English   /   Kannada   /   Nawayathi

وزیراعظم سے سوال پوچھنے والی امریکی مسلم صحافی کو ہراساں کرنے پر امریکہ کا سخت ردعمل

share with us

واشنگٹن: وائٹ ہاؤس نے صدر جو بائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیر اعظم نریندر مودی سے جمہوریت سے متعلق سوال کرنے پر سوشل میڈیا پر ایک امریکی صحافی کو ہراساں کرنے کی مذمت کی ہے اور اسے مکمل طور پر ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ پچھلے ہفتے وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹر صبرینا صدیقی نے وزیر اعظم مودی سے بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں سوال کیا تھا کہ ان کی حکومت اس سمت کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات کرنے پر غور کر رہی ہے۔

مشترکہ پریس کانفرنس کے ایک دن بعد، رپورٹر کو مودی سے سوالات کرنے پر سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کچھ لوگوں نے الزام لگایا کہ وہ پہلے سے منصوبہ بند طریقے سے سوالات پوچھ رہی ہیں۔ کچھ لوگوں نے خاتون صحافی کو 'پاکستانی اسلامسٹ' بھی کہا۔

ایک سوال کے جواب میں، امریکہ کے قومی سلامتی کونسل کے اسٹریٹجک کمیونیکیشن کے کوآرڈینیٹر جان کربی نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ہمیں اس صحافی کو ہراساں کیے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، یہ ناقابل قبول ہے۔ اور ہم کسی بھی صورت میں کہیں بھی صحافیوں کو ہراساں کرنے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ یہ جمہوریت کے اصولوں کے لحاظ سے غیر اخلاقی ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرن جین پیئر نے کہا کہ ہم وائٹ ہاؤس پریس کی آزادی کے لیے پرعزم ہے اور اسی لیے ہم نے گزشتہ ہفتے پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم صحافیوں کو ڈرانے یا ہراساں کرنے کی کسی بھی کوشش کی شدید مذمت کرتے ہیں جو محض اپنا کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کیا وزیر اعظم مودی اور صدر بائیڈن نے آزادی صحافت اور انسانی حقوق جیسے موضوعات پر گفتگو کی؟ اس سوال کے جواب میں جین پیئر نے کہا کہ صدر بائیڈن کسی بھی عالمی رہنما یا سربراہ مملکت کے ساتھ انسانی حقوق کے معاملے پر بات کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے سوچا کہ آپ سب کے لیے نہ صرف صدر سے بلکہ وزیر اعظم سے بھی سوال پوچھنا اور سننا ضروری ہے اس لیے ہم نے پریس کانفرنس منعقد کی۔

دریں اثنا، ساؤتھ ایشین جرنلسٹس ایسوسی ایشن (ساجا) نے سوشل میڈیا پر صبرینا صدیقی کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے کی مذمت کرتے ہوئے خاتون صحافی کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنی ساتھی صبرینا صدیقی کی مسلسل حمایت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں جو بہت سے جنوبی ایشیائی خواتین صحافیوں کی طرح محض اپنا کام کرنے کی وجہ سے ہراساں کیے جانے کا سامنا کر رہی ہیں۔ ساجا نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ پریس کی آزادی کسی بھی جمہوریت کی پہچان ہوتی ہے اور ہی ایم مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی قیادت کرتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ مشترکہ پریس کانفرنس کے ایک دن بعد صبرینا صدیقی نے ٹویٹر پر لکھا، چونکہ کچھ لوگوں نے میرے ذاتی زندگی کے بارے میں بات کرنے میں دلچسپی دکھا رہے ہیں، اس لیے ان لوگوں کے لیے ایک تصویر شیئر کرنا ہی درست ہے کیونکہ بعض اوقات شناخت ان کی نظر سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں۔ صبرینا نے اس ٹویٹ کے ساتھ اپنی دو تصاویر بھی شیئر کیں جس میں انھوں نے بھارتی کرکٹ ٹیم کی نیلی جرسی پہن رکھی ہے اور دوسری تصویر اپنے والد کے ساتھ جب بھارت نے 2011 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا۔

کانگریس پارٹی نے بھی صبرینا کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے مودی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔ کانگریس پارٹی نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ ایک خاتون صحافی کو پی ایم مودی سے سوال کرنے پر ہراساں کرنا پڑا، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا