English   /   Kannada   /   Nawayathi

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی

share with us
hindustan, yaume aazadi, 15 august, independence day, jange azadi me musalmaaun ka kirdar,  ہندوستان ، ومِ آزادی ، پندرہ اگستٹ جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا کردار، جنگِ آزادی میں علماء کا کردار

        محمد نصر الله ندوی

            ہم جس ملک ہندوستان میں رہتے ہیں،یہ مختلف تہذیبوں کا گلدستہ ہے،یہاں ہر مذہب کے ماننے والے لوگ بستے ہیں،جن کو دستور نے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے،یہ ایک نہایت عظیم ملک ہے،جس کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا : سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

                  اس ملک کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے،اس کے چپہ چپہ پر سرفروشی کی داستان رقم ہے،اس ملک کی آزادی میں صرف خون کے قطرے ہی نہیں،بلکہ خون کی ندیاں بہائی گئی ہیں،آزادی کی داستان اتنی دل فگار اور دلدوز ہے کہ اس کو سننے کے بعد انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں!

                 جب اس ملک پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہوگیا اور سات سمندر پار سے آنے والے سفید انگریز، یہاں کے سیاہ وسپید کے مالک بن بیٹھے،تو سب سے پہلے جس نے انگریزی سامراج کے خلاف منظم لڑائی کا آغاز کیا، وہ نواب سراج الدولہ کینانا علی وردی خان تھے،انہوں نے کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج پر انگریزوں کے خلاف دھاوا بول دیا، جہاں انگریزوں نے پناہ لے رکھی تھی، اور ان کو بھاگنے کیلئے مجبور کردیا۔،اس کے بعد ان کے نواسے سرج الدولہ نے انگریزوں سے میدان جنگ میں مقابلہ کیا،تاریخ میں یہ واقعہ پلاسی کی جنگ سے جانا جاتا ہے، پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ نے انگریزوں کے چھکے چھڑا دیئے اور اتنی ہمت اور جواں مردی کا ثبوت دیا کہ ان کے دانت کھٹے کر دیئے،اس جنگ میں اگر چہ سراج الدولہ کو شکست ہوئی،لیکن انہوں نے بغاوت کی جو چنگاری بھڑکائی تھی،وہ ایک شعلہ میں تبدیل ہو گئی،1783 میں شیر ہندوستان ٹیپو سلطان نے میسور کا اقتدار سنبھالا اور انگریزوں کا جینا حرام کر دیا،وہ انگریزوں سے مقابلہ کرتے رہے اور پوری طاقت کے ساتھ ان کے سامنے ڈٹے رہے،ان کا ایک تاریخی جملہ ہے،جو آج بھی آزادی کے سپاہیوں کو ایک نیا حوصلہ عطا کرتا ہے،انہوں نے کہا تھا کہ شیر کے ایک دن کی زندگی،گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے،ٹیپو سلطان آخری سانس تک پوری ہمت کے ساتھ آزادی کیلئے جنگ کرتے رہے،لیکن آخر کار شہید ہو گئے،ان کی لاش پر کھڑے ہو کر انگریز وائے سرائے نے کہا تھا:

 آج سے ہندوستان ہمارا ہے!

                  ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد آزادی کی لڑائی کو شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کے رفقاء نے نئی توانائی عطا کی،1803 میں شاہ عبد العزیز نے فتوی دیا کہ ہندوستان دار الحرب ہے،اور انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے،اس فتوی کا ملک گیر اثرا ہوا اور ہر طرف سے انگریزوں کی زمین تنگ ہو نے لگی،اس فتوی کا اثر تھا کہ سید احمد شہید اپنے رفقاء کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے اور بالا کوٹ کی سرزمین پر جام شہادت نوش کیا،ان کی شہادت نے اپنا رنگ دکھایا اور علماء کرام میدان جنگ میں آگئے اور انگریزوں کے خلاف محاذ کھول دیا،1857 کی خونیں جنگ جس کو انگریزوں نے بغاوت کا نام دیا،آزادی کا ٹرننگ پوانٹ تھا،اس جنگ میں مولانا رحمت الله  کیرانوی،مولانا فضل حق خیر آبادی،حاجی امداد الله  مہاجر مکی،مولانا قاسم نانوتوی،مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا احمد الله مدراسی،مولانا یحیی علی اور مولانا جعفر تھانیسری نے نمایاں کردار کیا،یہ جنگ اتنی قیامت خیز تھی کہ لفظوں میں بیاں نہیں کیا جا سکتا،کشتوں کے پشتے لگ گئے،خون کی ندیاں بہ پڑیں،علماء کرام کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا،دلی سے لاہور تک کوئی ایسا درخت نہیں تھا،جس پر علماء کو پھانسی نہ دی گئی ہو،انگریزوں کو اس سے بھی تسلی نہیں ہوئی،انہوں نے کھولتے ہوئے تیل میں علماء کو ڈالا،توپوں کے دہانے ان کے جسم پر کھول دیئے اور ان کے پرخچے اڑا دیئے،خود انگریز مؤرخ نے لکھا ہے کہ علماء کے ہاتھ پیر باندھ دیئے جاتے اور ان کو توپوں کے سامنے رکھ دیا جاتا،ان کو کھولتے ہوئے تیل میں ڈالا جاتا،اور چند لمحوں جل کر وہ کباب بن جاتے!

                آزادی کی جنگ طویل عرصہ تک جاری رہی، اس کی تاریخ مسلمانوں کے خون سے عبارت ہے،یہ جنگ1857 کے بعد بھی جاری رہی اور انیسویں صدی کے آغاز میں برادران وطن کی شمولیت ہوئی،گاندھی جی کی قیادت میں بھارت چھوڑو  تحریک شروع ہوئی، جس میں مولانا محمد علی جوہر،مولانا محمد علی شوکت،مولانا عبد الباری فرنگی محلی اور مولانا ابو الکلام آزاد نے زبردست رول ادا کیا اور آخر کار انگریزوں کو یہاں سے بھاگنا پڑا، 1947 میں یہ ملک آزاد ہو گیا،لیکن افسوس کہ آزادی کے بعد حکومتوں کی طرف سے مسلسل مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا،ان کے حقوق کو پامال کیا گیا،ان کے ساتھ ظلم اور نا انصافی کو روا رکھا گیا،جنگ آزادی میں ان کی قربانیوں کو فراموش کردیا گیا،ان کی روشن تاریخ کو اوراق سے مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے،ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے،ان کی جان،مال اور آبرو پر دست درازی کی جارہی ہے،حتی کہ ان کے دین وشریعت پر حملہ کیا جارہا ہے،میوات  سے گروگرام تک،اترا کھنڈ سے مدھیہ پردیش تک،یوپی سے آسام تک ہر جگہ مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے،ان کے گھروں کو بلڈوز کیا جارہا ہے،نوجوانوں کو اندھا دھند گرفتار کیا جارہا ہے،ان کو بڑی تعداد میں پس زندان پہنچایا جارہا ہے،چلتی ٹرین میں مسلمانوں پر گولیاں برسائی جارہی ہیں،ان کا معاشی بائیکاٹ کیا جارہا ہے،ان کے آثار ونقوش کو کھرچ کھرچ کر مٹایا جارہا ہے،ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اگر اس ملک میں رہنا ہے تو ہمارے کلچر کو اختیار کرنا پڑے گا!

               یہ صورتحال ہے نہایت تکلیف دہ اور خطرناک ہے،ہمارے اجداد نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ہماری قربانیوں کا صلہ ہماری نسلوں کو اس طرح ملے گا،جس چمن کو مسلمانوں نے اپنے لہو سے سینچا تھا اور جس کی آبیاری میں اپنا سب کچھ لٹا دیا تھا،آج اسی چمن میں ان کے آشیانہ کو اجاڑ کر ان کے جگر کو چھلنی کیا جارہا ہے!

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی

تو سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی

جب بہار آئی تو کہتے ہیں اہل چمن

یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا