English   /   Kannada   /   Nawayathi

ملیانہ مسلمانوں کے قتل عام : میرٹھ کورٹ کے فیصلہ کو ہائی کورٹ میں کیاگیا چیلنج

share with us

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ کی ایک بنچ نے ملیانہ میں 72 مسلمانوں کے قتل عام کے ملزموں کو بری کئے جانے کے خلاف اپیل کو منظور کرتے ہوئے اس پر سماعت کے لیے 14 اگست کی تاریخ مقرر کی ہے اور نچلی عدالت کے ریکارڈ طلب کرنے کے ساتھ نوٹس جاری کیا ہے۔

واضح رہے کہ سال 1987 میں اتر پردیش کے شہر میرٹھ میں فسادات کے دوران دو بڑے قتل عام ہوئے تھے۔ پہلا قتل عام ہاشم پورہ کے علاقے میں ہوا جہاں پولیس اور پی اے سی نے 50 کے قریب لوگوں کو گولی مار کر نہروں میں پھینک دیا اور دوسرا اگلے دن میرٹھ کے قریب ملیانہ گاؤں میں ہوا جہاں پولیس اور پی اے سی کی مدد سے فرقہ وارانہ تشدد میں 72 افراد مارے گئے۔

تقریباً 36 سال تک چلنے والے مقدمے کی سماعت کے بعد میرٹھ کی سیشن عدالت نے اس سال 31 مارچ کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر اس کیس میں 39 ملزمین کو بری کر دیا تھا۔ نچلی عدالت کے اس فیصلے کو اب ملیانہ فسادات کے متاثرین نے الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

ملیانہ قتل عام کے تین متاثرین وکیل احمد، یعقوب علی اور اسماعیل خان نے نچلی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس پر عدالت نے 11 جولائی کو سماعت کی۔ اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کیس کی فائل اور تمام ضروری دستاویزات کو نچلی عدالت سے طلب کیا ہے، ساتھ ہی کیس کی اگلی سماعت کے لیے 14 اگست کی تاریخ مقرر کی ہے۔

اس کیس کی پیروی کرنے والے سینئر صحافی قربان علی کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے جج لکھویندر سنگھ سود کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ہماری درخواست منظور کرلی ہے۔ ہائیکورٹ میں وکیل دانش علی کیس کی نمائندگی کریں گے۔ کیس کی سماعت ایک بار پھر شروع ہونے کے بعد متاثرین کو اس معاملے میں انصاف ملنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ 22 مئی 1987 کو ہاشم پورہ میں فسادات پھوٹ پڑے۔ 23 مئی 1987 کو ملیانہ میں بھی فسادات پھوٹ پڑے۔ ملیانہ میں تشدد میں 72 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی ہاشم پورہ فسادات میں 42 لوگوں کی جانیں گئیں۔ ہاشم پورہ کیس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ پی اے سی کے اہلکاروں نے 38 مسلم نظربندوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اکتوبر 2018 میں دہلی ہائی کورٹ نے اس معاملے میں 16 سابق پولیس اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ عدالت نے اس قتل عام کو پولیس کے ہاتھوں نہتے اور معصوم لوگوں کی ’ٹارگٹ کلنگ‘ قرار دیا۔

قابل ذکر ہے کہ ملیانہ قتل عام کیس میں 31 مارچ کے فیصلے کی طرح سیشن کورٹ نے 2015 میں ہاشم پورہ کے ملزمین کو ثبوت کی کمی کی وجہ سے بری کر دیا تھا۔ اس معاملے میں عدالت نے کہا تھا کہ اس واقعے میں پولیس اہلکاروں کے ملوث ہونے کا صرف شبہ ہے۔ بعد میں دہلی ہائی کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کی۔ ہائی کورٹ نے سیشن عدالت کا فیصلہ پلٹ دیا تھا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ پی ایس سی کے جوانوں کے خلاف ثبوت مضبوط ہیں۔ ان پر لگائے گئے الزامات شک و شبہ سے بالاتر ہیں۔

ملیانہ کیس میں انصاف ملے گا، ہاشم پورہ قتل عام کی طرح ملیانہ قتل عام کیس میں بھی متاثرین کو ہائی کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ آنے کی امید ہے۔ صحافی قربان علی کا کہنا ہے کہ ہمیں عدالت پر پورا بھروسہ ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ متاثرین کے اہل خانہ اور قتل عام میں زندہ بچ جانے والوں کو ہاشم پورہ کی طرح انصاف ملے گا۔ (یو این آئی)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا