English   /   Kannada   /   Nawayathi

بیدر میں آج 68ویں جشن یومِ آزادی ہندکو نہایت ہی جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا(مزید خبریں )

share with us

اس تقریب میں بیدر کے رکن اسمبلی مسٹر گرپادپا ناگمار پلی ‘ بسواکلیان کے رکن اسمبلی ملیکارجن کھوبا‘ بیدر کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر پی سی جعفر اور بیدر کے ایس پی مسٹر سدھیر کمار ریڈی کے علاوہ بیدر ضلع کی دیگر قد آور شخصیتیں موجود تھیں۔اسکولی طلباء ‘پولیس جوانوں اور ہوم گارڈو این سی سی کے جوانوں نے اس موقع پر رنگا رنگ پروگرام پیش کئے ۔


باؤلی کو گہرا کرنے کا کام ادھورا: حادثے کے امکانات: بلدیہ لاپرواہ

بیدر۔15 ؍اگست۔ (فکروخبرنیوز)۔بیدر شہر کے بہمنی روڈ پر واقع دال میل کالونی میں کئی سال قدیم پانی کی باؤلی ہے ۔ کالونی کے مکینوں اس باؤلی سے پانی کی بہتر سہولت فراہم ہورہی تھی ۔ گزشتہ دو سال سے بیدر شہرمیں کم بارش ہونے کے باعث سے اس باؤلی میں پانی کی مقدا کم گئی تھی اور موسمِ گرما میں یہاں کے مکینوں کو پانی کی بڑی تکلیف ہوتی ہے ۔ اس سلسلہ میں یہاں کے مکینوں نے بیدر ضلع انتظامیہ اور محکمہ بلدیہ کی توجہ اس جانب کرائی جس کے باعث محکمہ بلدیہ کی جانب سے ایک مہینہ قبل اس باؤلی کو اور تھوڑا گہرا کئے جانے کام کام شروع کیا گیا تھا‘ محکمہ بلدیہ بیدر کی جانب سے صرف6 دن ہی باؤلی کو گہرا کرنے کے ادھورا کام باقی رکھ کر مذکورہ باؤلی کو کھلا چھوڑ دیا گیا ۔اس کے اطراف باؤنڈری وال بھی نہیں لگائی گئی ‘جبکہ باؤلی کے اطراف مکانات ہیں اور یہاں کالونی میں رہنے والے لوگوں کی چہل پہل رہتی ہے جس سے انسانی جان کو خطرہ تھا یہاں کے مکینوں نے بلدیہ بیدر کمشنر کی اس لاپرواہی سے برہم ہوکراس کی شکایت کرنے کے بعد ا س باؤلی پر ٹین سے عارضی طور پر ڈھانپ دیا گیا ۔گزشتہ دنوں ریاست میں کھلے بورویلس کو فوری بند کرنے کے احکام جاری کئے گئے تھے۔ا سکے پیشِ نظر مجلس بلدیہ کے کمشنر نے اس باؤلی کو بند کرنے کاارادہ ظاہر کیا ۔ بعد ازاں ایک جج کے ذریعے اس باؤلی کا معائنہ کرایا گیا ‘ فوری طورپر یہاں کے مکین جناب قاضی علی الدین کالونی سب ایڈیٹر سرخ زمین نے تمام افراد کے ساتھ معائنہ کرنے آئے جج سے ملاقات کرکے یہاں پر ہورہی پینے کے پانی کی قلت اور مجلس بلدیہ کے کمشنر کی لاپرواہی سے ادھورا کام رکھ کرکر کھلی باؤلی چھو ڑ کر چلے جانے سے انسانی جان کو نقصان ہونے کے اندیشہ سے واقف کرایا اور بتایا کہ بر وقت یہاں کے مکین اگر اس جانب توجہ نہیں کرتے تو انسانی جان کو قطرہ لاحق تھا ۔مجلس بلدیہ بیدر کے کمشنر کی بلا وجہ ضد اور عوامی بنیادی سہولیات سے عدم دلچسپی نے اس باؤلی کو بند کرنے کوشش کی جارہی ہے ۔ آج جناب قاضی علی الدین نے اس کالونی کے تمام مکینوں کی نمائندگی کرنے کیلئے جشن یومِ آزادی ہند کے موقع پر بیدر کے نہرو اسٹیڈیم میں بیدر ضلع انچارج منسٹر اوما شری سے ملاقات کرتے ہوئے نمائندگی کی اور بیدر ضلع انچارج منسٹر سے مجلسِ بلدیہ بیدرکے کمشنر کی عوامی دشمنی اور اور لاپرواہی باؤلی کو بند کرنے کی ضد کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو سال سے بیدر شہر میں بارش خاطر خواہ نہیں ہونے کے باعث بیدر شہر کی باؤلیو ں میں پانی کی مقدار کم ہوگئی ہے ۔ باؤلیو ں میں پانی سُکھ گیا ہے جس کے باعث اس قدیم باؤلی کو اور گہرا کرکے پانی کی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے‘ اس باؤلی کو فوری طور پر اور گہرا کرکے پانی کی مقدار کو بڑھا یا جائے ۔اس باؤلی کو بند نہ کیا جائے ۔اس ضمن میں بیدر ضلع انچارج منسٹر اوماشری کو ایک یادداشت بھی دی گئی۔جس فوری عمل کرتے ہوئے اوما شری بیدر ضلع انچارج منسٹر نے بیدر کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر پی سی جعفر کو ہدایت دی کہ فوری عوامی سہولیات کا خیال کرتے ہوئے ا س جانب مثبت اقدام اُٹھایاجائے اور یہا ں کی عوام کو اس باؤلی سے پانی کی سہولت فراہم کرانے کاکام کیا جائے ۔ بیدر ضلع انچارج منسٹر کی اس ہدات پر ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ وہ مذکودہ باؤلی پرپہنچ کرمعائنہ کریں گے اور پانی کی سہولت فراہم کریں ۔*** 


26؍اگست بروز بروز منگل بعد نمازِ مغرب جلسہ عام بعنوان ’’آزادی ہند میں علماء اکرام کا کردار ‘

بیدر۔15 ؍اگست۔ (فکروخبرنیوز)۔ حافظ عمر اشاعتی رکن عاملہ جمعیت العلماء ہند شاخ بیدر کے بموجب بیدر جمعیت العلماء ہند شاخ بیدر کی جانب سے مسجدِ لطیف پورہ بیدر میں ایک مشاورتی اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا۔اس مشاورتی اجلاس میں طئے پایا کہ 26؍اگست بروز بروز منگل بعد نمازِ مغرب بمقام مغل گارڈن فنکشن ہال بیدر میں ایک جلسہ عام بعنوان ’’آزادی ہند میں علماء اکرام کا کردار ‘‘انعقاد عمل میں آئے گا۔اس جلسہ عام میں مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے مولانا زین العابدین سرپرستِ صوبہ کرناٹک جمعیت العلما ء ہند ‘مولانا فتخار صدر صوبہ کرناٹک جمعیت اعلماء ہند ‘ حافظ پیر شبیر رکن قانون ساز کونسل آندھراپردیش و صدر جمعیت العلماء ہند آندھراپردیش و تلنگانہ ‘حافظ ندیم صدیقی صدر جمعیت اعلماء ہند صوبہ مہاراشٹرا کے علاوہ مولانا شاکر نائب صدر ‘مولانا شریف صدر جمعیت العلماء ہندگُلبرگہ شرکت کریں گے اور مذکورہ بالا عنوان کے تحت پرمغز خطاب فرمائیں گے ۔جلسہ اسی دن26؍اگست کو جمعیت العلماء ہندبیدر کے صدر صوبہ کرناٹک جمعیت العلماء ہند کی نگرانی میں انتخاب عمل میں آئے گا۔اس ضمن میں مزید تفصیلات کیلئے ڈاکٹر باقی خازن جمعیت اعلماء ہند شاخ بیدر990239514اور رکن عاملہ حافظ عمر اشاعتی 9900766946پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔***


سرکاری اردو اسکول کو زیادہ سے زیادہ کھولاجائے

بیدر۔15 ؍اگست۔ (فکروخبرنیوز)۔گورنمنٹ ارد واسکول کو بندکرانے کیلئے جوسازش رچی گئی ہے ،اس سے محبان اردو کے علاوہ اردو زبان نہ جاننے والوں کو بھی تکلیف پہنچ رہی ہے۔ اور اس صحافتی کانفرنس کو طلب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سرکاری اردو اسکول کو زیادہ سے زیادہ کھولاجائے۔خصوصاًپرانے میسور میں ہائیرپرائمری اسکول کے بعد سرکاری اردو ہائی اسکول نہیں ہوتے ہیں ۔ضرورت یہ ہے کہ پرانے میسور اور ادھر کے دیگر علاقوں میں سرکاری اردو اسکولوں کو کھولاجائے۔اس مطالبہ کے بجائے اردو اسکولوں کو بندکرنے کامطالبہ دراصل حکومت کرناٹک کو بدنام کرنے کی بات ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔جناب نثاراحمد کلیم صدر انجمن ترقی اردو ہند بیدر نے مذکورہ باتیں ایک پریس کانفرنس میں کہی۔ یاران ادب ،انجمن ترقی اردو ہند بیدر، ادارۂ ادب اسلامی ہند بید ر، این آرآئیز اردو اکیڈمی ، بزم غزالاں بیدر ، مسلم ہیومن رائٹس اسوسی ایشن بیدر، اور صاحب ایجوکیشن سوسائٹی بیدر کی جانب سے یہ پریس کانفرنس طلب کی گئی تھی ۔ انھوں نے مزید کہاکہ حکومت کرناٹک نے اردواکیڈمی کی تشکیل نو کے علاوہ اردو شعراء اور ادباء کے لئے مواقع فراہم کئے ہیں ۔اردو مدارس میں کنڑا ٹیچرس کی کمی ہے ، یہ کمی پوری ہونی چاہیے۔ جبکہ عزیز سیٹھ کے زمانے میں اردو اسکولوں میں کنڑا ٹیچرس کے تقرر کے لئے مہم چلائی گئی جو کامیاب رہی ۔ اردو کی ترقی سے اردو زبان کی ترقی ممکن ہے۔ کنڑا علاقائی زبان ہے جس کو سیکھنا ہوگا ۔اس موقع پر صحافیوں نے مذکورہ بالا ذمہ داران سے سوال کیا گیا کہ اُردو تنظیموں کی جانب سے سرکاری اردو مدارس میں طلباء کی قلیل تعداد ہوتی ہے جبکہ دیگرامدادی و نجی مدارس میں زیادہ ہوتی ہے جس سے سرکاری اُردو اسکولوں میں طلباء کی تعداد نہیں بڑھ رہی ہے اس جانب اگر اُردو تنظیمیں اولیاء طلباء میں اُردو زبان کے تئیں شعور بیداری پروگرام کرتے ہیں تو سرکاری اُردو مدار س کو باقی رکھنے کیلئے مثبت اقدام ہوسکتا ہے ۔صحافیوں نے ایک اور سواکل یہ کیا کہ چند سرکاری مدارس ایسے بھی ہیں جہاں طلباء کی تعداد زیادہ ہے مگر اساتذہ کی تعداد کم ہے یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ سرکاری اُردو مدارس میں طلباء کو تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے امدادی مدارس طلباء کی تعداد کم ہونے کے باعث جو اساتذہ ایکسس میں ہیں انھیں ایسے سرکاری اُردو مدارس میں تقرر کیا جاسکتا ہے ۔اور دیکھا جارہا ہے کہ حکومت کی جانب سے اُردو مدارس میں صرف دوپہر کے کھانے اور بنیادی سہولیات کا معائنہ ہوتا ہے یہ اچھا اقدام ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر مدارس میں تعلیم کا معیار کا معائنہ بھی کیا جاتا ہے تو اور بھی زیادہ مثبت نتائج سگامنے آئیں گے ۔ صحافیوں کے سوالات کاجواب دیتے ہوئے نثاراحمد کلیم نے کہاکہ آپ کے مشورہ کی روشنی میں آئندہ اردو تنظیمیں اردواسکولوں کیلئے مہم چلائیں گے ۔ اولیائے طلباء کو چاہیے کہ وہ بھی سوچیں کہ اردو اسکولوں کی ترقی کیلئے کیاکیاجاسکتاہے۔ سرکاری اساتذہ کی بھی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ معیار تعلیم پر توجہ دیں ۔ پریس میٹ میں نثاراحمدکلیم کے علاوہ محمدیوسف رحیم بیدری ،محمد امیرالدین امیر،مرزا صفی اللہ بیگ ، حامد سلیم ، محمد مجاہد مسعوداور نذیراحمد شہ نشین پرموجودتھے۔***


مشاہرہ کو مسدود کرنے کا فیصلہ مساجد کمیٹیوں کا یہ اقدام سراسر غلط اور غیر منصفانہ:مولانا محمد تصدق ندوی 

بیدر۔15 ؍اگست۔ (فکروخبرنیوز)۔مولانا محمد تصدق ندوی امیر علماء ویلفر سوسائٹی چٹگوپہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جن مساجد کے ائمہ و مؤذنین کو سرکاری تنخواہ جاری کی گئی ہے ان میں بعض مساجد کے ذمہ داروں نے کمیٹی کے ذریعہ یا متولی کے ذریعہ موصول ہونے والے مشاہرہ کے مسدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے مساجد کمیٹیوں کا یہ اقدام سراسر غلط اور غیر منصفانہ ہے ۔ اوّل تو مسجد کمیٹیوں کے ذریعہ موصول ہونے والی رقم ہی ضروریات زندگی کیلئے نا کافی ہے آئے دن گرانی آسمان کو چھونے لگی ہے ، ہونا تو یہ چاہئے کے ائمہ و مؤذنین حضرات کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے معقول و معیار ی تنخواہ دی جاتی جس سے ان کی کلی ضروریات زندگی کی تکمیل ہو اور فکر معاش سے بے نیاز ہوکر یکسوئی ودل جمعی کے ساتھ دینی خدمات انجام دے سکیں ، منصب امامت کو اتنا گھٹا دیا گیا ہے کہ سماج میں اس کی کوئی حیثیت و وقعت نہیں رہی ، ائمہ اکرام کی نا قدردانی کی وجہ سے امت کا بڑا طبقہ اپنی اولاد کو امام بنانے سے کنارہ کشی اختیار کر رہا ہے ، آج ائمہ مساجد کی تنخواہوں کا کیا معیار ہے وہ ہر ایک پر عیاں ہے آج امت کا پیسہ بے رسومات میں نام نمود ،جھوٹی شان و شوکت کیلئے پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اگر ان سے مسجد کے انتظامی امور امام و موذن کی تنخواہ کیلئے کہا جائے تو پیشانی پر بَل پڑتے ہیں اور ناگواری کا اظہار کیا جاتا ہے ،جبکہ یہی توشۂ آخرت ہے، انتظامی کمیٹیوں کو چاہئے کہ محلہ کے صاحبِ ثروت و صاحبِ مال کو اس جانب توجہ دلائیں ،مساجد کی غیر ضروری تزئین میں بے جا پیسہ خر چ کرنے کے بجائے امام و موذن کی خدمات کو سرہاتے ہوئے ان کی تنخواہوں کا معیار بڑھایا جائے ،اگر مساجد کمیٹیاں سرکاری تنخواہ پر تکیہ لگا کر بیٹھ جائیں گی تو آئے دن امت میں مساجد کیلئے خرچ کرنے کا مزاج بھی ختم ہو جائے گا، اور کوئی ضروری نہیں ہے کہ سرکاری تنخواہ کا یہ سلسلہ ہمیشہ کیلئے جاری رہے دوسری سرکار اس کو منقطع بھی کر سکتی ہے تب مساجد کمیٹیوں کو امام و موذن کی تنخواہوں کیلئے از سرنودوڑ دھوپ کرنا پڑے گا لہٰذا مساجد کمیٹیوں کو چاہئے کہ حکومت کی طرف سے ملنے والی رقم کو سرکاری اعزاز سمجھ کر ائمہ و مؤذنین کے حق میں دست بردار ہو جائیں اور کمیٹیوں کی جانب سے دی جانے والی تنخواہ بلا کسی تخفیف و ترمیم کے جاری رکھی جائے بلکہ گرانی کے پیش نظر مزید اس میں کچھ اضافہ کیا جائے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا