو تفصیلات کی کمی کے سبب 22؍ ستمبر تک ملتوی کردیا ہے۔ حال ہی میں ریاستی اسمبلی کے ذریعہ راجیہ سبھا اور لیجسلیٹیو کونسل انتخابات کے دوران جنتادل (ایس) کے آٹھ اراکین اسمبلی کی طرف سے پارٹی کے وہپ کو پامال کرتے ہوئے کراس ووٹنگ کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے پارٹی نے ان تمام کو نااہل قرار دینے کی عرضی داخل کی ہے۔ پارٹی کے رکن اسمبلی بی بی ننگیا نے یہ عرضی داخل کی تھی۔ اس سلسلے میں اسمبلی اسپیکر نے ریاستی جنتادل (ایس) صدر ایچ ڈی کمار سوامی اور دیگر اراکین اسمبلی کے نام حاضری کیلئے نوٹس جاری کردئے ہیں۔بتایاجاتاہے کہ کمار سوامی نے اس سارے معاملے میں اپنا تحریری بیان اسمبلی اسپیکر کو روانہ کردیاہے اور کہا ہے کہ پارٹی کے سینئر رکن اسمبلی ننگیا نے جو شکایت کی ہے وہ بالکل بجا ہے۔ جے ڈی ایس کے باغی اراکین اسمبلی بشمول چلوورایا سوامی، ضمیر احمد خان ، رمیش بندی سدے گوڈا، ایچ سی بالکرشنا، اکھنڈا سرینواس مورتی ، کے گوپالیہ اور بھیمانائک کو اسمبلی سے نااہل قرار دیا جائے۔اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے اسپیکر کے بی کولیواڈ نے کہاکہ اس معاملے میں ضوابط کے مطابق کمار سوامی نے بحیثیت ریاستی جنتادل (ایس ) صدر تحقیقات کیلئے مناسب مواد فراہم نہیں کیا ہے۔جس کی بناء پر سماعت کو ملتوی کیا جارہاہے۔ اسپیکر نے ریاستی جنتادل (ایس) صدر ایچ ڈی کمار سوامی سے گذارش کی ہے کہ جلد از جلد اس معاملہ میں تفصیلات مہیا کرائی جائیں، تاکہ فیصلہ ہوسکے۔ اسپیکر نے یہ حکم دیا کہ ایک ہفتے کے اندر کمار سوامی اس ضمن میں تمام تفصیلات مہیاکریں۔ 


کولار اور بنگلور میں رشوت خوروں کے خلاف اے سی بی کی مہم تیز

کولار اور بنگلور میں تین بدعنوان افسران کے ٹھکانوں پر چھاپے

بنگلورو۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع) انسداد کرپشن بیورو نے بدعنوان افسران کو گھیرنے اپنی مہم کو شدت کے ساتھ آگے بڑھاتے ہوئے آج بھی تین افسران کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارے اوران کے پاس سے رشوت کی کمائی برآمد کی۔ اڈیشنل ڈئراکٹر جنرل آف پولیس گگن دیپ نے آج ایک اخباری کانفرنس میں بتایاکہ محکمۂ اراضیان وکانکنی کے ڈپٹی ڈائرکٹر سمپت کرشنا سمیت تین افسران کے گھروں اور دفاتر پر آج اے سی بی عہدیداروں نے چھاپے مار کر رشوت کی کمائی سے حاصل کئے گئے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثوں کے علاوہ کئی دستاویزات ضبط کرلئے۔کولار میں محکمۂ صنعت وتجارت کے ڈپٹی ڈائرکٹر سرینوسا ریڈی ، گڈی بنڈا میں سکینڈ ڈویژن اسسٹنٹ سرینواس کے مکانوں اور دفاتر پر بھی چھاپے مارے گئے۔ان کے پاس سے جو کچھ ضبط کیاگیا ہے ، بیورو ان کا جائزہ لے رہا ہے۔ محکمۂ اراضیات وکانکنی کے ڈ پٹی ڈائرکٹر سمپت کرشنا کے وی وی ٹاور میں واقع دفتر کے علاوہ آر ٹی نگر پولیس تھانہ کی حدود میں آنے والے کنکا نگر علاقہ میں واقع ان کے مکان پر اے سی بی نے دھاوا بولا ۔ سرینواس ریڈی کے کولار دفتر اور چنتامنی میں واقع مکان پر چھاپہ مارکر رقم اور دستاویزات برآمد کئے گئے، جبکہ گڈی بنڈے میں باپوجی نگر میں واقع سرینواس کے مکان اور تعلق آفس پر چھاپے مارکر وہاں سے بھی دستاویزات برآمد کئے گئے۔انہوں نے بتایاکہ تینوں بدعنوان افسران کے خلاف بڑی تعداد میں اے سی بی کو شکایات ملنے کی بناپر تینوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔


ہبلوٹ گھڑی کے معاملہ میں سدرامیا کو کلین چٹ کا امکان

بنگلورو۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع)وزیر اعلیٰ سدرامیا کو بیش قیمتی ہبلوٹ گھڑی کے استعمال کے سلسلے میں عنقریب انسداد کرپشن بیورو کی طرف سے کلین چٹ مل جانے کا قوی امکان ہے۔ اڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس اے سی بی گگن دیپ نے اس سلسلے میں ایک اخباری کانفرنس کے دوران واضح اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ سدرامیا کو یہ گھڑی ان کے بیرون ملکی دوست گریش شرما نے بطور تحفہ دی تھی،اور اس کیلئے کسٹمس کی رقم بھی باضابطہ ادا کی گئی ہے ۔ اگر یہ گھڑی بغیر کسٹمس کے لائی گئی ہے تو اس کی جانچ آگے بڑھائی جائے گی۔ تاہم کسٹمس کی رقم ادا کرنے کے بعد یہ گھڑی ملک لائی گئی ہے اور بطور تحفہ وزیر اعلیٰ کو دی گئی ہے، اسی لئے یہ معاملہ انسداد کرپشن قانون کے دائرہ میں نہیں آتا۔ نٹراج شرما، رام مورتی اور ٹی جے ابراہم نے سدرامیا کو بیش قیمتی گھڑی بطور تحفہ پیش کئے جانے کے معاملہ میں اے سی بی اور لوک آیوکتہ سے شکایت کی تھی۔ یاد رہے کہ یہ معاملہ ملک بھر میں موضوع بحث بناتھا، اور آخر کار سدرامیا کو نہ صرف وضاحت دینی پڑی ،بلکہ متنازعہ گھڑی سرکاری خزانے میں جمع کرنی پڑی۔ چیف سکریٹری اروند جادھو پر اراضی گھپلے میں ملوث ہونے کے متعلق شکایت پر مسٹر گگن دیپ نے بتایا کہ بھاسکر نامی ایک شخص نے اس معاملے میں اے سی بی سے شکایت کی ہے اس سلسلے میں محکمۂ مالگذاری سے رپورٹ طلب کی گئی ہے ۔ رپورٹ کا جائزہ لیاجارہاہے۔انہوں نے کہاکہ انسداد کرپشن بیورو نے ریاستی حکومت کو مکتوب لکھ کر گذارش کی ہے کہ اسے حق اطلاعات قانون سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔مرکزی حکومت کی سی بی آئی کی مانند اے سی بی کو بھی یہ سہولت ملنی چاہئے،کیونکہ اے سی بی میں بہت سے اہم دستاویزات جانچ کیلئے آتے ہیں اسی لئے ان تمام دستاویزات کو آر ٹی آئی کی ایک درخواست پر منظر عام پر نہیں لایا جاسکتا۔ 


سدرامیا کو کاویری مسئلہ پر واضح موقف اپناناچاہئے:وشواناتھ

بنگلورو۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع)سابق وزیر اور سینئر کانگریس لیڈر ایچ وشواناتھ نے ریاستی حکومت کی طرف سے دریائے کاویری کا پانی تملناڈو کو فراہم کردئے جانے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہاکہ وزیر اعلیٰ سدرامیا کو پانی فراہم کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کی حکم عدولی کرکے جیل جانا چاہئے تھا۔ ریاستی عوام کے مفادات کی خاطر حکومت کو اس طرح کا سخت موقف اپناناچاہئے تھا۔اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ کاویری مسئلہ پر ریاستی وکلاء عدالت عظمیٰ کو حقائق سے باور کرانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اقتدار کی ہوس چھوڑ کر سدرامیا کو چاہئے کہ کاویری مسئلہ پرسخت موقف اپنائیں ۔ تملناڈو کی طرف پانی بہانے کا سلسلہ فوراً روک دیں۔ اب بھی اگر سدرامیا میں تھوڑی سی عزت باقی ہے تو عہدہ کو لات مار کر عوام کے ساتھ احتجاج میں بیٹھ جائیں۔ انہوں نے کہاکہ صبح شام کاویری کا ہی پانی پینے والے سدرامیا ، کاویری کے ساتھ دغا کررہے ہیں۔اس سے پہلے کہ ریاستی عوام بغاوت پر اتر آئیں حکومت کو کاویری معاملہ میں واضح موقف اپناناچاہئے۔


وظیفہ یاب افسران کے تقررکے لئے درخواستوں کی طلبی

بنگلورو۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع)مرکزی حکومت کے منصوبوں جیسے ریلویز ، قومی شاہراہ اور ایرپورٹس کیلئے اراضی تحویل معاملات کی نگرانی کیلئے مخلوعہ لینڈ اکویزیشن افسران کے تقرر کیلئے ریٹائرڈ کے اے ایس سینئر وجونیئر افسران سے عرضیاں مطلوب ہیں۔ یہ عہدہ کنٹراکٹ کی بنیاد پر ہوگا، خواہش مند تفصیلات کے ساتھ عرضیاں کمشنر ریاستی باز آباد کاری محکمہ و سکریٹری محکمۂ مالگذاری کمرہ نمبر 540 پانچویں منزل ، ایم ایس بلڈنگ ، بنگلور 01- میں داخل کرسکتے ہیں۔


9 ستمبر کے کرناٹک بند کی اردو تنظیموں نے تائید کی 

بیدر۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع )اردو تنظیموں یاران ادب بیدر، ادارہ ادب اسلامی ہند شاخ بیدر، بزم غزالاں ، سندھے چیریٹیبل ٹرسٹ، ایچ اے کے میموریل چیرٹیبل ٹرسٹ نے ایک مشترکہ یادداشت وزیر اعلیٰ سدرامیاکو پیش کرتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ ٹملناڈو کو کاویری سے پانی دینے کے مسئلہ میں دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کیاجائے۔ اور اس قانونی لڑائی کوجاری رکھاجائے۔ محمدیوسف رحیم بیدری، امیرالدین امیرؔ ، سید جمیل احمد ہاشمی ، شفیق احمد کلیم، رخسانہ نازنین، مبشرسندھے اور منظوروقار(گلبرگہ) کے دستخط کے ساتھ ڈپٹی کمشنر بید رکے توسط سے وزیر اعلیٰ کو روانہ کی گئی یادداشت میں تفصیل سے بتایاگیاہے کہ ریاست کرناٹک پانی کے مسائل سے دوچارہے جس کی وجہ سے پینے کے پانی کامسئلہ پیدا ہوچکاہے۔ کاویری ندی سے ٹملناڈو کو پانی دینے سے ٹملناڈو کے کسانوں کو راحت مل سکتی ہے جبکہ کرناٹک میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے کسان خودکشی پر مجبورہیں۔ لہٰذا ہم کرناٹک حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ریاستی حکومت دوبارہ اپیل کرے۔ اور 9ستمبر کو کنڑا تنظیموں کی جانب سے ریاست بھر میں اس مسئلہ پر جو احتجاجی بند منایاجارہاہے ریاست کی تمام اردو تنظیمیں اس بند کی تائید کرتی ہیں۔ 


ترکی کے استنبول یونیورسٹی کے اسکالرزکی غالب انسٹی ٹیوٹ میں آمد

نئی دہلی ۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع )ترکی کی معروف استنبول یونیورسٹی کے اردو و فارسی کے ریسرچ اسکالرز کے ایک وفدنے جواہرلعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین کی قیادت میں غالب انسٹی ٹیوٹ کاعلمی سفرکیا۔ اِن اسکالرزمیں ہارون اکدبیر، زینب چاؤش اُغلو، عائشہ الماز، فاطمہ چلیک، احسان اتنتاس کے اسما قابلِ ذکر ہیں۔ اِن اسکالرز نے غالب انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری، میوزیم اور دیگر علمی شعبوں کودیکھااوراپنے تاثرات میں فرمایاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ میں غالب، عہد غالب اور اردو زبان و ادب کے تعلق سے جو علمی و ادبی سرمائے ہیں وہ ہماری تاریخ کا قیمتی ورثہ ہے۔ ترکی اور ہندستانی تہذیب و ثقافت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اِن اسکالرز نے کہاکہ دونوں ممالک کی علمی، ادبی اور ثقافتی تاریخ میں کافی مماثلت ہے۔ جواہر لعل نہرو کے شعبے اردو اور استنبول یونیورسٹی کے علمی معاہدے کے تحت یہ وفد آجکل ہندستان کے دورے پر ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ میں ان اسکالرز کی آمد پر ڈائرکٹرغالب انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر رضاحیدرنے اِن اسکالرز کااستقبال کرتے ہوئے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ کاترکی کے اہم اداروں سے علمی و ادبی رشتہ ایک طویل عرصہ سے قائم ہے۔ ترکی کے کئی اہم اداروں کے اسکالرز یہاں منعقد ہونے والے سمینار میں شرکت کرتے ہیں۔آج ہمیں غالب انسٹی ٹیوٹ میں اِن اسکالرزکا استقبال کرتے ہوئے بے انتہا خوشی ہورہی ہے جو ایک ایسے شاعرکے نام سے منسوب ہے جس نے اپنی تحریروں میں خودکو تُرک کہاہے۔ اس موقع پر ان اسکالرز کی خدمت میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی کتابوں کا تحفہ بھی پیش کیا گیا۔


ترکی کے پانچ ریسرچ اسکالرز کا اردو گھر میں استقبال

نئی دہلی ۔8؍ستمبر (فکروخبر/ذرائع) انجمن ترقی اردو( ہند) کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی کی دعوت پر ترکی کے پانچ ریسرچ اسکالر نے اردو گھر کا دورہ کیا ۔ اردوگھر کی بنیاد ہی اردو زبان وادب کے فروغ و استحکام کیلئے رکھی گئی تھی جو الْحَمْدُ لِلّٰہ اپنے مشن کی طرف رواں دواں ہے۔ ترکی کے یہ ریسرچ اسکالرز اردو زبان وادب،کلچر، تہذیب و ثقافت اور سیاسی و سماجی ہم آہنگی کے لیے ایک خاص پروجیکٹ پر ریسرچ کی غرض سے ہندستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔اس پروجیکٹ کے روح رواں پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین اور ڈاکٹر خلیل طوق آر(ترکی) ہیں۔ان کا مقصد بین الملوکی یا دونوں ملکوں کے درمیان زبان و تہذیب کا لین دین ہے، جس سے دونوں ملکوں کے مابین عوامی سطح پر زبان و تہذیب کو فروغ حاصل ہوگا۔ آج یہ تمام ریسرچ اسکالرز اردو گھر میں ایک مختصر مگر یادگار جلسے کے لیے مدعو ہوئے جس میں ڈاکٹر اطہر فاروقی نے ہندو ترکی کے درمیان رابطے کے اس اہم پروجیکٹ کو سراہتے ہوئے ریسرچ اسکالرز کو قیمتی مشورے سے نوازا، ساتھ ہی اردو گھر میں موجود نادر و نایاب اردو ذخائر کا معائنہ بھی کروایا ۔اس موقع پر ان تمام ریسرچ اسکالرز کو انجمن ترقی اردو (ہند) کی اہم مطبوعات کا ایک سیٹ بہ طور تحفہ پیش کیا گیا۔ اس تقریب میں موجود بطور خاص ڈاکٹر اطہر فاروقی، ڈاکٹر سید اختر، ڈاکٹر رضا حیدر، پروفیسر انور پاشا ، جاوید رحمانی ، ترکی کے اسکالرز و دیگر کے نام قابل ذکر ہیں۔


کسان کا گلا کاٹ کر قتل

پرتاپ گڑھ۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع) اتر پردیش میں پرتاپ گڑھ ضلع ہیڈ کواٹر سے ستّر کلو میٹر مسافت پر تھانہ مانک پور علاقے میں بدھ کی شب ایک کسان کا گلا کاٹ کر قتل کر دیا گیا ۔پولیس ترجمان کے مطابق کساہل ڈیہ گاوُں کا باشندہ رام پال (60)گزشتہ شب اپنے ٹیوب ویل پر سو رہا تھا کہ اس کا گلا کاٹ کر قتل کر دیا گیا جس کی لاش صبح برآمد کی گئی ہے ۔اہل خانہ نے شکایت درج کرکے الزام عائد کیا کہ رام بھون سے بٹوارے کا تنازعہ چل رہا تھا جس کے سبب رام بھون نے رام پال کا گلا کاٹ کر قتل کر دیا۔پولیس نے قتل کا معاملہ درج کرکے لاش کو پوسٹمارٹم کیلئے ضلع اسپتال بھیج دیا۔واقعہ کی تحقیقات کی جا رہی ہے ۔


جونپور میں اے آرٹی او دفتر میں آگ لگنے سے دہشت

جونپور۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع)اترپردیش میں جونپور کی لائن مارکیٹ کے علاقے میں اے آرٹی او میں اچانک آگ لگنے سے دہشت پھیل گئی۔اس حادثے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ فائلیں جل کر راکھ ہو گئیں۔ پولیس کے مطابق جگدیش پور میں واقع اے آرٹي او دفتر میں کل شام اچانک آگ لگ گئی جس کی وجہ سے وہاں افرا تفری مچ گئی۔ اس حادثے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ فائلیں جل کر راکھ ہو گئیں۔ فائر فائٹرز کی ٹیم نے دو گھنٹے کی سخت مشقت کے بعد آگ پر قابو پایا۔ آگ لگنے کی وجوہات کا پتہ نہیں چل پایا۔ معاملے کی تفتیش کی جا رہی ہے ۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ آگ لگنے کی وجوہات کی تحقیقات کی جائے گی۔


پرتاپ گڑھ میں مجاہد آزادی کا انتقال

پرتاپ گڑھ۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع)اترپردیش میں پرتاپ گڑھ ضلع کے چھیٹ پور حلقہ کے دلیپ پور گاؤں کے ر ہنے والے اورمجاہد آزادی ماتا پلٹ پانڈے کا آج صبح انتقال ہو گیا۔ وہ 95 سال کے تھے ۔خاندانی ذرائع نے بتایا کہ مسٹر پانڈے گزشتہ ایک ہفتے سے بیمار تھے ۔ ان کا انتقال آج صبح ان کی آبائی رہائش گاہ دلیپ پور گاؤں میں ھوا۔ذرائع نے بتایا کہ سرکاری اعزاز کے ساتھ ہی ان کے آخری رسومات کی ادائیگی آج کاشی کے منی کارنیکا گھاٹ پر کی جائے گی۔


کشمیر میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے دو سال مکمل

سری نگر۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع)وادی کشمیر میں7 ستمبر 2014 ء کو آنے والے تباہ کن سیلاب کو دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ تباہ کن سیلاب کی دوسری برسی ایک ایسے وقت آئی ہے جب وادی میں حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی 8 جولائی کو ہلاکت کے بعد سے جاری ہڑتال، کرفیو، پابندیوں، ہلاکتوں اور بے چینی کا سلسلہ 61 ویں روز میں داخل ہوگیا اور موجودہ صورتحال کے باعث اہلیان وادی کے ذہنوں سے یہ نکل چکا ہے کہ انہیں آج ہی کے دن تاریخ کے سخت ترین دن کا سامنا کرنا پڑا تھا۔دارالحکومت کے مضافاتی علاقہ بمنہ کے ایک رہائشی غلام مصطفی وانی نے سیلاب کی تلخ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے یو این آئی کو بتایا 'مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بارش کا سلسلہ یکم ستمبر کو شروع ہوا تھا۔ بمنہ ایک نشیبی علاقہ ہے ۔ جب بارش کا سلسلہ بغیر رکے جاری رہا تو پانی کی سطح میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا گیا جس کے نتیجے میں 4 ستمبر سے ہی ہماری راتوں کی نیند اڑ گئی تھی۔ بالآخر 7 ستمبر کی صبح کو میں نے اپنے مسکن کو پانی میں ڈوبا ہوا پایا۔ میں اور میرے کنبے کے اراکین بعدازاں ایک کشتی کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل ہوئے تھے '۔ جہاں ستمبر 2014 ء کو آج ہی کے دن دریائے جہلم کی قہر آمیز موجوں نے کشمیر کے بیشتر علاقوں کو اپنی آغوش میں لے کر کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا وہیں آج دریائے جہلم کا پانی بالکل خاموش ہے اور ایسا لگتا نہیں کہ اس نے آج سے ٹھیک دو برس قبل ایک بڑا قہر برپا کیا ہو جس کے نتیجے میں درجنوں انسانی جانیں ضائع ہونے کے علاوہ تین لاکھ رہائشی مکانات، تجارتی ادارے اور دیگر ڈھانچے تباہ ہوگئے ہوں۔ 
سیلاب میں شدید متاثر ہونے والے جواہر نگر علاقہ کے ایک رہائشی نے بتایا 'جب میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے رہائشی مکانات کو گرتے ہوئے دیکھا تو مجھے پورا یقین ہوگیا تھا کہ یہ میری اور میرے کنبے کے اراکین کی زندگی کا آخری دن ہے ۔ چار روز بعد مجھے اور میرے کنبے کو ایک رشتہ دار نے آکر بچالیا تھا'۔ جواہر نگر کی طرح سری نگر کے دوسرے درجنوں علاقوں میں لوگ اپنے ہی گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے تھے ۔سری نگر کا تجارتی مرکز 'تاریخی لال چوک' سمندر کا منظر پیش کررہا تھا۔ ریاستی حکومت کے مطابق سیلاب کے باعث کشمیر کو ایک لاکھ کروڑ روپے سے زائد کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔سیلاب سے 280 سے زائد جانیں زیاں ہوئی تھیں ، 5642 دیہات متاثرہوئے تھے جن میں سے 800 دیہات کئی ہفتوں تک تک زیر آب رہے تھے جس کے نتیجے میں 12 لاکھ 50 ہزار کنبے متاثر ہوئے تھے ۔
سیلاب سے 83 ہزار سے زائد پکے رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے تھے جبکہ 96 ہزار پکے رہائشی مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تھا۔اس کے علاوہ 21 ہزار سے زائد نیم پکے مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے تھے جبکہ 54 ہزار سے زائد نیم پکے مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تھا۔ تاہم ایک الگ رپورٹ کے مطابق تباہ کن سیلاب سے قریب تین لاکھ رہائشی مکانات، تجارتی اداروں اور دیگر ڈھانچوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ ایک قومی ہندی اخبار 'دینک جاگرن' سے وابستہ فوٹو جرنلسٹ شفقت صدیقی جہانگیر چوک کے نذدیک تباہ کن سیلابی ریلوں کو اپنے کیمرے میں قید کرنے کے دوران بہہ گئے تھے جن کی لاش چار روز بعد دو کلو میٹر دور بتہ مالو میں برآمد کی گئی تھی۔جہاں سیلاب کی تباہ کاریوں سے باغبانی، زراعت، شہرہ آفاق زعفران سمیت زندگی کا ہر ایک شعبہ بری طرح متاثر ہوا تھا وہیں تاریخی لال چوک اورسری نگر کے دیگر حصوں میں قائم بازاروں کی رونقیں ختم ہو کر رہ گئی تھیں۔کشمیر اکنامک الائنس کے مطابق سیلاب کے باعث وادی کشمیر میں ایک لاکھ دکانیں متاثر ہوئی تھیں جبکہ کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن نے سری نگر میں متاثر ہونے والی دکانوں کی تعداد 50 ہزار سے زائد بتائی تھی۔ 
ایک تخمینے کے مطابق سری نگر میں تباہ کن سیلاب سے 60 ہزار کے قریب مکانات کو نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں 60 ہزار کنبے بے گھر ہوگئے تھے ۔ سیلاب میں جن متاثرین کے گھر زمین بوس ہوئے تھے اور جنہیں لاکھوں روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا، انہیں ریاستی حکومت نے نہایت ہی معمولی رقم بطور ریلیف فراہم کی۔ جبکہ تاجروں جنہیں کروڑوں کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا، میں اکثریت کوآٹے میں نمک کے برابر ریلیف فراہم کی گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق تاجر برادری کو مجموعی طور پر 70 ہزار کروڑ روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ تاہم وادی میں سیلاب آنے کے بعدمختلف دینی، فلاحی اور سماجی تنظیموں نے سیلاب متاثرین کی جو مدد کی وہ قابل تحسین ہے ۔ اِن تنظیموں نے نہ صرف ترجیحی بنیادوں پر سیلاب متاثرین تک امدادی سامان پہنچایا تھا بلکہ چند ایسے بھی ادارے ہیں جنہوں نے سیلاب سے بے گھر ہوئے کنبوں کے لئے رہائشی مکانات تعمیر کرنے کا کام ہاتھ میں لیا ہے ۔اس حوالے سے دارالخیر میرواعظ منزل نامی فلاحی ادارے کا کردار انتہائی قابل تحسین ہے ۔ یہ ادارہ حریت کانفرنس (ع) کے چیرمین میر واعظ مولوی عمر فاروق کی سرپرستی میں کام کررہا ہے۔
وادی میں سیلاب آنے کے فوراً بعد اس ادارے نے سیلاب سے حد درجہ متاثرہ افراد کی امداد اور بازاربادکاری کے لئے 'اکھ اکس' (سب مل کر) پروگرام شروع کیا تھا جس کے تحت مکانات کی تعمیر کے ساتھ ساتھ متاثرین تک امداد پہنچانے کا عمل شروع کردیا گیا تھا۔ مذکورہ پروگرام کے تحت سب سے پہلے پنڈت برادری کے متاثر پنڈت موتی لال دھرجی ساکنہ مندرباغ کو مکان کے مالکانہ حقوق اور اس کی کنجی حوالے کی گئی تھی۔ پنڈت موتی لال دھرجی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ نوے کی دہائی میں جب بیشتر پنڈت وادی چھوڑ کر چلے گئے تو موتی لال نے یہاں ہی اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ رہنے کو ہی ترجیح دی۔مبصرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ 25 برسوں کے پرآشوب دور میں سال 2014 ء کا ستمبر ایک ایسا مہینہ گذرا جس نے اہلیان وادی کو کبھی نہ فراموش ہونے والی مایوسیاں اور پریشانیاں دیں۔ سیلاب کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 68 برس میں پہلی بار وادی میں ریڈیو کشمیر کی نشریات معطل ہوئی تھیں۔ 7 ستمبر کو ہی وادی میں دوردرشن کی نشریات بھی معطل ہوئی تھیں۔ریڈیو کشمیر اور دوردرشن کے ساتھ ساتھ نجی ایف ایم اسٹیشن بگ 92.7 ایف ایم کی آواز بھی خاموش ہوگئی تھی ۔
اخباروں کی اشاعت رُک گئی تھی اور کشمیر کا ملک کے ساتھ زمینی رابطہ منقطع ہوگیا تھا ۔ جہاں ریڈیو کشمیر نے معمول کی نشریات سیلاب کے قریب ڈیڑھ ماہ کے بعد جبکہ دور درشن کیندر سری نگر نے سیلاب کے اڑھائی ماہ بعد اپنی معمول کی نشریات بحال کردی تھیں۔ 7 ستمبر سے مواصلاتی نظام بھی ٹھپ ہوگیا تھا جس سے لوگوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ نہ باپ کو بیٹے کی خبر اور نہ بیٹے کو باپ کا اتاپتا۔ بجلی ترسیلی لائنوں کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا جس کے باعث بیشتر علاقے گپ اندھیرے میں مبتلا ہوگئے تھے ۔ کسی بھی طرح کی ہنگامی صورتحال میں جہاں اسپتالوں کا فعال رہنا انتہائی ضروری مانا جاتا ہے وہیں کشمیر کے بیشتر اسپتال زیر آب آگئے تھے جس کے بعد ان میں زیر علاج مریض اور ان کے تیمارداروں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ وادی کشمیر میں کچھ سیلاب زدہ علاقوں میں میتوں کی تجہیز و تکفین پانچ چھ روز کے بعدانجام دی گئی۔بیشتر علاقوں میں لوگوں کو ایکا ایکی اسکولوں اور مسجدوں میں پناہ لینا پڑی تھی۔
تاہم محفوظ مقامات پر رہائش پزیر مقامی لوگوں نے کشمیریت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے متاثرہ لوگوں خواہ وہ مسلم ، ہندو یا سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے ، اپنے گھروں، مساجدوں اور اسکولوں میں نہ صرف جگہ دی تھی بلکہ لنگر کا اہتمام کرکے کھانے کا انتظام کیا تھا اور دیگر ضروری چیزیں بھی فراہم کی تھیں۔ ان میں غیر ریاستی مزدوروں کی ایک کثیر تعداد بھی شامل تھی۔ سیلاب کے دوران ریاستی حکومت غائب رہی اور جب نمودار ہوئی تب تک انڈین ائر فورس، فوج، سی آر پی ایف، بی ایس ایف ، فائیر اینڈ ایمرجنسی سروس، نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس، اسٹیٹ ڈیزاسٹر رسپانس فورس کی ٹیموں، سیول ڈیفنس، رضاکار تنظیموں اور خاص طور پر کشمیری نوجوانوں نے سیلاب میں پھنسے ہوئے لاکھوں لوگوں کو ریسکیو کرلیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ سیلاب نے شروع میں جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ اور کولگام میں شدید تباہی مچادی تھی اور بعد ازاں 6 اور 7 ستمبر کی درمیانی رات کے دوران اس نے سری نگر کے سیول لائنز علاقوں خاص طور پر شیو پورہ، ڈل گیٹ، بٹہ وارہ، نٹی پورہ، پادشاہی باغ، سونہ وار، راج باغ، گونی کھن مارکیٹ، لال چوک، جہانگیر چوک، مولانا آزاد روڑ، مائسمہ، مہجورنگر، لسجن، چھانہ پورہ، جواہر نگر، کرن نگر، نوپورہ، قمرواری، بمنہ، وزیر باغ کو اپنی لپیٹ میں لیکران علاقوں میں زبردست تباہی مچادی تھی۔ان علاقوں میں سیلابی پانی مکانوں کی دوسری منزلوں تک پہنچ گیا تھا۔ یہ علاقے دریائے جہلم کا سیلابی پانی بندوں کے اوپر سے بہنے اور کچھ مقامات پر حفاظتی بندوں میں شگاف پڑنے سے زیر آب آگئے تھے ۔ شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ اور بانڈی پورہ، وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام اور گاندربل کے بھی بیشترعلاقے زیر آب آگئے تھے جس کے باعث ان اضلاع میں بھی بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔


ریل کی پٹری پر ملی نامعلوم لاش

بیتول۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع)مدھیہ پردیش کے بیتول ضلع کے آملہ ریلوے اسٹیشن کے نزدیک جھاڑیوں میں سے ایک نامعلوم شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے ۔پولیس ذرائع کے مطابق ریلوے اسٹیشن کے قریب دو کلو میٹر دور نندی کھیڑا گاؤں کے پاس کل آملہ 151 ناگپور ریل کی پٹری کی جھاڑیوں میں نامعلوم شخص کی لاش ملی ہے ۔ فی الحال لاش کی شناخت نہیں ہوپائی ہے ۔ پولیس معاملہ درج کرکے نامعلوم شخص کی شناخت میں 
مصروف ہے


مودی آسیان ہند سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے لاؤس روانہ

نئی دہلی۔8ستمبر(فکروخبر/ذرائع)وزیر اعظم نریندر مودی 14 ویں آسیان ہند سربراہی کانفرنس اور 11 ویں مشرقی ایشیا چوٹی کانفرنس میں حصہ لینے کے لیے آج لاؤس کے دو روزہ دورے پر روانہ ہو گئے ۔ مسٹر مودی نے تقریبا دس بجے پالم فضائی ایئر بیس سے خصوصی طیارے سے پرواز بھری۔ وہ مقامی وقت کے مطابق تین بج کر 20 منٹ پر لاؤس کے دارالحکومت ونتیان پہنچیں گے ۔ آج شام ان کی ملاقات جاپان کے وزیر اعظم شینزو آبے اور لاؤس کے وزیر اعظم تھوگلون سسولتھ سے ہوگی۔ وہ لاؤس کے وزیر اعظم کی جانب سے منعقد عشائیہ میں بھی شرکت کریں گے ۔ مسٹر مودی نے کل رات اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ وہ تیسری بار ان کانفرنسوں میں شرکت کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ آسیان ہند وستان کی ایکٹ ایسٹ پالیسی کا اہم حصہ دار ہے اور شمال مشرقی علاقے کی اقتصادی ترقی میں بہت اہم مقام رکھتا ہے ۔ ایک اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر آسیان کی ہندوستان کے اس علاقے میں روایتی اورغیر روایتی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور سیکورٹی مفادات کی حفاظت کرنے میں بہت اہم کردار ہے ۔ مشرقی ایشیا کانفرنس ایشیائی ممالک کے خطے میں چیلنجوں اور مواقع پر بات چیت کرنے کا اہم پلیٹ فارم ہے ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات واقعی میں تاریخی ہیں۔ ہمارے تعلقات اور مقصد جس ایک لفظ میں اظہار کیا جا سکتا ہے ، وہ ہے ۔کنیکٹوٹی۔ ہندوستان آسیان ممالک کے ساتھ آمدورفت اور ڈیجیٹل دونوں قسم کی کنیکٹوٹی بڑھانا اور ادارہ جاتی تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے تاکہ عوام کا آپس میں رابطہ بڑھے اور اس کا فائدہ دونوں علاقے کے لوگوں کو مل سکے ۔ مسٹر مودي نے کہا کہ وہ ان کانفرنسوں میں آنے والے رہنماؤں کے ساتھ الگ سے ملاقات کر کے باہمی مفادات سے منسلک متعدد مسائل پر بھی گفتگو کریں گے ۔ مسٹر مودی کل صبح ہند آسیان سربراہی کانفرنس اور دوپہر بعد مشرقی ایشیا کانفرنس میں حصہ لیں گے اور دیر شام وطن واپس آجائیں گے ۔


باغپت میں فرضی مدرسوں کے نیٹ ورک کا انکشاف 

کاغذ پر چلائے جانے والے مدرسوں کا سرغنہ گرفتار ، دیگر ملزمین فرار 

باغپت 08؍ستمبر (فکروخبرنیوز) مدارس کی جدید کاری اسکیم کا ناجائز فائد ہ اٹھاتے ہوئے فرضی دینی مدارس چلانے والے ایک گروہ کا فاش ہونے کے بعد ایک شخص کو گرفتارکیے جانے کی خبر فکروخبر کو موصول ہوئی ہے۔ گرفتار شدہ شخص کی شناخت سنجیو کمار کی حیثیت سے کرلی گئی ہے جبکہ بقیہ ملزمین فرار ہیں۔ مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاع کے مطابق گذشتہ دنوں ضلع اقلیتی کلیان افسر حاکم سنگھ نے ضلع میں چل رہے ہے فرضی مدارس کی تحقیقات کے دوران ایسے 23 مدارس کے بارے میں یہ کہا جار ہا ہے کہ وہ صرف کاغذی کارروائی پر چل رہے ہیں۔ ان مدارس کے نام پرسنجیو کمار نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر کروڑوں روپئے تنخواہوں وار تعلیمی اخراجات کے نام سے لوٹ لیے ہیں۔ شہر میں دارالعلوم حسینیہ کے نام سے بھی ایک مدرسہ چلائے جانے کے انکشافات ہوئے ہیں جس کی نہ کوئی عمارت ہے اور نہ کوئی استاد اور شاگرد ، یہ مدرسہ صرف کاغذی کارروائی پر چل رہا ہے اور اب تک لاکھوں روپئے تعلیم کے نام پر ہضم کرلیے گئے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس گروہ کا سرغنہ سے لے کر دیگر ملزمین غیر مسلم ہیں ۔ فی الحال اقلیتی کلیان افسر کی تحقیقات کے بعد 23ایسے کاغذی مدرسوں کا پردہ فاش ہوا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس طرح کا گروہ صرف باغپت نہیں بلکہ مدارس کا نام پر حکومت کی کروڑوں روپئے ہضم کرنے والوں کا جال میرٹھ اور دیگر اضلاع تک پھیلا ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق کروڑوں کے رقومات ہڑپ کرنے والے ملزمین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے سرکار ان سے رقم وصول کرکے دیگر ملزمین کی جلد گرفتاری کے لیے کوششیں کررہی ہیں۔ اس جعلسازی سے اقلیتی طبقہ کی فلاح وبہود کے لیے مختص رقم پر بھی جعلسازی کی عام اطلاعات مل رہی ہیں۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا