English   /   Kannada   /   Nawayathi

موت کے بعد آنسو

share with us


  مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک
کرناٹک کے ٹمکورومیں ایک ہی کنبے کے پانچ افرادنے خودکشی کی ہے،ا ن کی خودکشی کی وجہ سے سودی لین دین ہے اور جو رقم انہوں نے قرض کے طورپرلی ہے وہ بھی محض5.1 لاکھ روپئے کی تھی،اس رقم پر سود پر سود بڑھتا گیا،جس کی ادائیگی،ان لوگوں کیلئے ناممکن ہوچکی تھی۔غریب نواز نامی نوجوان اس معمولی سی رقم کیلئے اپنے تین بچوں اور بیوی کے ساتھ خودکشی کرلی ہے،یہ واقعہ انسانیت سوزہی نہیں بلکہ ضمیر کو جھنجوڑنےوالاواقعہ ہے ۔جب تک انسان مجبوری کی حالت میں زندہ رہتاہے اُس وقت تک تو کوئی اُس کا پرسان حال نہیں رہتا،لیکن جب مرجاتاہے تو اُس کی لاش پر آنسوبہانےوالے لوگ آجاتے ہیں۔غریب نواز نے جو قرضہ لیاتھاوہ معمولی رقم ہے،ظاہر سی بات ہےکہ اس معمولی رقم سے وہ اپنا کاروبار بڑھناجاہ رہاتھا،ساتھ میں اس کے تین بچوں کی پڑھائی بھی چل رہی تھی،ایسے میں اس کی مجبوری اسے خودکشی کرنے کیلئے مجبورکرگئی ہے۔سماج میں غریب نواز جیسے ہزاروں لوگ موجودہیں جو اپنے وجود کو باقی رکھنے کیلئےجدوجہد کررہے ہیں۔کوئی اپنے کاروبارکو بڑھانے کیلئے کوشش کررہاہے تو کوئی دو وقت کی عزت کی روٹی کیلئے مجبورہے،کوئی اپنے بچوں کی پڑھائی کیلئے فکرمندہے توکوئی علاج کے مسائل کو لیکر پریشان ہے۔اس پریشان حال طبقے کے درمیان ایک طبقہ ایسابھی ہے جسے سماج،مالدار اور دولتمند طبقے کے طورپر جانتاہے۔جس قدر مالداروں میں مال بڑھتا رہتاہے اسی طرح سے غربت بھی بڑھتی رہتی ہے۔حالیہ ایک مطالعے کے مطابق دُنیامیں اس وقت صرف پانچ فیصد طبقہ ہی مالدارہے اور ان کا مال اگر وہ صحیح طریقے سے خرچ کریں تو چالیس فیصد غربت ختم ہوسکتی ہے۔مگر سماج کا یہ مالدارطبقہ صرف اور صرف پیسوں کا ضرب(ملٹی پلئی) کرناہی جانتاہے۔مسلم معاشرے میں بھی مالداروں کی کوئی کمی نہیں ہے،لیکن ان مالداروں کا مال صرف دکھائوے کیلئے ہے،اگریہ لوگ اپنے مالوں کازکوٰۃ بھی صحیح طریقے سے دینے لگیں گے تو یقین جانئے کہ مسلمانوں میں غربت کی شرح کم ہوسکتی ہےا ور سودکی وباء ختم ہوسکتی ہے۔غریب نواز جیسے لوگوں کی موت پر اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر سودلینے کی کیاضرورت تھی،آخر خودکشی کرنے کی کیا نوبت آگئی تھی؟یہ سوال پوچھنے میں آسان ہیں ،لیکن جب ان سوالات کی گہرائی میں جاکر دیکھیں گے تو اس کاسوال پوچھنےوالے خودہی ذمہ دارہوسکتے ہیں۔مسلمانوں کی شادیوں کو دیکھیں کہ دو تین ہزارلوگوں کی دعوت تو کرتے ہیں،لیکن دولوگوں کو بروقت کھاناکھلاناان کیلئے ناقابل قبول ہے۔زکوٰۃ دینے والے بھی ایک طرح سے مسلم معاشرےپرظلم کررہے ہیں،جو طریقہ اسلام میں زکوٰۃ کو لیکر بتایاگیاہے،اس طریقے پر عمل کرنےوالے لوگ چاول میں کنکرکے برابرہیں،اگر کسی کی زکوٰۃ10 ہزارروپئے نکلتی ہے تو وہ زکوٰۃ کی رقم کو پچاس لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں،جس سے زکوٰۃ لینےوالے کی نہ ضرورت پوری ہوتی ہے نہ ہی اگلے سال وہ زکوٰۃ لینےوالابن سکتاہے۔سودمعاشر ےمیں اس قدر عام ہوچکاہے کہ آج چھوٹی سی چھوٹی ضرورت کیلئےلوگ سود لینے کیلئے تیارہیں،کچھ لوگ مجبورہیں تو کچھ لوگوں کو مجبورکیاجاتاہے۔ہمارے سامنے ایک ایساہی واقعہ پیش آیاتھاجس میں ایک بیوہ خاتون اپنے بچوں کی پڑھائی کیلئے سنگھایعنی مائکروفائنانس میں سود پر قرض لیکر پڑھائی کروارہی تھی،اس کے پاس وسائل کی کمی تھی،جس کی وجہ سے وہ پہلے پہل تو گھروں کا کام کرکے اس کی ادائیگی کرنے کیلئے کوشش کرتی رہی،بعدمیں وہ خاتون بھیک مانگنے پر مجبورہوئی۔ایسے حالات ایک دونہیں،ایسی مثالیں نہ کہ برابرنہیں بلکہ ایسے لوگ سماج میں ہر جگہ مل جائینگے۔ان حالات میں مالدارطبقہ اُن لوگوں کی مددکیلئے آگے آئے جو اس سماج میں کچھ کرنے کے خواہشمندہیں،سماج میں جینا چاہتے ہیں،اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں،اپنا روزگارخودحاصل کرناچاہتے ہیں،اگر ان کی کوشش میں سماج کا مالدارطبقہ تھوڑابہت تعائون کرلیتاہے تو یقیناً سودجیسی وباء سے مسلمان محفوظ ہوجائینگے اور معاشرے میں سراُٹھاکر جینے کے قابل بنیں گے۔مالدارطبقہ بڑے پیمانے پر نہ صحیح ضرورتمندوں کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو پوراکرتاہے تویہ بہت بڑاکام ہوسکتاہے۔

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا