English   /   Kannada   /   Nawayathi

سرمایہ ملت کا نگہباں

share with us

احمد صدیق

   الحمد لله الذي خلق الانسان والصلاۃ والسلام على رسوله محمد خير البشر وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین أما بعد!   

       مولانا کی علالت کی خبر جب ملی تو ایک جھٹکا لگا اور دل مغموم ہوگیا، رائے بریلی کا ٹکٹ بنوانے کا خیال بار بار انگڑائیاں لیتا رہا، ذہن میں یہی بات گردش کرنے لگی کہ کہیں آپ مولانا علی میاں کی طرح تیئیسویں شب کے منتظر تو نہیں، مگر اس سے قبل ہی وہ خبر آئی جس کا ڈر تھا، اور کیوں نہ ہو کہ یہ ایک حقیقت ہے، آسمان و زمین اور سارے جہاں کے پیدا کرنے والے اللہ رب العزت نے یہ فیصلہ سنا دیا ہے: "كل شیء هالك إلا وجهه له ٱلحكم وإلیه ترجعون"۔

یوں تو ہر روز ہی مرتے ہیں مرنے والے

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

        دارالعلوم ندوۃالعلماء کے سال رواں کی تعلیم جاری تھی، عید الاضحی کی تعطیل قریب آرہی تھی، ساتھیوں کے اسفار کے پروگرام بن رہے تھے، میں ایک کشمکش میں تھا، گھر جانے کا تو ارادہ بالکل نہیں تھا، چاہ رہا تھا کہ راۓ بریلی حضرت کے ساتھ عید مناؤں اور پھر کہیں کا مختصر سفر کرکے واپس ہو جاؤں، لیکن ساتھیوں کا نظام الگ ہی بن رہا تھا نہ چاہتے ہوئے دہلی کا ٹکٹ کاٹا، جانے کے لیے چند ہی دن رہ گئے تھے اور ساتھیوں کی تیاری برابر جاری تھی، اسی دوران میں میری ملاقات دار العلوم کے ایک مؤقر استاد سے ہوئی اور سفر كا ارادہ ترک کرکے چند ساتھیوں کے ہمراہ رائے بریلی پہنچ گیا، ہمارے لیے سعادت کی بات تھی کہ اس وقت حضرت وہیں قیام پذیر تھے، ان دنوں قیام کے دوران میں مرشد و مربی حضرت مولانا علیہ الرحمہ کو قریب سے دیکھنے، ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، نماز پڑھنے اور ان کی صحبت میں رہ کر اپنے کو بنانے کا موقع ہاتھ آیا، مزید یہ کہ ان کی خدمت کرنے اور تنہائی میں گفتگو کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوتی رہی۔

       آپ علیہ الرحمہ نے اپنی زندگی میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ان کی ایک طویل فہرست ہے، آپ‌ نے اپنی ذات کو دینی و ملی اور سماجی مسائل کو حل کرنے کے لیے وقف کر دیا تھا اور شعور سنبھالنے سے لے کر تادم آخر قرآن وحدیث اور دینی علوم کے پڑھنے پڑھانے اور ان کی نشر واشاعت میں صرف کر دی اور کما حقہ اس کا‌‌ حق ادا‌‌‍‌‌ کیا، ہم‌ نے اس آخری عمر میں آپ کو اس حال میں دیکھا کہ جس دن درس بخاری کے لیے آنا ہوتا رات ہی سے مطالعہ شروع کرتے اور اس کی فکر کرتے رہتے اور اپنی بات کو موضوع کے تحت ہی بیان کیا کرتے، ابتدائی دنوں کی تمہیدی گفتگو کو ذہن ودماغ میں نقش کرنا چاہیے، فرمایا کہ مومن کو چاہیے کہ کلام اللہ کے بعد کلام رسول سے فائدہ اٹھائے اور ان کو اپنے لیے دستور سمجھے، دین پوری زندگی پر محیط ہے، اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت دونوں کا مکمل قانون بنایا ہے، انسان اگر دنیا سے کم فائدہ اٹھائے تو دنیا اسے نقصان نہیں دے گی، جب کسی بھی موضوع کے متعلق بات کرتے یا آپ سے سوال پوچھا جاتا تو اس کے تحت ہی اپنی بات رکھتے یا جواب دے دیتے۔

     آپ ملت اسلاميہ ہندیہ کے ایک ایسے قابل فخر سپوت تھے جنھیں اللہ نے بے پناہ صفات ستودہ اور بیش بہا اوصاف حمیدہ سے متصف فرمایا تھا، آپ کی ذات گرامی اپنے آپ میں ایک انجمن تھی، آپ ایک طرف علم و ادب کے میر کارواں تھے تو دوسری طرف قوم و ملت کے پاسباں، کئی ادارے اور بے شمار تنظیمیں آپ کی صدارت پر نازاں و فرحاں تھیں، آپ کے سينے میں انسانیت کے لیے ایک دھڑکتا دل تھا، آپ کے مشوروں اور پند و نصائح کی سحر انگیزی نے سفید ریش بزرگوں، ابھرتے قائدوں اور جواں سال نوجوانوں کی زندگی میں ایک نئی روح پھونک دی تھی، آپ نے ملت اسلامیہ ہندیہ کو اپنے علم و معرفت کی کرنوں سے منور کر دیا تھا، حقیقت میں آپ اس ماہتاب شب افروز کے مانند تھے جن کی پرنور شعاعوں سے طالبان علوم نبوت کے ذہن و دماغ کی سوز و تڑپ اور امنگ و ترنگ بر آئی، وہ در نایاب تھے جس کی جگمگاتی کرنیں انسانیت کو صحیح راہیں دکھلا رہی تھیں، آج ہمارے یہ عظیم رہنما، علم و فن کے پاسباں، دینِ حق کے ترجمان، نور قلبِ دوستاں ہمارے درمیان نہیں رہے۔

"ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے"

 آپ نے ربانی خصوصیات کے ساتھ اپنی مدت حیات گذاری جو اللہ تعالٰی نے آپ کے لیے مقرر کی تھی، ایک ایسے خادم دین و علم، داعی و مبلغ، وسیع القلب عالم دین اور قائد قوم و ملت کی وفات پورے عالم اسلام کے لیے اور خصوصا ملت اسلامیہ ھندیہ کے لیے ایک عظیم خسارہ ہے، آپ نے اپنے پیچھے‌ صرف اپنے گھر والوں کو نہیں چھوڑا بلکہ کار گزار افراد کی ایک بڑی جماعت اور ہزار ہا ہزار طلبہ و مستفیدین کی ایک بڑی تعداد چھوڑ کر چلے گئے۔

اللہ تعالیٰ آپ کی تربت پر اپنی رحمت کا نزول فرماتا رہے اور حشر تک "لا خوف علیکم ولا أنتم تحزنون" کی ملکوتی صدائیں آپ کی روح کو بخشش و مغفرت کا وعدۂ ربانی سناتی رہیں۔ آمین

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا