English   /   Kannada   /   Nawayathi

ریاست کا کام ہے اپنے شہریوں کو نفرت انگیز جرائم سے بچانا : سپریم کورٹ

share with us

دہلی:07فروری2023(فکروخبر/ذرائع) سپریم کورٹ نے پیر کے روز مشاہدہ کیا کہ نفرت انگیز تقریر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ بھارت جیسے سیکولر ملک میں مذہب کی بنیاد پر نفرت انگیز جرائم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ نفرت انگیز تقریر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ہے، اگر ریاست نفرت انگیز تقریر کے مسئلے کو تسلیم کرتی ہے تو اس کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ایسے کسی بھی نفرت انگیز جرائم سے بچائے۔ جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگارتھنا کی بنچ نے کہا کہ جب نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی ہے تو پھر ایک ایسا ماحول پروان چڑھایا جاتا ہے جو بہت خطرناک ہے، اسی لیے اسے ہماری زندگیوں سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا کیونکہ نفرت انگیز تقاریر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ ایک مسلمان شخص کی درخواست پر سماعت کر رہا تھا، جس نے الزام لگایا ہے کہ 4 جولائی 2021 کو جب وہ علی گڑھ جانے کے لیے نوئیڈا سے کار میں سوار ہوا، تو چند شرپسندوں نے مذہب کے نام پر اس پر حملہ کیا اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی اور جب اس معاملہ کی شکایت پولیس میں درج کرانی چاہی تو پولیس نے کیس درج کرنے سے منع کردیا۔ بنچ نے اتر پردیش حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) کے ایم نٹراج کو بتایا کہ آج کل نفرت انگیز تقاریر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت جیسے سیکولر ملک میں مذہب کے نام پر نفرت انگیز جرائم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا اور یہ ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ایسے جرائم سے محفوظ رکھے۔ اگر کوئی شخص پولیس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے ٹوپی پہن رکھی تھی اور میری داڑھی کھینچی گئی اور مذہب کے نام پر گالی دی گئی اور اگر اس کے بعد بھی کوئی شکایت درج نہیں ہوئی تو یہ ایک مسئلہ ہے۔

جسٹس جوزف نے کہا کہ ہر ریاستی افسر کا عمل قانون کا احترام بڑھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بصورت دیگر ہر کوئی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے گا۔ شام 6 بجے تک جاری رہنے والی اس سماعت کے دوران بنچ نے کہا کہ کیا آپ یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ نفرت پھیلانا جرم ہے اور آپ اسے پردے کے پیچھے چھپانا چاہتے ہیں؟ ہم کوئی منفی بات نہیں کہہ رہے ہیں، ہم صرف اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ درخواست گزار کاظم احمد شیروانی کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے کہا کہ یہ 13 جنوری کو عدالت نے ریاستی حکومت سے کیس ڈائری پیش کرنے کو کہا تھا کہ پولیس نے دو سال بعد ایف آئی آر درج کی ہے اور وہ بھی ایک کو چھوڑ کر تمام قابل ضمانت جرائم کے ساتھ۔ کے ایم نٹراج نے اعتراف کیا کہ پولس حکام کی طرف سے کوتاہی ہوئی ہے اور کہا کہ اے سی پی رینک کے افسر کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے اور غلط پولیس اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔

بنچ نے دوبارہ پوچھا کہ گینگ کے ارکان کے خلاف پہلی ایف آئی آر کب درج کی گئی تھی اور کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور کیا وہی لوگ تھے، جنہوں نے متاثرہ پر حملہ کیا تھا اور انہیں کب ضمانت پر رہا کیا گیا؟ کے ایم نٹراج نے کہا کہ آپ وہ تمام ایف آئی آر کی تفصیلات کے ساتھ ایک حلف نامہ داخل کریں لیکن نشاندہی کی کہ پہلی ایف آئی آر جون 2021 میں "اسکریو ڈرائیور گینگ" کے اراکین کے خلاف درج کی گئی تھی اور انہوں نے مسلمانوں یا ہندوؤں پر حملہ کرنے میں کوئی امتیاز نہیں برتا ہے۔ ایڈوکیٹ احمدی نے کہا کہ یہ تسلیم کرنے میں دو سال لگے کہ یہ ایک مجرمانہ واقعہ ہوا ہے اور اتر پردیش حکومت کی طرف سے داخل کردہ دو حلف ناموں میں پولیس نے کہا ہے کہ کوئی نفرت انگیز جرم نہیں تھا۔ پانچ جولائی 2021 کو ایک پولیس اہلکار میرے گھر آیا تھا اور نفرت انگیز جرم کے زاویے پر دباؤ نہ ڈالنے کو کہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ کی داڑھی کھینچی گئی اور ختنہ کا مذاق اڑایا گیا۔

کے ایم نٹراج نے کہا کہ پولیس نے اس بات سے انکار نہیں کیا ہے کہ کوئی مجرمانہ واقعہ نہیں تھا لیکن ایسا کہیں نہیں پایا گیا کہ یہ نفرت انگیز جرم ہے اور متاثرہ نے میڈیا کی تشہیر کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور اپنے بیانات بدل دیے ہیں۔ بنچ نے اترپردیش حکومت سے تفصیلی حلف نامہ داخل کرنے کو کہا اور معاملے کی مزید سماعت 3 مارچ کو کرنے کی تاریخ مقرر کی۔ بتادیں کہ گزشتہ سال 21 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے اتر پردیش، اتراکھنڈ اور دہلی سے نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کو کہا تھا۔ عدالت نے مشاہدہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم مذہب کے نام پر کہاں پہنچ گئے ہیں، ہم نے مذہب کو کس حد تک نیچھے گرا دیا ہے۔ عدالت نے تینوں ریاستوں کو ہدایت کی تھی کہ بھارت کا آئین ایک سیکولر ملک کا تصور پیش کرتا ہے، وہ شکایت درج کیے جانے کا انتظار کیے بغیر مجرموں کے خلاف فوری طور پر مجرمانہ مقدمات درج کریں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا