English   /   Kannada   /   Nawayathi

گروگرام ، نوح ، سوہنا کا تشدد اور ویران مساجد و نمازیں !

share with us

شکیل رشید

(ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز)

ضیاءالسلام ملک کے معتبر اور سیکولر مزاج کے انگریزی روزنامہ ’ دی ہندو ‘ کے اسوسی ایٹ ایڈیٹر ہیں ، اور ایک سینئر صحافی کی حیثیت سے وہ ملک کے سیاسی اور سماجی حالات کو سمجھنے ، روزمرہ کے واقعات کا تجزیہ کرنے اور ہوا کے رُخ کو پہچاننے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں ؛ جمعہ کو ’ فیس بُک ‘ پر ان کی ایک مختصر سی پوسٹ دیکھی ، دل بھر آیا ، اور یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ کیا واقعی ملک کے مسلمانوں کے لیے ، اب حالات اس قدر مخدوش ہو گئے یا مخدوش کر دیے گئے ہیں ، کہ ان کے لیے اپنے دینی شعار کی حفاظت مشکل ہو گئی ، اور شناخت خطرے میں پڑ گئی ہے ؟ اس سوال پر غور کرنے سے پہلے ضیاءالسلام کی انگریزی پوسٹ کا اردو ترجمہ پڑھ لیں ، ’’ آہستہ آہستہ نہیں بلکہ تقریباً یقینی طور پر ہم وہاں پہنچ رہے ہیں ، ایک ایسے مرحلے پر جہاں ایک مسلمان کے لیے عملی مسلمان بننا مشکل ہو رہا ہے ! گڑگاؤں اور سوہنا میں دو مساجد پر حملوں کے بعد جمعہ 4 اگست  نوح اور پلول میں بھی مساجد پر حملے کیے گئے ۔ مسلمانوں کو جمعہ کی نماز گھر پر ادا کرنے کا مشورہ دیا گیا ۔ ناقابل یقین ! مجرموں پر لگام لگانے کے بجائے نمازیوں کو گھروں میں رہنے کو کہا گیا ۔ مساجد بند ، اذان خاموش ، نمازیوں پر پابندی اور غنڈے مکمل چھوٹ کا مزہ لے رہے ہیں ۔ میرا ہندوستان ایسا نہیں تھا ، میری زندگی میں نہیں ۔ یہ قطعی کوئی الگ ہی جگہ ہے ۔ علیحدہ کرنے والی ، خلجان پیدا کرنے والی ، بے در کرنے والی ۔ سے تقریباً 1400 سال پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت ہوئی تھی ۔ ہو سکتا ہے ہم ابھی تک وہاں نہ پہنچے ہوں لیکن حضرت بلالؓ اور دیگر کے خیالات ذہن کو ٹکراتے ہیں ، سورہ ہود اور دیگر آیات کے نزول کے وقت ۔ اب کوئی سورت نازل نہیں ہوگی ۔ مستقبل قرآن کو سمجھنے میں ہے ۔‘‘ سوال جو اوپر میں نے کیا ہے ، اس پر غور اب ضروری ہو گیا ہے ۔ نوح ، سوہنا اور گروگرام کے مجرم کہیں چھپے ہوئے نہیں ہیں ، سب کے چہرے عیاں ہیں ، اُن کے بھی جنہوں نے ’ انجمن مسجد ‘ پر حملہ کیا اور حافظ سعد کو شہید کیا ، مسجد میں تباہی مچائی ، اور ان کے بھی جنہوں نے سوہنا کی شاہی مسجد میں تانڈو کیا ، امام کو گھیرا ، لیکن سکھ برادری نے جان پر کھیل کر انہیں بچا لیا ۔ اور وہ مجرم بھی ، جنہوں نے جمعہ کے روز نوح اور پلول میں دو مساجد پر حملہ کیا ، گاڑیوں کو تباہ و برباد کیا ، اور دوکانیں لوٹیں ، وہ بھی انجانے نہیں ہیں ، سوشل میڈیا نے سب کے چہرے اجاگر کر دیے ہیں ۔ جب سب مجرم سامنے ہیں تو بھلا کیوں انہیں گرفتار نہیں کیا جا رہا ہے ؟ اس سوال کے دو جواب ہو سکتے ہیں ؛ ایک تو یہ کہ انتظامیہ – یہاں انتظامیہ سے مراد بی جے پی کی ہریانہ کی حکومت ہے – نہیں چاہتی کہ کوئی مجرم گرفتار کیا جائے ، اور دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بھگوائی سیاست داں یہ چاہتے ہیں کہ یہ جو فرقہ وارانہ تشدد شروع ہوا ہے ، یہ چلتا رہے ، اس پر کوئی روک نہ لگے ۔ دونوں ہی صورتوں میں مقصد صرف اور صرف ایک ہی ہو سکتا ہے ؛ ووٹوں کا بٹوارہ ۔ یہ جو 2024ء کا لوک سبھا کا الیکشن آ رہا ہے ، مودی سرکار ہرحال میں اسے جیتنا چاہتی ہے ، اور جیتنے کے لیے ’ فرقہ وارانہ تشدد ‘ کے آزمودہ نسخے سے بہتر اس کے لیے کیا ہو سکتا ہے ! ہریانہ میں تقسیم کے بعد سے فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا تھا ، کرا دیا گیا ! اب اسے مزید وسیع کرنے کی تیاری ہے ۔ وشوا ہندو پریشد ( وی ایچ پی ) اور بجرنگ دَل کی ریلیاں اشتعال انگیزی اور کشیدگی کو ہوا دینے کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں ۔ ہم نہیں سارا زمانہ کہہ رہا ہے کہ یہ صورتِ حال لوک سبھا الیکشن آنے تک بنی رہے گی ۔ اور جیسا کہ ضیاءالسلام نے کہا ہے ، یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جس میں مسلمانوں کے لیے ’ عملی مسلمان ‘ ہونا دشوار ہوتا جا رہا ہے ، بلکہ دانست دشوار بنایا جا رہا ہے ۔ عملی مسلمان کا مطلب ایسا مسلمان جو ، آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے ، اپنے مذہب پر کھل کر عمل کر سکے ۔ لیکن اب اسے مشکل کر دیا گیا ہے ، اب سفر میں نمازوں کی ادائیگی تقریباً ناممکن بنا دی گئی ہے ، کرتا پائجامہ پہننا اور داڑھی رکھ کر نکلنا خطرناک ہوتا جا رہا ہے ، برقع پہننے والی خواتین کے لیے مشکلات کھڑی ہو گئی ہیں ۔ میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ ٹرین میں سفر کے دوران اب ، نماز کی ادائیگی کے وقت ، توجہ دینی پڑتی ہے کہ آس پاس کس طرح کی بھیڑ ہے ، یا مسافر کس مزاج کے ہیں ! کبھی ایسا بھی تھا کہ ٹرین میں کسی کو نماز پڑھتے دیکھ کر لوگ احترام سے رُک جاتے تھے ، اس کے لیے راستہ چھوڑ دیتے تھے ۔ اِن دنوں وہ ویڈیو وائرل ہے ، جس میں ایک نماز پڑھتے مسافر کو دیکھ کر کچھ نوجوان زور زور سے ’ ہنومان چالیسا ‘ پڑھنے لگتے ہیں ۔ کوئی ’ ہنومان چالیسا ‘ پڑھنے سے کسی کو روکتا نہیں ہے ، لیکن کسی کی عبادت میں خلل ڈالنے کی غرض سے ’ ہنومان چالیسا ‘ پڑھنا کیا ایک دھارمک عمل کہلائے گا ؟ لیکن قصور اِن نوجوانوں کا نہیں ہے ، ان کےذہنوں کو جس زہر نے آلودہ کیا ہے سارا قصور اس زہر کا ، اور اس سے بھی بڑا قصور زہر بھرنے والے یا والوں کا ہے ۔ بات اب ٹرین ، پلیٹ فارم یا باہر کہیں نماز پڑھنےسے بڑھ کر مساجد تک پہنچ چکی ہے ، گروگرام اور اطراف میں کیوں جمعہ کی نماز نہیں ہونے دی گئی ؟ ایک روز قبل گروگرام کے اے سی پی ورون کمار دہیا نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلمانوں کو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے پوری سیکورٹی دی جائے گی ، لیکن شرپسندوں نے نمازیں نہیں ہونے دیں ، جمعہ کی نماز لوگوں کو گھروں میں پڑھنا پڑی ۔ اس حالت میں تو جو کچھ ضیاءالسلام نے محسوس کیا وہ پوری قوم محسوس کررہی ہوگی ۔ سورت سے ممبئی آنے والی ٹرین میں ایک باریش مسلم نوجوان کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اُس سے حالات کی دشواری کا مزید اندازہ ہوتا ہے ، اُس شخص کی ویڈیو وائرل ہے ؛ ہوم گارڈ کا ایک سپاہی اُس کے سر پر ڈنڈا مار کر بھاگ گیا ، سر سے خون بہہ رہا ہے ، اور کوئی خاکی وردی والا اس کی مدد کو تیار نہیں ہے ۔ تو کیا ، جئے پور سُپر ایکسپریس میں تین مسلمانوں کو گولی مار کر شہید کرنے کے واقعے کے بعد خاکی وردی پوشوں کی طرف سے بدتمیزی یا تشدد کیے جانے کا ، کوئی سلسلہ شروع ہونے والا ہے ؟ اب لوگوں کو یہ فکر لگی رہے گی کہ کیا پتہ یہ آر پی ایف والے کسی شکایت پر کان دھریں گے یا نہیں ، کہیں الٹا بدتمیزی نہ کر بیٹھیں ، مار نہ بیٹھیں ! تو کیا ایسا ہی چلتا رہے گا ؟ ہاں! جب تک انتظامیہ مجرموں کو چھوٹ دیے رہے گی تب تک ایسا ہی چلتا رہے گا ۔ اور انتظامیہ ان فسادیوں پر ، خاکی وردی پہن کر جانبداری برتنے والوں پر کوئی کارروائی کرے گی ، ایسا فی الحال لگ نہیں رہا ہے ۔ لیکن ، جیسا کہ ضیاء السلام نے لکھا ہے ’ قرآن رہنمائی کے لیے ہے ‘ ، یہ ہمیں حوصلے اور صبر کی تلقین کرتا ہے ، لہٰذا حوصلہ ہارنے کی ضرورت تو قطعی نہیں ہے ، اور نہ ہی ڈرنے اور خوف زدہ ہونے کی ، مگر احتیاط لازمی ہے ۔ اگر کہیں مٹھی بھر مسلمان ہیں ، اور خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں تو وہ محفوظ مقامات کی طرف چلے جائیں کہ جان کی حفاظت ضروری ہے ، صبر کریں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں سیکولرزم ابھی زندہ ہے ، یقیناً یہ سچ بھی ہے ، لیکن سیکولر عناصر کو ، اور انہیں ، جو آواز اٹھاتے ہیں ، اور حقوق انسانی کی تنظیموں کو خاموش کرا دیا گیا ہے ۔ ان پر اندھا دھند مقدمے لاد دیے گئے ہیں ۔ سیاسی پارٹیاں جتنا بول سکتی ہیں ، بول رہی ہیں ۔ انہیں بھی ای ڈی اور سی بی آئی نے بےبس کر دیا ہے ۔ لیکن روشنی کی کرن ابھی نظر آ رہی ہے ؛ ہریانہ کے سکھوں اور جاٹوں کی اکثریت نے اس فساد میں ’ ہندوتوادی ‘ ٹولے کا ساتھ نہیں دیا ہے ، اور ہریانہ کے وزیراعلیٰ کھٹّر کی پالیسی کے برخلاف کئی سیاست دانوں نے ، اہم شخصیات نے اور بااثر مقامی افراد نے فسادی غنڈوں کے خلاف زبان کھولی ہے ۔ ہریانہ کے نائب وزیراعلیٰ دشیئنت چوٹالا اور مرکزی وزیر راؤ اندرجیت سنگھ نے کھل کر وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے ذریعے نکالے گئے جلوس میں ، یاتریوں کے ذریعے ہتھیار لے کر چلنے پر سوالات کھڑے کیے ہیں ۔ اس تشدد کا ٹھیکرا کتنا ہی مسلمانوں کے سر پھوڑنے کی کوشش کی جائے مونو مانیسر اور بٹّو بجرنگی اور ان کے ساتھی غنڈوں کی بدمعاشیوں پر پردہ نہیں دالا جا سکتا ۔ یہ فساد پھیلایا گیا ، پھیلنے دیا گیا ، اور فسادیوں کو مکمل سرکاری پشت پناہی حاصل رہی ۔ کھٹّر سرکار پر صاف شفاف کارروائی کے لیے قطعی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ، جانبداری برتی جائے گی ، اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے گا ، اس لیے احتیاط ضروری ہے ، اور احتیاط کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی لڑائی عوام کے سامنے ، عدلیہ کے سامنے اور سارے ملک کے سامنے لائی جائے ، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کیا جائے ، جیلوں کو بھرا جائے ، اور کھٹّر سرکار کو بے نقاب کیا جائے ۔ اس کام کے لیے مسلم رہنما ، مذہبی بھی ، سیاسی بھی اور سماجی بھی ، سامنے آئیں ، اور اپنے ساتھ اُن برادرانِ وطن کو بھی لیں جن کے ذہن و دل ابھی فرقہ واریت کے زہر سے آلودہ نہیں ہوئے ہیں۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا