English   /   Kannada   /   Nawayathi

مولوی کاشف رکن الدین کی جدائی پر دلی احساسات

share with us
moulavi_kashif_ruknuddeein_ki_judayi_par_dili_ehsasaat_, kashif ruknuddin, jamia islamia bhatkal, nadwa , nadwa collage,

از:معاویہ ممبئی

متعلم تخصص فی التفسیر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو

 یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ موت سے کوئی متنفس محفوظ نہیں رہ سکتا اس عالم اب وگل سے جدائی یقینی ہے تو اس دنیا سے  اسے جانا ضرور ہے  كل نفس ذائقه الموت بس اگے پیچھے کی بات ہے۔  اسی مقدر امر نے ہمارے عزیزم مرحوم کاشف رکن الدین رحمہ اللہ کو ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا اور وہ اس دار فانی کو چھوڑ کر دار بقا کی طرف کوچ کرگیا ۔

    21 اپریل کو موبائل پر  بذریعہ واٹساپ یہ المناک خبر موصول ہوئی تو دیکھ کر عقل دنگ رہ گئی، میں نے  اطمینان قلبی کے لیے مولوی عمیس سلمہ  کو کال ملایا تو انہوں نے یہ اطلاع دی کہ کاشف اور اس کا ماموں زاد بھائی سمندر میں لاپتہ ہے سن کر پریشان ہوا، فورا اللہ کے پاس رجوع کیا، اے میرے پیارے اللہ..!  کاشف اور  اور ان کے خالہ زاد بھائی مرحوم انعام اللہ عسکری کو  اپنے حفظ و امان میں رکھیو، بس میں اس انتظار میں تھا کہ اب اچھی خبر موصول ہوگی.  کچھ دیر کے بعد خالہ زاد بھائی کے انتقال کی خبر موصول ہوئی تو مزید قلب بے چین ہو گیا.   إنا لله و انا اليه راجعون ؛لیکن اللہ سے یقین باندھا تھا کہ کاشف ضرور ملے گا اور اپنی زندگی کے آگے کے لمحات طے کرے گا، بس یہی سوچ میں وقت گزر رہا تھا، گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جا رہی تھی،  لیکن اللہ تعالی کی ذات پر مکمل یقین تھا کہ کاشف ضرور ملے گا پر رات کا ایک پہر گزر چکا مگر کاشف کے متعلق کوئی خبر نہ مل سکی، فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں اپنے برادر اکبر مولانا طلحہ صاحب ندوی سے گفتگو میں لگا ہوا تھا، اچانک برادر اصغرمولوی حمزہ سلمہ ندوی  نے خبر دی کہ بھائی کاشف کا انتقال ہو چکا ہے اور ان کی لاش بے جاں مل چکی ہے یہ سننا تھا کہ ایک سکوت سا طاری ہو گیا، اس وقت حزن کا ایسا عالم تھا گویا یہ جسم میں سرایت کر گیا ہے اب جسم میں خون کی جگہ غم بہ رہا ہے ۔

زخم دل چا کے جگر جا کے دکھائیں کس کو

قصہ درد سنائیں تو سنائیں کس کو

    کاشف کی تصویریں  میرے ذہن میں گردش کرنے لگی اس کی محبت شفقت اس کا بولنا چلنا اس کی سادگی بے تکلفی تواضع انکساری خشوع و خضوع یاد آنے لگا۔

 ہم چوں کہ جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور سے دارالعلوم ندوہ العلماء پہنچے تھے اس لئے کاشف رکن الدین سے میرا کوئی ربط و تعلق نہیں تھا، لیکن  گزشتہ سال تکمیل میں ہمارے درمیان یارانہ تعلقات قائم ہوۓ، پھر دھیرے دھیرے انسیت بڑھنے لگی، پوچھ  تاچھ  ہونے لگی وقت کے ساتھ ساتھ ہم ایک دوسرے کے ہم راز و ہم ساز بن گئے ، ہمارے درمیان مذاق مستی ہونے لگی لیکن میں دیکھتا تھا کہ وہ مذاق مستی بھی ایک دائرے میں کرتا تھا تاکہ سامنے والے کو اس کی ذات سے کوئی اذیت نہ پہنچے بہت کم ہنسی مذاق کرتا تھا اور اپنا وقت پڑھائی میں لگاتا تھا، کوئی گھنٹہ خالی ہوتا یا کوئی استاد پڑھا کر چلا جاتا تو وہ فورا اپنی کوئی غیر درسی کتاب پڑھتا یا قران مجید کی تلاوت شروع کردیتا، اساتذہ کرام کے سامنے بڑے  ادب سے بیٹھتا، شوق ذوق کے ساتھ دروس کی سماعت کرتا، مجھے یاد نہیں ہے کہ شاید  کسی  استاد نے اسے ڈانٹا ہو سستی یا کاہلی کی بنا پر بالکل نہیں۔

 کاشف کو حصول علم کا ایک عجیب ہی شوق تھا کیونکہ جب بھی میں انگریزی یا عربی مضامین یاد کرتا تو فورا پوچھتا کہ کیا یاد کر رہے ہو، کیا پڑھ رہے ہو ..؟ خاص کر کے انگریزی کے متعلق سوال کرتا اور پوچھتا کہ مجھے بھی سیکھنا ہے کیا کروں کس سے سیکھوں ..؟ بندہ ظاہری و باطنی دونوں اعتبار سے یکساں عکس جمیل تھا۔

 ایک دفعہ کی بات ہے دوران کلاس اس نے مجھے ایک رقعہ  لکھ کر دیا اور دینے سے پہلے کہا کہ دیکھ یہ رقعہ کسی کو نہیں دینا اور نہ ہی پڑھ کر سنانا اور پڑھنے کے بعد مجھے واپس دینا اور کسی سے  شیئر بھی نہ کرنا، آج مجبوراً میں شیئر کررہا ہوں ، دل کو آج بھی یہ گوارا نہیں ہے کہ میں اس راز کو فاش کروں، پر اس کی خوبی کو کب تک چھپا کر رکھوں ۔رقعہ میں لکھا تھا "سلام مسنون! ہم آپ کی خدمت میں ایک ہدیہ پیش کر رہے ہیں امید ہے وہ ہدیہ اپ قبول کرے پر کسی کو نہ بتائے  تحریر پڑھنے کے دوران میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایسا کیا ہدیہ ہو سکتا ہے..؟ تو رقعہ  کے آخیر میں لکھا ہوا تھا کہ وہ ہدیہ جس کی میں بات کر رہا ہوں میری دعا ہے اپ کو قبول ہے نا...؟ تو میں پڑھ کر بڑا ہنسا اور اس کو مذاقا طنزیہ جملہ کہنے لگا پر اسی پر بس نہیں۔ ساتویں گھنٹے کے آخر میں اس نے مجھ سے ملاقات کر کے ہاتھ میں کاغذوں سے بھری کوئی چیز رکھی  اور کہا دوستی کا واسطہ یہاں نہیں کھولنا میں سمجھا کہ یہ آج کی پرچیاں  ہیں، وہ پرچیاں  جس میں طلبہ روزانہ اساتذہ کرام سے استفسار کرتے ہیں، مجھے لگا یہ آج کا کچرا ہے جو میرے جیب میں ڈال رہا ہے پر کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں ایک بڑی رقم رکھی ہے میں ذرا سا پریشان ہوا، اور اس سے کہا کہ بھائی کاشف میں اس کا مستحق نہیں ہوں اس نے کہا یہ ہدیہ ہے میں نے بہت اصرار کیا پر اس کے آگے میری ایک نہ چلی اور وہ ہنستا مسکراتا ہوا کمرے کی طرف دوڑ پڑا۔

جب سالانہ امتحان قریب آیا طلبہ اپنی پڑھائی میں مگن ہو گئے ، ہم بھی اپنی کنڈلور کے ساتھیوں  کے ساتھ امتحان کی تیاری میں مشغول ہو گئے ،امتحان سے قریب چند دن قبل دوپہر کے وقت وہ مجھ سے ملا بڑا مایوس تھا کہنے لگا معاویہ امتحان کی تیاری کیسے کر رہے ہو.؟ میں نے کہا ہم مذاکرہ کر رہے ہیں، تو کہنے لگا کیا مجھے اجازت ہے.؟  میں نے کہا کیوں نہیں  خوش آمدید ہے ..! تو مسکرا کر چلا گیا اور کہا کہ میں ضرور مذاکرے میں شرکت کروں گا.  پھر پابندی سے وہ مذاکرے میں شریک ہونے لگا اور توجہ کے ساتھ مذاکرہ سننے لگا،ایک خاص بات یہ تھی کہ جب اسے کوئی بات سمجھ میں نہ اتی تو مجھ سے یہ مولوی سراقہ برمارے سلمہ سے کان میں آہستہ سے پوچھتا تاکہ اس کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔

    امتحان شروع ہوا امتحان کے بعد وہ مجھ سے ملاقات کرتا تو میں اس سے ایک ہی بات کہتا اے کاشف باوا آج تو تو پیپر پھاڑ کر آیا ہے تو بہت ہنستا اور ہنستے ہوئے گزر جاتا،اسی طرح ہنستے مسکراتے ہوئے ہمارے امتحان کے ایام ختم ہوئے.  کیا پتہ تھا کہ یہ مذاکرہ کاشف کے ساتھ تکمیل کا اخری مذاکرہ ہے، پر قدرت کا فیصلہ یہ تھا کہ یہ مذاکرہ زندگی کا آخری مذاکرہ ثابت ہوا۔

خیر اخری ملاقات کر کے ہم  یہ کہتے ہوۓ جدا ہوئے کہ  انشاءاللہ اگلے سال ندوہ  میں ملاقات کریں گے۔

   ایک دفعہ اس نے رمضان میں رابطہ کیا اور مجھ سے راۓ دریافت کی کہ کس فن میں ایڈمیشن لوں؟ میں نے کہا کہ بھائی میں تفسیر میں لے رہا ہوں اس نے کہا کہ میں بھی تفسیر داخلہ لینا  چاہتا ہوں، کیونکہ تاریخ و دعوة  میں کافی طلبہ داخلہ لے چکے ہیں.  تو میں بھی خوش ہوا کہ چل اچھا ہے آجاؤ ہم ساتھ میں پڑھیں گے،مزید ہم نے کچھ عزائم بھی کئے تھے۔

وانا بفراقك يا كاشف ركن الدين لمحزونون

 

اللہ تعالیٰ اس کی بال بال مغفرت فرمائے ، قبر کو نور سے بھردے ، درجات بلند فرمائے اور اس کے والدین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا