English   /   Kannada   /   Nawayathi

سلطنت خداداد کے زوال کے اسباب و محرکات

share with us

نواب حیدر علی کے مقابلہ میں ٹیپو سلطانؒ نسبتاً رحمدل اور نرم مزاج تھا اسکے برعکس حیدرعلی بغاوت و سرکشی کو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا اور غداری کا علم ہوتے ہی مجرم کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا تھا لیکن حضرت ٹیپو سلطانؒ اپنے والد کے برعکس اعلیٰ تعلیم یافتہ اصول پسند و نرم دل تھا جب بھی کسی کی غداری کی اس کو اطلاع ہوتی تو جب تک تحقیق کے بعد الزام پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا وہ کسی کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تھا یہی وجہ تھی کہ ٹیپو ؒ نے اکثر غداروں و منافقوں کو معاف کرکے ان سابقہ و مناصب پر بحال کردیا تھا لیکن ضمیر فروش و ملّت فروش وزراء ٹیپو ؒ سے بدستور بغض و عدات رکھتے تھے ٹیپو سلطان ؒ کی حد سے زیادہ نرم دلی و رحم دلی خود اس سلطنت کے زوال کا سبب بنی ۔نواب حیدر علی نے بوقت وفات ٹیپو سلطان ؒ کو وصیّت کہ مجھے میر صادق ،میر غلام علی لنگڑا ،اور پورنیا پنڈت کے بارے میں اطمینان نہیں ہے میرے بعد تم ان کو قتل کر دینا لیکن ٹیپوسلطانؒ کی رحم دلی آڑ بنگئی اور ان ضمیر فروشوں کے ہا تھو ں ہی اس کی اسلامی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا جس کے بعد قدرت نے ان غداران ملّت فروشوں سے شدید انتقام لیا مندرجہ ذیل سطور میں ٹیپوسلطانؒ اور اس کی سلطنت کے چند احسان فراموشوں کاذکر کیا جا رہا ہے جن کا ایک اسلامی سلطنت کے زوال میں اہم رول تھا یہ وہ بدبخت حضرات ہیں جو صرف حیدر علی یا ٹیپو سلطان ؒ کے ذاتی احسانات کی وجہ سے اعلیٰ مناصب پر فائز رہے اور پھر بھی اپنے آقا و محسن سے انھوں نے غداری کی جن میں سر فہرست میر صادق ،پورنیا پنڈت ، میر فخرالدین ،میر معین الدین وغیرہ تھے جن کی احسان فراموشی اظہر من الشمس تھی ۔ معاہدہ سری رنگا پٹنم بعد ٹیپو نے جب اپنی مملکت کی ازسر نو تنظیم کی طرف توجہ دی جمہوریت کا قیام عمل میں آیا تو اسی کو اس پارلیمان کا صدر بنا لیا جس کے بعد پھر ایک بار پوری سلطنت میں سلطان کے بعد سب سے بااختیا ر شخص بن گیا سلطان کی وسعتِ قلبی کلی اعتماد کے باوجود اپنی رذیل حرکت سے باز نہیں آیابلکہ پہلے سے کہیں زیا دہ سلطان کے خلاف اندرونی ریشہ دیوانیوں میں مصروف رہا سلطان کو سلطان کو دوبارہ اس کی غداری کا علم شہادت کے دن ہی ہوسکا جمہوریت کے نام پر اس بدبخت نے جملہ اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے تھے ۔کوئی خط یا کوئی پیٖغام اسکی اجازت کے بغیرٹیپو کے پاس نہیں پہونچتا تھا رعایا پر سخت قانون نافذکرتاتھا تاکہ وہ سلطان سے بد ظن ہوالغرض سلطان کے جملہ غدار وزراء وافسران کی قیادت وزیراعظم میر صادق کرتاتھاایک رویت کے مطابق جس دن سلطان نے جام شہادت نوش کیا اس دن صبح کو ٹیپوؒ نے ایسے غداروں کی ایک فہرست تیار کی تھی جنکودوسرے دن پھانسی دینی تھی اس میں سر فہرست میر صادق کا نام تھااور اسکی اطلاع میر صادق کوبھی ہوگئی تھی سلطان نے شہادت سے کچھ گھنٹوں قبل انگریزوں سے لڑتے ہوئے قلعہ کے دروازے سے شہر میں داخل ہونیکی کوشش کی تو اس بدبخت نے دروازہ بند کردیا اور خود باہر نکل گیا لیکن سلطان کے ایک وفادار سپاہی نے یہ کہتے ہوئے کی سلطان کو دشمنوں کے حوالے کرکے خود کہاں بچ کر جارہاہے تلوار کے ایک ہی وا ر میں سر کو تن سے جدا کردیا تین دن تک اسکی لاش بدبو وتعفن سے پڑی سڑتی رہی تین دن کے بعداسکی سڑی لاش کو بغیر غسل وتجہیزوتکفین کے ونماز جنازہ کے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیااورجب بھی کوئی اس کی قبر کے پاس سے گزرتاتو اس پر تھوکتا غرض یہ کہ یہ ملت فروش اپنی غداری کا مزہ چکھنے کے لئے زندہ نہ رہ سکا اور خود سلطان ست پہلے قدرت نے اس ننگ دین ننگ وطن زبردست انتقام لیا ۔پورنیا پنڈت ہندو برہمن تھا سلطان سے عمر میں چار سال بڑا تھا اس کی ماں بھیک مانگ کر اس کا پیٹ پالتی تھی ۔حیدر علی کے ایک ہندو وزیر کرشنا راؤ کی سفارش پر اس کو سلطنت خداداد میں ملازمت مل گئی اولاً اس کو بار برادری اور نقل و حمل کے شعبہ میں سیکریٹری بنایا گیا ،ترقی کرکے ٹیپو سلطان کے کے حلقہ خاص میں شامل ہو گیا اور وزیرٖ مالیا ت بن گیا ۔ اس کو میر صادق کا نائب یعنی تیسرے درجے کا با اختیار شخص بنا دیا وہ ہندو حکومت کے قیا م کے لئے اندرونی طورپر کوشاں رہتا دشمنوں سے خفیہ طور پر اس کا برابر رابطہ تھا سلطانی قلعہ میں اپنوں کی غداری کی وجہ سے ایک شگاف پڑ گیا جہاں سلطانی محل تھا پہلے سے طے شدہ سازش کے تحت شگاف کی حفاظت پر مامور سلطانی افواج کے تنخواہ تقسیم کرنے کے بہانے ہٹاکر قلعہ کے باہر مسجد ٖ اعلیٰ کے پاس لے جانے والابھی یہی بدبخت تھا ۔میسور کی چوتھی جنگ ٹیپو کے خلاف نظام کی فوج کی کمان یہ خود سنبھا لے ہوئے تھا ۔ملّت سے غداری کا انتقام قدرت نے اس کی زندگی ہی میں لے لیا اس کو جزام کی لاعلاج بیماری ہوگئی اطباء کے مشورے سے اس کو زہریلے سانپو سے ڈسوایا جاتا تھا کہ بیماری میں تخفیف ہو جائے مگر اس کا بدن اتنا سڑ گیا تھا کہ زہریلے سانپ اسکو ڈس کر اسکے اثر سے خودمر جاتے تھے ۔میر معین الدین : ٹیپو کا خسر اور رشتہ میں مامو بھی تھا ۔سلطنت خداداد میں فوجی ملازم تھا ترقی کرکے فوج کا سپہ سالار بنادیا گیا میسور کی آخری جنگ میں قلعہ کی کمان اسی کے ہاتھ تھی اسی نے پورنیا کے ساتھ مل کر قلعہ کے شگاف کی حفاظت پر مامور سلطانی سپاہیوں کی تنخواہ کی تقسیم کے بہانے وہاں سے ہٹا دیا تھا یہ قلعہ پر قبضہ کے لئے انگریزوں کو اشارہ کررہا تھا تو اس کی اس حرکت کو سلطان کے ایک جا نباز سپاہی نے دیکھ لیا اس نے اس پر ایسا وار کیا کہ ایک خندق میں گرگیا اور اسی میں اس کی موت ہو گئی۔میر فخرالدین : یہ سلطان کا مامو زاد بھائی تھا۔یہ شروع ہی سے بے وفا تھا ۔سلطان نے اس کو ایک مرتبہ نظر بند بھی کردیا تھا میسور کی آخری جنگ میں اس نے ایک سازش کے تحت بغیر کسی مزاحمت کے انگریزی دستہ کو دارالسلطنت پہنچنے دیا ۔میر قاسم سری رنگا کا محافظ تھا ۔ابتداء میں سلطان کا وفادار اور پھر دشمن بن گیا تھا ۱۷۹۹ء کی جنگ عین موقع پر چھٹّی لیکر حیدر آباد آرام کرنے کے بہانے یہ بدبخت انگریزوں کے پاس چلاگیا اور قلعہ کی تمام اندرونی تفصیلات سے دشمنوں کو آگاہ کیا ایاز خاں:حیدر علی کا لے پالک اور نو مسلم تھا ۔حیدرعلی نے اس کو بد نور کا گورنر بنایا تھا ۔ یہ سلطنتِ خداد کے خلاف انگریزوں سے مل گیا ۔اسنے سلطنت کے ایک بڑے حصہ کو گونری بحال ہونے کی لالچ میں بغیر کسی مزاحمت کے انگریزوں کے حوالے کردیامحمّد قاسم خان:ایک زمانہ سے تیمور کی فوج میں ملازم تھا اس بھی شیخ ایاز خان کے ساتھ مل کر بغیر کسی مزاحمت کے قلعہ انگریزوں کے حوالے کر دیاتھا سلطان نے دوبارہ قلعہ پر قبضہ کر لیا اور اس کو گرفتار کرکے برسرِعام پھانسی دی گئی اس طرح یہ اپنے انجام کو پہنچا۔ عثمان خاں کشمیری :حیدر علی کے زمانے میں میسوری فوج میں ملازم تھاٹیپو کے زمانے میں ترقی کرکے پائی گھاٹ کا قلعہ دار بنا قلعہ بغیر کسی مزاحمت کے دشمنوں کے حوالے کردیا سلطان سے غداری کی پاداش میں پھانسی پر چڑھادیا گیا راجہ خان :انگریزوں نے اسے بہت پہلے خرید لیا تھا لیکن ٹیپو کو اس کی غداری کی بھنک آخر تک نہیں لگی چوتھی جنگ کے آخری دن جب سلطان مقابلہ کے لئے نکلا تو یہ بھی سلطان کے ساتھ تھا اس نے سلطان کے حکم پر اپنے ساتھ پانی کا ایک جھاگل بھی رکھ لیا تھا آخری وقت میں سلطان کو مشورہ دیا تھا کہ اب تو شکست یقینی ہے اس لئے آپ خود کو دشمنوں کے حوالے کردیں اس پرسلطان نے پلٹ کر غصہ کے عالم میںیہ تاریخی جملہ کہا تھا (کیا تم پاگل ہو گئے ہو خاموش رہو میر ے لئے شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑکی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے )سلطان کی شہادت کے بعد اس گلے سینوتیوں کا قیمتی ہار اس نے چرایا تھا اسی منحوس نے انگریز افسران کے لئے اس جگہ کی نشاند ہی کی تھی جہاں سلطان زخمی ہوکر شہید ہوا تھا شیخ شہاب الدین : منگلور کی فتح کے بعد محکمہ مالیات افسر تھا یہ ہمیشہ مغربی ساحل پر انگریزوں کے مفاد کے لئے کام کرتا رہا سلطنتِ خداد کو نقصان پہنچانے میں کمپنی کے ساتھ سازش میں ہمیشہ شریک رہا کرشناراؤ: یہ ابتداء میں شیرمیسورسلطان ٹیپوکے نہایت معتمدین اور قابل بھروسہ
افسران میں شامل تھا نگریزوں نے جب اسے خریدا تو اسنے قلعہ کے اندر سلطانی افواج میں کمی کردی جسکے بعد دشمن بآسانی قلعہ پر قابض ہوگئے اسکی سازش کی وجہ سے ایک ہزار میسوری مجاہدین شہید ہوگئے کرشنا راؤ نے قتل کئے جا نے سے کچھ دیر قبل اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری لگائی ہوئی آگ کو ٹیپو کبھی بجھا نہ سکے گا بعد کے حالات نے اس پیش گوئی کی تصدیق بھی کردی جسکے نتیجہ میں ۱۷۹۹ء ؁میں ٹیپو کی شہادت اور سری رنگا پٹنم کا سانحہ پیش آیا یہ انتہائی متعصب ہندو تھا کسی اسلامی سلطنت کے وجود کو برداشت کرنے کے لئے تیار نھیں تھااس کی موت کے بعد اس کے حواریوں نے اس کی دیرینہ خواہش کو پورا فرمایا حضرات مورخین عموماًبسلسلہ زوال سلطنت خدادادسب سے زیادہ اہمیت اسی کو دیتے ہیں کہ اپنوں کی بے وفائی ،غداری ،سازش،نمک حرامی،احسان فراموشی وضمیر فراموشی نے ٹیپوسلطان ؒ کی شہادت میں اہم رو ل ادا کیا سلطانؒ نے ظاہری طور پر۱۷۹۹ ؁ میں انگریزوں سے شکست کھائی اور بظاہر ناکام بھی رہا لیکن تکوینی طور پرٹیپو ؒ کی ناکامی اسکی عظمت کو کم نہ کرسکی پوری انسانی تاریخ میں شاذونادر ہی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ ٹیپوؒ کی طرح کوئی دوسرا بادشاہ وقت خود میدن جنگ میں اپنے دشمنوں سے برسرپیکار ہوسلطانؒ شیر کی طرح آزادانہ زندگی بسر کرتاتھا اور ہمیشہ باوضوء رہنے کا عادی تھاسر پر سبز عمامہ باندھتاتھاجہاں تک داڑھی کا سوال تھا توٹیپو کے چہرے پر قدرتی طور پر سے بال ہی نہیں تھے سلطان کی دینداری اور تقویٰ کا حال یہ تھا کہ بلوغت کے بعدکبھی کوئی نماز قضاء نہ ہوئی اور بعد نماز فجر کبھی تلاوت کلام اللہ ناغہ نہ ہوئی ۔ سلطان کی طبیعت میں حیاء اس درجہ تھی کہ تاحیات کسی نے اس کے جسم کے کسی حصہ کو بجزدست وپا اور چہرے کے نہیں دیکھا۔ ٹیپو ؒ کی ایک عظیم تمنا’’زیارت حج بیت اللہ ‘‘ مسلسل جنگی مصروفیتوں کی وجہ سے تشنہ تکمیل رہی جسکا اسے تا زندگی افسوس رہا مگر بلند نصییبی دیکھئے کہ ٹیپو ؒ کو نبی کریمﷺنے شہادت کی بشارت دی تھی جو پایہ تکمیل کو پہونچی۔ تاریخ اسلام کا یہ مرد مجاہد،مومن کامل ،عابد وزاہدولی ،درویش صفت سلطان،تاریخ ہند کا بے مثال عادل وفیاض مجاہد آزادی فدائے وطن حکمران یہ کہتا ہوااس مکار اور منافق دنیا سے رخصت ہوا اور رہتی دنیا تک کے لئے درس عبرت دے گیا کہ ’’مرنا تو برحق ہے مگر سو سال گیڈر کی طرح جینے سے شیر کی طرح دودن کی زندگی گزارنا پسند کرتاہوں انکے مزار کے قریب فارسی کا یہ شعرکندہ ہے جس سے انکی پورہ زندگی کی عکاسی ہوتی ہے ۔
نہ شادی داد سامانے نہ غم آورد تکلیفے۔۔بدیں جانبازسلطانے کہ آمد شد بمہمانے
ترجمہ۔نہ خوشی نے اسے کوئی سامان دیااور تکلیف نے اسے غم دیا ۔یہ جانباز سلطان ایک مہمان کی طرح اس دنیا میں آیا اور مہمان کی طرح چلا گیا۔بحر حال وطن عزیز کا نہایت قابل فرزند قلعہ کے دروازے پردشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوکر اپنے خالق حقیقی سے جاملا اوردوسرے دن قبل از غروب آفتاب منوں مٹی کے نیچے بشکل قبر جنت کے باغوں میں پہونچ چکاتھا(انا للہ وانا الیہ رٰجعون) 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا