English   /   Kannada   /   Nawayathi

سمارٹ فون نوجوانوں کو حقیقی دنیا سے دور کر رہا ہے،سروے رپورٹ(مزید اہم ترین خبریں )

share with us

اسی طرح ایک ہی خاندان کے 30 فیصد لوگ گھر میں ایک دوسرے سے بات چیت کے لیے موبائل فونز استعمال کرتے ہیں۔تاہم نوجوانوں کی 30 فیصد تعداد کا ماننا ہے کہ ان کی اس عادت کے پیچھے والدین کا بھی ہاتھ ہے جن کی مصروفیات کی وجہ سے انھیں موبائل فون زیادہ استعمال کرنے کی عادت ہوئی۔تین چوتھائی والدین کی طرف سے بچوں کو موبائل فون بیڈ روم میں لے جانے کی اجازت ہے لیکن صرف 35 فیصد والدین نے کہا کہ وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کے بچے دن بھر میں کتنی بار ٹیک آلات کا استعمال کرتے ہیں۔سروے میں شامل نصف سے زائد والدین نے بچوں کی اس عادت کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا پائی گئی جن کا کہنا تھا کہ وہ بچوں کی ٹیک آلات کے استعمال کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔تعلیمی شعبے سے وابستہ ماہر نفسیات ڈاکٹر کائرن کولن نے کہا کہ ان دنوں والدین بھی بچوں کی آن لائن مصروفیات کی حمایت کرتے پائے جاتے ہیں جو خود بھی آن لائن فوری پیغام رسانی کو بچوں سے بات چیت کرنے کے لیے متبادل کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں۔ڈاکٹر کولن کے مطابق مواصلاتی ذرائع کبھی بھی ایک خاندان کے لیے آمنے سامنے بات چیت کا متبادل ثابت نہیں ہو سکتے ہیں۔ لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو محفوظ اور فعال آن لائن سرگرمیوں تک محدوود رکھنے کی حوصلہ افزائی کریں اور خاص طور پر والدین کوشش کریں کہ کھانے کی میز پر سب گھر والوں کے فون آف ہوں۔


منظور الامین کی کثیر الجہات شخصیت اور تصنیف ایک منفرد تاریخی دستاویز

ٹیلی ویثرن :دنیا کا آٹھواں عجوبہ کی رسمِ رونمائی 

حیدرآباد ۲۸؍اگست (فکروخبر/ذرائع):اردو میں شعر و ادب پر تو گراں قدر کتابوں کی کمی نہیں ہے ،لیکن معلوماتی کتابیں جن سے ہمارے عصر کی تحقیقات و ایجادات سے واقفیت ہو تی ہے تقریباً نہ ہو نے کے برابر ہیں ۔ان خیالات کا اظہار پدم شری ڈاکٹر مجتبیٰ حسین نے سالار جنگ میوزیم کے ویسٹرن بلاک آڈیٹوریم حیدرآباد میں کل رات پروفیسر محمد میاں شیخ الجامعہ ،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی زیرِ سر پرستی ممتاز ماہرِ نشریات ادیب و دانشور پروفیسر منظور الامین،سابق اڈیشنل ڈائرکٹر جنرل ،دور درشن کی تازہ ترین تصنیف ’’ٹیلی ویثرن :دنیا کا آٹھواں عجوبہ ‘‘کی رسمِ رونمائی کے بعد اپنے صدارتی خطاب کے دوران کیا۔ قبل ازیں ،حافظ محمد منیر ،آئی ایم سی، مانوکی قراتِ کلامِ پاک اور کنوینر ،ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد ،ڈپٹی ڈائرکٹر ، مرکز ییشہ ورانہ فروغ برائے اساتذۂ اردو ذریعۂ تعلیم،مولانا آز اد نیشنل اردو یونیورسٹی کے استقبالیہ کلمات سے اس تقریب کا آغاز ہوا۔سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر مجتبٰی حسین نے کہا کہ یہ کتاب نہ صرف یہ کہ ایک دستاویز ہے بلکہ منظور صاحب کے دیرینہ تجربہ کا نچوڑ بھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اردو کے معلوماتی ادب میں یہ کتاب ایک قابلِ قدر اضافہ بھی ہے ۔ڈاکٹر حسین نے مزید کہا کہ اس کتاب کی ادبی اہمیت تو ہے ہی لیکن اس کی تدریسی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہے ۔انہوں نے تمام جامعات کے شعبۂ جات ترسیل عامہ و صحافت کے طلبہ کے لئے اس کتاب کو ایک نادر و نایاب علمی خزینہ قرار دیتے ہوئے اسے الکٹرانک میڈیا کے نصاب میں شامل کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ یہ کتاب آج اور آنے والی نسلوں کے لئے انتہائی کارآمد کتاب ہے ۔انہوں نے پروفیسر منظور الامین کو اس کی اشاعت پر دلی مبارکباد پیش کی۔ پروفیسر سید مجاور حسین رضوی ،سابق ،صدر ،شعبہ ،حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے پروفیسر امین کی فاصلاتی بصیرت کو خراجِ تحسین پیش کر تے ہوئے انہیں نشریات بالخصوص الکٹرانک میڈیا کا ایک بہترین مدرس اور پروفیسر قرار دیا۔الہٰ آباد سے روانہ کردہ اپنے خیالات میں جسے ان کی شاگرد ڈاکٹر نکہت جہاں ،اسوسیٹ پروفیسر، نظامت فاصلاتی تعلیم ، مولانا آز اد نیشنل اردو یونیورسٹی نے پیش کیا ۔پروفیسر رضوی نے منظور الامین کے دلکش اندازِبیان مثالوں اور اصطلاحات کی تشریح کے ساتھ ٹی وی کی مکمل تاریخ کو ایک دستاویز کی شکل میں منظرِ عام پر لانے کے لئے دلی مبارکباد پیش کر تے ہوئے کہا کہ یہ کتاب ہندوستان میں ٹیلی ویثرن کے آغاز اور اس کے ارتقا ء پر کما حقہ روشنی ڈالتی ہے ۔ اس کتاب میں بعض ایسی چیزیں بھی شامل ہیں جن کے بارے میں اتنی شرح و بست کے ساتھ لکھنا بہت مشکل ہے ان کا اندازِ بیان اس قدر دلکش ہے کہ الفاظ کی سج دھج تشبیہات کی شعریت ،استعارات کی تاز گی کے باعث ایک سحر کا رانہ کیفیت پیدا ہو جا تی ہے ۔یہ کتاب اپنی معنویت کے اعتبار سے جہا ں بھی ماس میڈیا کا شعبہ ہے یقیناًداخلِ نصاب ہو گی ۔ڈاکٹر سید مصطفی کمال مدیر اعلیٰ ماہنامہ شگوفہ نے ’’با بائے نشریات‘‘عنوان سے پروفیسر امین کے فن اور شخصیت پر اظہارِ خیال کر تے ہوئے ان کی ہمہ جہت شخصیت اور الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے لئے ان کی نا قابلِ فراموش خدمات کو بھر پور خراجِ تحسین پیش کیا۔ڈاکٹر کما ل نے کہا کہ ان کے نام میں جو ندرت ہے وہی ان کے کارناموں میں ہے ۔انہوں نے اپنا کام اور ملازمت تخلیق کے طور پر انجام دی ہے ان کے یہاں لسانی شگفتگی اور معنویت کا حسین امتزاج ہے جو اس کتاب میں جگہ جگہ نظر آتا ہے ۔پروفیسر فاطمہ پروین ،سابق وائس پرنسپل و صدر ،شعبۂ اردو کالج آف آرٹس،جامعہ عثمانیہ نے اس کتاب کو منظور الامین کے نشریاتی سفر کا احوال قراردیا۔ انہوں نے امین صاحت کی کثیرالجہات شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کر تے ہوئے اس کتاب کو ادب اور فن کا منفرد امتزاج قرار دیا۔پروفیسر فاطمہ نے کہا کہ امین صاحب نے اس کتاب کا آغاز آواز سے کیا ہے جو باون تکنیکی موضوعات کا احاطہ کر تی ہے ۔اس کے لئے انہوں نے ادبی اظہارِ خیال کو جگہ دی ہے ۔ان کی یہ کتاب موجودہ عہد کے تمام ابلاغی وسائل پر محیط ہے ۔مہانِ اعزازی باشا نواب خان اسپیشل میٹرو پولیٹین مجسٹریٹ ،کرمینل کورٹ ،نام پلی ،حیدرآباد نے کہا کہ ٹیلی ویثرن آٹھواں عجوبہ نہیں بلکہ امین صاحب کی یہ تخلیق ایک عجوبہ ہے کیوں کہ اس کتاب میں منظور صاحب نے جس گہرائی اور گیرائی کے ذریعہ ٹیلی ویثرن سے متعلق چھوٹی چھوٹی باتوں کو شامل کیا ہے وہ اپنے اندر ان کے فکری اور تخلیقی رحجان کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔انہوں نے اس کتاب کی اشاعت پر امین صاحب کو مبارکباد پیش کی ۔ پروفیسر منظور الامین نے اپنی نوعیت کی سادہ مگر انتہائی پر اثر تقریب کے اختتام پر ہدیہ تشکر پیش کر تے ہوئے اپنی زندگی اور ملازمت سے متعلق گوشوں پر روشنی ڈالی ۔ریڈیواور ٹیلی ویثرن کے حوالے سے اپنے مشاہدات اور تجربات کو بیان کر تے ہوئے اس کتاب کی اشاعت اور اس کی رونمائی میں شریک تمام حاضرین کا فرداً فرداً شکریہ ادا کیا ۔اس موقع پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے جناب محمد مجاہد علی (میڈیا سنٹر)،ڈاکٹر اسلم پرویز ،سی پی ڈی یو ایم ٹی، ڈاکٹر زین العابدین ،(اولڈ بائز اسو سیشن ) اور الکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے نمائندوں کی جانب سے جناب اسلم فرشوری نے پروفیسر منظور الامین کو تہنیت پیش کی جبکہ طلبہ اور ریسرچ اسکالرس کی جانب سے جناب سید عبدالحمید ،حافظ محمد منیر اور جناب شاہ عالم نے گلہائے عقیدت پیش کئے ۔اس تقریب میں پروفیسر ریحانہ سلطانہ،ڈین اردو یونیورسٹی ، ڈاکٹر پی ایس منور حسین، ڈپٹی رجسٹرار، ڈائرکٹر ،انسٹرکشنل،میڈیا سنٹر ،مانو، ڈاکٹرراجندر مشرا ،صدر ،شعبۂ صحافت ،ڈاکٹر احتشام احمد خان، پراکٹراردو یونیورسٹی ڈاکٹر عبدالواحد اورڈاکٹر محمدمشاہد کے علاوہ تمام جامعات کے اسکالرس ادبا،شعرا اور دانشوروں کے علاوہ صحافیوں اور پروفیسر منظور الامین کے احباب کی کثیر تعداد شریک تھی۔کنوینر،ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد،ڈپٹی ڈائرکٹر ،مرکز ییشہ ورانہ فروغ برائے اساتذۂ اردو ذریعۂ تعلیم،مولانا آز اد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اظہارِ تشکر پر رات دیر گئے اس تقریب کا اختتام عمل میں آیا۔


غالب کی شاعری کے نئے زاویوں کو سمجھنے میں جدید ترقی معاون

فلسفیانہ اور شاعرانہ عروج پر جناب حسن عبداللہ کا اردو یونیورسٹی میں لکچر

حیدرآباد، 28؍ اگست (فکروخبر/ذرائع) مرزا اسد اللہ خان غالبؔ ترقی اور ثبات کے شاعر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بدلتے دور نے ان کی شاعرانہ عظمت کو بڑھاتے ہوئے شاعری کے نئے زاویوں کو وا کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جناب حسن عبداللہ نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں کل ایک خصوصی نشست کے دوران کیا۔ پروفیسر محمد میاں، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ جناب حسن عبداللہ (دہلی) بہ اعتبار پیشہ انجینئرہیں، لیکن غالب سے ان کو دور طالب علمی ہی سے شغف رہا ہے۔ ان کی انگریزی تصنیف ’’The Evolution of Ghalib‘‘ (غالب کا ارتقاء) بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہے۔ انہوں نے کالی داس گپتا رضا کی تحقیق کی مدد سے مرزا غالب کی شاعری کا تاریخی ادوار پر مبنی مطالعہ کیا ہے۔ پاور پوائنٹ کے ذریعہ پیش کردہ لکچر میں انہوں نے غالب کی اردو شاعری کے 4 نمایاں ادوار کی ’’آغاز، تلاش، نکھار اور شفق‘‘ کی حیثیت سے نشاندہی کی۔ غالب کے فلسفیانہ عروج کا حوالہ دیتے ہوئے جناب حسن عبداللہ نے بتایا کہ یہ دور 1826-28 سے قبل تقریباً 30 سال پر محیط ہے، جس میں غالب ایک جدلیاتی مفکرکے طور پر نظر آتے ہیں۔ وہ دوام کے بجائے تبدیلی اور ارتقاء کے حامی ہیں اور کہتے ہیں ’’نہ ہومرنا تو جینے کا مزہ کیا‘‘ ۔ وہ نفی سے اثبات کی تلاش کرتے ہیں۔ غالب کی نظر میں انسان تضادات کا مجموعہ اور ارتقاء کا حامل ہے۔ انسان اور دنیا ہی ان کی فکر کا مرکز ہیں۔ ان کی نظر میں ارتقاء کا عمل ایک مسلسل کیفیت کا نام ہے، جو جاری ہے۔ جناب حسن عبداللہ نے اس سلسلے میں غالب کے مشہور شعر ’’نفی سے کرتی ہے، اثبات تراوش گویا:: دی ہے جائے دہن اس کو دمِ ایجاد نہیں‘‘ کا حوالہ دیا۔ تبدل کے ذریعہ ارتقاء، نفی سے اثبات کے ابھرنے کی علامت ہے۔ تضاد، تحریک، ارتقاء یا ترقی کا اصل سبب ہے۔ یہی غالب کے فلسفہ کا نچوڑ ہے۔ غالب کی شاعری بھی اسی فلسفیانہ نکتہ پر مبنی ہے۔ ان کا لفظوں کا جوڑ توڑ، تضادات کا اجتماع، نفی کی پیشکشی اور نفی کی نفی ہی جدلیاتی حسن کے شاہکار ہیں۔ غالب کے ایسے کئی اشعار ہیں جو جدلیاتی فکر کی خوبصورت مثال ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے غالب کے شعر ’’ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا:: نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا‘‘ کا حوالہ دیا۔ جہاں تک زندگی کا معاملہ ہے غالب نے دونوں انتہائی نظریات کو مسترد کرتے ہوئے ایک قابل قبول متبادل پیش کیا ہے۔ ان کی نظر میں موت ایک فطری امر اور ارتقاء کا حصہ ہے۔ ہر شئے جو پیدا ہوئی ہے اسے مرنا ہے۔ کسی بھی شئے کو دوام نہیں۔ ہر آغاز کا خاتمہ یقینی ہے۔ غالب کے خیال میں اس خاتمے سے نہ تو ڈرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی گھبرانے کی۔ جناب حسن عبداللہ نے غالب کے شاعرانہ عروج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ دور مابعد 1847-51 کا ہے یعنی 50 سے 53 سال پر محیط ہے۔ یہ غالب کے فنکارانہ عروج کا دور تھا، جہاں وہ کہتے ہیں ’’نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا:: ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‘‘۔ غالب کی نظر میں انسانی وجود ہی خدا کے وجودِ ازلی و ابدی کو اہمیت بخشتا ہے۔ غالب نے اپنی شاعری میں غمِ جاناں اور غم روزگار دونوں کو جگہ دی ہے۔ ان کا دل دونوں کے دکھ سمجھتا ہے۔ انسان کے لیے صرف محبت کا جذبہ کافی نہیں، مادی ضروریات کی تکمیل بھی ضروری ہے۔ جناب حسن عبداللہ نے لکچر کے آخر میں کہا کہ غالب کی یہی خصوصیات انہیں اردو کا مقبول ترین شاعر بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی وہ اپنی معنویت اور دلچسپی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ابتداء میں پروفیسر محمد میاں نے مہمان مقرر کا تعارف پیش کیا اور ان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جناب حسن عبداللہ، جامعہ ملیہ کے اردو میڈیم اسکول کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ اس موقع پر مدعو حاضرین نے شرکت کی اور مقرر کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کیا۔ اس موقع پر پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد، پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، رجسٹرار کے علاوہ ڈینس، پروفیسرس اور شہر سے آنے والی ممتاز شخصیتیں موجود تھیں۔ عابد عبدالواسع ، اسسٹنٹ پبلک ریلیشنز آفیسر نے کاروائی چلائی اور شکریہ ادا کیا۔


این سی پی اور کانگریس کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کا فیصلہ 9ستمبر تک متوقع 

ممبئی۔28اگست(فکروخبر/ذرائع) راشٹر وادی کانگریس پارٹی اور کانگریس کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کا معاملہ اب آئندہ ہفتے حل ہوگا اوراسی کے ساتھ راشٹر وادی کانگریس پارٹی اپنے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کردے گی۔ راشٹر وادی کانگریس پارٹی کے قومی ترجمان نواب ملک نے آج پارٹی کے صدر دفتر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں مذکورہ بالااعلان کرتے ہوئے کہا دونوں پارٹیوں کے اعلیٰ لیڈران کے درمیان گزشتہ 20اور 21تاریخ کے درمیان اس تعلق سے میٹنگ ہوئی تھی ، جس میں سیٹوں کی تعداد کا حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا تھا۔ اس کے بعد سے وقتا فوقتا اس تعلق سے گفتگو جاری تھی، اب آئندہ ہفتے اس تعلق سے آئندہ ہفتے تک حتمی فیصلہ ہوجائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان سیٹوں کے تقسیم کا فیصلہ ہونے کے فوری بعد ہم اپنے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کردیں گے۔انہوں نے کہا کہ این سی پی کا موقف بالکل واضح ہے کہ ہم متحدہ طور پر آئندہ اسمبلی انتخابات میں حصہ لیں گے، سیٹوں کے بٹوارے کے معاملے میں ہماری جانب سے نصف سیٹوں کا مطالبہ ہے ، مگر حتمی فیصلہ پارٹی کے سربراہان کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیٹوں کی تقسیم کا جو فیصلہ ہوگا، اس تعلق سے ہم اپنے امیدواروں کو میدان میں اتاریں گے، لیکن اس کے لئے ہم نے پورے مہاراشٹر کی تمام سیٹوں سے امیدواروں سے درخواست طلب کئے تھے جس کے تحت 1775امیدواروں نے انتخاب لڑنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ان خواہشمند امیدوراوں سے گزشتہ 25سے 27اگست کے درمیان پارٹی کے فدر دفتر میں ملاقات ہوئی جس میں 1740امیدوار شریک ہوئے ۔ اس کے ذریعہ پارٹی کویہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ کس امیدوار کوٹکٹ دیا جائے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا