English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندستانی مسلمان اور اسوۂ ابراہیمی

share with us

محمد نوشاد نوری قاسمی

                      ہندوستان میں حالات دگرگوں ہیں، ایک تہذیبی کشاکش ہے ، ملک پرایک خاص فکراور تہذیب کو مسلط کرنے کی منظم سازش جاری ہے، وقت کے ساتھ غيروں کے حوصلے بلند ہیں،انہوں نے ملک کی دیگر تہذیبوں کو نگلنے، جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور اپنی تہذیب کو طاقت اور قوت کے زور پر نافذ کرنے کی پوری تیاری کرلی ہے، سرکاری ادارے ، افسران، میڈیا ، عدالتیں اور بہت حد تک عوام بھی ان کے قابو میں ہیں، ہندوستان میں مذہبی رواداری اپنے سب سے خطرناک دور سےگزر رہی ہے، ماحول یہ بنایا جارہا ہے کہ ان کا اٹھایا گیا ہر قدم ملک اور قومیت کے حق میں ہے، ان کی ادنی سی مخالفت ملک سے غداری کے مرادف بن گئی ہے یا بنتی جارہی ہے۔

             ان حالات کازبردست منفی اثر مسلم سماج پر ہواہے،سرکاری سطح پر متعدد قوانین ایسے بنادیے گئے جو ان کے پرسنل لاء کو چیلینج کرتے ہیں اور شریعت اسلامیہ میں کھلی مداخلت کرتے ہیں، عوامی سطح پر نفرت میں زبردست اضافہ ہواہے ، ہرمہینے دو چار مسلمان اس خوں ریز نفرت کا شکار ہو رہے ہیں، ارتداد کی ہوا اب طوفان بلاخیز بن گئی ہے، اسکولوں میں سوریہ نمسکار اور  وندے ماترم عام سی بات ہوگئی ہے، اس تعلق سے مسلم سماج کی حساسیت بھی انتہائی کمزور ہوچکی ہے، غیر مسلموں سے شادی کے واقعات میں کافی اضافہ ہواہے ، شادی کے بعد، بے دردی سے مسلم لڑکی کا قتل ، اب معمول کی خبریں ہیں، عمومی طور پر ہندؤوں کی اکثریت اپنی تہذیب کی بالادستی کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہے، ڈاڑھی اورحجاب اور کوئی بھی ایسی علامت جس سے اسلام کی بُو آتی ہو، وہ ملک کے نئے منظر نامے میں ناقابل قبول چیز بنتی جارہی ہے، يونيفارم سول كوڈ كا جِن ايک بار پھر بوتل سے باہر آگيا ہے ، جو ہميشہ  کی طرح نفرت كے ليے ماحول ا ور زمين ہموار كرنے ميں اپنا كردار اداكرے گا۔

                  مسلم قوم کی اکثریت ، نئے نظام کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے پر آمادہ ہے، قائدین کے لہجے تبدیل ہوچکے ہیں؛ بلکہ بعض تو کھلے عام غیروں کی زبان بول رہے ہیں، مفتیان کرام کے فتووں میں اگر مگر کے ذریعہ تاویلات کا وسیع باب کھولا جارہا ہے، حالیہ دنوں میں ،بعض مدرسوں میں یوگا کا منظم پروگرام ہوا، اس کی ویڈیوز اور تصویروں نے غیرت مند مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا؛ کچھ مخلصین نے تحریریں لکھیں ، اپنا احتجاج درج کرایا؛ مگرکیا کسی نے اس تنظیم کے کسی سربراہ کی کوئی تحریر یا اعلان براءت دیکھا، جس سے یہ ادارے وابستہ ہیں؟ مطلب صاف ہے، یہ ادارے اپنے بڑوں کی منشا جانتے ہیں، انہیں پتہ ہے کہ اشارہ یہی ہے کہ ہر وہ کام کرلیا جائے ، جس سے دستارِ قائد سلامت رہے ،سرکار کی نظروں میں اپنی بھی آبرو بنی رہے ؛ رہ گئی آبروئے ملت ، تو وہ کب کی مرحوم ہوچکی ہے، اب تو اس کی فاتحہ خوانی کا دور ہے ، سو اس ميں وه اہم كردار ادا كر ہی رہے ہیں۔

جو لوگ جان بوجھ کر اس سازش میں شریک ہورہے ہیں ، ان کے لیے نہ کوئی تحریر مؤثر ہو سکتی ہے ، اور نہ کوئی نرم ونازک کلام،اس ليے نہيں کہ وه نادان ہيں ؛ بلکہ اس ليے کہ وه شاطر ہيں ،وه ضمير فروشی كو اپنا ہنر  اور كاسہ لیسی كو اپنا نشانِ امتياز سمجھتے ہيں، ان کی فہمائش قانونِ فطرت کے بے رحم ہتھوڑوں سے ہی ممکن ہے؛ ہاں وہ لوگ جو اپنے ایمان کے سرمایہ کو حرزِجان بنائے ہوئے ہیں اور کسی قیمت پر اس کا سودا کرنے کو تیار نہیں ہیں، جو دشمنوں کی سازشوں کا اصل نشانہ ہیں،ضروری ہے کہ انہیں قرآن کریم کا وہ سبق یاد دلایاجائے جو ان حالات میں ان کی رہنمائی کرتا ہے، انہیں حوصلے دیتا ہے، ان کے سامنے ایک رول ماڈل اورمثالی کردار پیش کرتا ہے، و ہ ہے ابراہیمی کردار۔

        حضرت ابراہيم عليه السلام كا رشتہ امت محمديہ سے بہت خاص ہے،انہوں نے اس امت كے ليے اور اس كے نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کی بعثت كے ليے دعائيں كيں، انہوں نے اس امت كا نام ’’امت مسلمہ‘‘ ركھا ، يہود ونصاری نے جب حضرت ابراهيم عليه السلام سے اپنے خصوصی تعلق كا ذكر كيا تو اللہ تعالی نے فيصلہ فرمايا كہ حضرت ابراهيم عليه السلام نه تو يہودی  تھے اور نه ہی عيسائی ؛ وه تو مسلم تھے، مزيد فرمايا کہ حضرت ابراهيم  عليه السلام سے خصوصی تعلق كا حق اس نبی؟ امی عليه السلام اور ان كے پيروكاروں كو ہے، حضرت ابراهيم عليه السلام كي متعدد يادگاروں كو اس امت كے شعائر ميں شامل فرماياگيا، ان کی شخصيت كو بالخصوص ايمان اور توحيد كے باب ميں اسوۂ حسنه اور رول ماڈل بنايا گيا ، شريعت محمدی كو ملت ابراهيمی كا لقب ديا گيا، اور مسلمانوں كو اس كي پيروی كا پابند كيا گيا،  اس ليے كہ ملت ابراهيمی كے اصول وفروع كو شريعت محمدی ميں سميٹ ليا گيا، اس طرح ان كی شخصيت اور ان کی ملت؛ دونوں هی امت مسلمہ كے ليے انتهائی اہميت ركھتي ہیں، جس ميں فكری استقامت اور عملی حرارت كا كافی سامان موجود ہے۔

توحيد کے علم بردار ابراہیم:

            انبياء عليہم السلام تمام كے تمام ہدايت كے ستارے اور روشنی كے مينار تھے، وه اللہ كے انتہائی مخصوص بندے تھے ، چشم فلک نے ان جيسی پاكيزه اور مقدس جماعت نہيں ديكھی،  وه كفر وشرک كے ليے ننگی تلوار اور توحيد خداوندی كے بے باک علم بردار تھے، وه جہاں رہے، ابليسی نظام كے ليے چيلينج بنے رہے؛ مگر يہ خصوصيت صرف حضرت ابراهيم عليه السلام كے حصہ ميں آئی ، كہ نبی اكرم صلی اللہ عليه وسلم جيسی كامل مكمل شخصيت اور ان كا اسوۂ حسنہ ہوتے ہوئے الله تعالی نے، ايمان كے باب ميں حضر ت ابراهيم عليه السلام كو اسوۂ حسنہ قرار ديا ۔ سورة الممتحنہ ميں ارشاد باری ہے : ترجمہ: ’’ تمہارے ليے ابراهيم اور ان كے پيروكاروں كی زندگی ميں بہترين نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے كہا: ہم تم سے اور تمہارے جھوٹے خداؤں سے بيزار ہيں ، ہم تمہارے نظام كو قبول كرنے والے نہيں ہيں، ہمارے اور تمہارے درميان كھلی عداوت اور دشمنی ہے، يہاں تک تم ايمان لے آؤ‘‘۔

         حضرت ابراہیم عليہ السلام توحيد كا شعار تھے، ان كی اسی انفراديت كی وجہ سے قرآن كريم ميں انہيں ’’حنيف‘‘ كی صفت سے ياد كيا گيا ہے ، حنيف كا مفہوم ہے: وه انسان جوساری دنيا سے كٹ كر، ايک خدا كے ليے يكسو ہوجائے ، ظاہر ہے سارے انبياء علیہم السلام ايسے ہی تھے؛ مگر توحيد كے معاملے ميں حضرت ابراہیم عليہ السلام كی شان كچھ زياده ہی نرالی تھی، جس کی وجہ سے انہيں اس صفت كا تمغہ ديا گيا ہے۔

ابرا ہیمی اسوه كيا ہے؟

                اسوۂ ابراہیمی كی حقيقت كی طرف سورة الممتحنہ ميں اشاره كيا گيا ہے كہ جب ساری قوم توحيد كے خلاف تھی، گھر كے لوگ مخالف تھے، باپ آزر بت گر اور بت پرست تھا، پوری قوم شرک ميں ڈوبی ہوئی تھی، بادشاهِ وقت نمرود  بزور قوت اس مشركانہ نظام كی قيادت كررہا تھا, ايسے ميں اپنی جان ، مال اور عزت وآبرو كی پرواه كيے بغير، ابراہیم علیہ السلام نے توحيد كا پرچم بلند كيا، بتوں كو توڑ ڈالا ، قوم پر حجت تمام كردی، اس ليے كہ علمی اور عقلی قوت تو اہل ايمان كے پاس ہے، ايک فكری جنگ كا اعلان ہوگيا ، ايک طرف ابراهيم عليه السلام اور ان پر ايمان لانے والے دو خوش نصيب لوگ تھے ، جن ميں ايک بھتيجا حضرت لوط عليه السلام اور دوسری ان كی بيوی حضرت ساره عليها السلام تھی ، اور دوسری صف ميں نمرود اپنی شان وشوكت كے ساتھ اور ان كی قوم پوری عددی قوت كے ساتھ صف آرا تھی، توحيد كی روشنی كوختم كرنے كے ليے ، آگ كا الاؤ بھڑكايا گيا ،جب وه اپنے شباب پر پہونچا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام كو اس ميں ڈال ديا گيا ، یہی ہر دور كے ظالموں اور مشركوں كا طريقہ ہے، وه دليل كی دنيا ميں مغلوب ہوجانے كے بعد، اپنی عقل وخرد كو صحيح سمت ميں لے جانے كے بجائے ، نشۂ اقتدار ميں مست ہوكر، حق كی قوت كو دبانا اور كچلنا چاہتے  ہيں ، ان حالات ميں اپنے عقيده پر ثابت قدم رہنا اور ہرطرح كے فتنوں كا جواں مردی سے مقابلہ كرنا ہی اسوۂ ابراهيمی ہے اور حضرت ابراهيم عليه السلام كو اسوه بنانے كے پيچھے راز يہی ہے كہ اس طرح كے حالات سے امت مسلمہ كو دوچار ہونا پڑے گا، جہاں ان كے عقيدے اور شريعت پر خطرات كے بادل منڈلائيں گے، ان حالات ميں امت كو اپنے ليے عملی راه متعين كرنے ميں دشواری نہيں ہونی چاہيے، ايسے موقع پر امت كے قائد اور رول ماڈل حضرت ابراهيم عليه السلام كی شخصيت اور ان كے راستے پر چلنے والے جو باكردار لوگ ہيں، امت كے ليے لازم ہے كہ وه اس حقيقت كو ياد ركھے ، كسی جبہ و دستار سے دھوكہ نہ كھائے، كسی مصلحت كو اپنے اوپر حاوی نہ كرے،  وه پوری قوت كے ساتھ طاغوتی نظام كے سامنے ڈٹ جائے، اگر غيروں كے پاس قوت ہے، طاقت ہے، پيسے ہيں،سازشوں كا جال ہے، ايجنٹ ہيں، ضمير فروشوں كی فوج ہے ،تو اہل ايمان كے پاس ايمان كی روشنی ہے، تقوی كی چمک ہے، توكل علے اللہ كا سرمايہ ہے، اخلاص كا ہتھيار ہے، انبياء عليهم السلام كی روشن روايات ہيں، ان ہی قوتوں سے اہل ايمان كل بھی كامياب ہوئے تھے اور آج بھی كاميابی كا يهی راستہ متعين ہے، اگر دشمنوں نے آگ كا الاؤ بھڑكا ركھا ہے، تو اللہ كی مدد اور نصرت ، اس آگ كو گلزار بنانے كے ليے كافی ہے، اگر دشمنوں نے ہميں كيفر كردار تک پہونچانے كے ليے تانے بانے بُن ليے ہیں تو اللہ رب العزت كا انتقام ان كے ليے گھات لگائے ہوئے ہے، بس ضرورت ہے كہ ہم اس كردار كے حامل بن جائيں، ہم اپنے يقين اور توكل كو اس معيار تک پہونچائيں اور آتش نمرود ميں بے خطر كود جانے كا حوصلہ پيدا كريں، يہی حضرت ابراهيم عليه السلام كا اسوه ہے اور يہی وقت كی ضرورت ہے، اور اسی سبق كو ياد اور تازه كرنے كے ليے ہر سال بقرعيد آتی ہے اور حج جيسی عظيم الشان اجتماعی عبادت كا اہتمام كيا جاتا ہے۔

آج بھی ہو جو براهيم كا ايماں پيدا

آگ كر  سكتی ہے انداز  گلستاں پيدا

              تاريخ گواه ہے كہ جس قوم نے توحيد كی امانت كو اپنے سينوں ميں محفوظ ركھا ، وه جاوداں ہوگئی، ان كو مٹانے والے نشانِ عبرت بن گئے، وه تعداد ميں كم ہوتے ہوئے اور بے سروسامانی كے باوجود غالب رہے ، فتحياب اور سربلند رہے، آنے والی آزمائشيں در اصل ہمارے حوصلہ اور ايمان كا امتحان ہيں، ايسے موقع پر، ہم سے ابراهيمی كردار پيش كرنے كا ايمانی مطالبہ ہے، اگر هم نے يہ سبق محفوظ ركھا تو ہماری عيد بھی مبارک اور هماری قربانی بھی مبارک ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا