English   /   Kannada   /   Nawayathi

شادی خانہ آبادی یا خانہ بربادی ……کیا ہو رہا ہے ؟  

share with us

 

ابونصر فاروق:رابطہ

    شادی انسان کی فطری اور سماجی ضرورت ہے۔شادی کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی جب بالغ ہوجاتی ہے تو اس کی شادی کر کے شوہر اور بیوی کی حیثیت سے ایک ساتھ رہنے، ایک دوسرے کا تعاون کرنے، ساتھ مل کر ہنسی خوشی زندگی گزارنے اور نئی نسل پیدا کرنے کی سماج باقاعدہ اجازت دے دیتا ہے۔ اس کا روایتی طریقہ یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے کے ماں باپ یا گھر والے آپس کی رضامندی سے رشتہ طے کرتے ہیں اور دونوں کی شادی کر دیتے ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی نے خود ہی ایک دوسرے کو پسند کر لیا اور ان کی خوشی کے لئے اہل خاندان نے ان کی شادی کر دی۔ اورایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی نے خود ایک دوسرے کو پسند کیااور شای کرنی چاہی لیکن ان کے اہل خاندان کسی سبب سے اس رشتے کے لئے تیار نہیں ہوئے تو لڑکے اور لڑکی نے خاندان والوں کی مرضی کے خلاف اپنی شادی کر لی۔عام طور پرایسی شادیاں روایتی انداز سے نہیں ہوتی ہیں۔اگر والدین مجبور ہو گئے تو سماج میں اپنی عزت بچانے کے لئے کرکے اس رشتے کو بادل ناخواستہ قبول کر لیتے ہیں۔
    پرانے زمانے میں جب اس انداز سے شادیاں ہوتی تھیں تو کچھ مقامات پر ایسا ہوتا تھا کہ شادی طے ہوجانے کے بعد خاندان کے تمام رشتے دار آپس میں طے کر کے شادی کے سارے انتظامات کرتے تھے۔یعنی شادی کا پورا خرچ صرف لڑکی کے ماں باپ کو نہیں اٹھانا پڑتا تھا بلکہ پورا خاندان مل کر اس خرچ کو پورا کیاکرتا تھا۔ باراتیوں کی خاطر مدارات اور شادی کے سارے کام دھام خاندان اور محلے بستی کے سارے لوگ بڑے خلوص اور پیار محبت سے کرتے تھے۔لڑکی جب رخصت ہوتی اور رخصتی کے گیت گائے جاتے تو صرف ماں باپ کی ہی آنکھیں نہیں نم ہوتی تھیں بلکہ اس وقت موجود سارے لوگ رو پڑتے تھے۔شادی کا پورا منظر نامہ خاندانی، سماجی اور انسانی رشتے کے حد سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہونے کا سماں پیش کرتا تھا۔    
    آج بھی غریب اورنادار طبقے کی شادیاں اسی طرح ہو رہی ہیں۔یعنی لڑکی کے ماں باپ صرف اپنی جیب سے شادی کاخرچ نہیں اٹھاتے۔محلے پڑوس کے ذی حیثیت لوگ صدقہ و خیرات کی رقم دان کرتے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے محبت اور اپنائیت کے ساتھ لوگ شادیوں میں مدد کرتے تھے اور سب ایک دوسرے کے لئے کرتے تھے۔ کسی کو مانگنا نہیں پڑتا تھا۔ اب لڑکی کے ماں باپ کو بھکاری بن کر خیرات صدقہ مانگنا پڑتا ہے اورشادی کی ساری دھوم دھام بے غیرت ہونے کا منظر پیش کرتی ہے۔ یہ مسئلہ اتنا سنگین ہو چکا ہے کہ اس کے بغیر شادی ہو گی ہی نہیں۔اس طبقہ کا نوجوان اتنا بے حیا ہو چکا ہے کہ پچاس ہزار یا ایک لاکھ نقد تلک لئے بغیر شادی کرتا ہی نہیں۔حالانکہ اُس کو معلوم ہے کہ اُس کے ساس سسر اتنا روپیہ دینے کی حیثیت نہیں رکھتے۔وہ بھیک مانگ کر اسے پورا کریں گے۔لیکن بے حیائی کا یہ طریقہ ایسا رواج پا چکا ہے کہ اس پر کسی کا ضمیر جاگتا ہی نہیں۔

     مسلمانوں کے اخلاق اتنے بگڑچکے ہے کہ وہ انسان سے زیادہ حیوان بن گئے ہیں۔شروع میں انسان اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے پیسے کماتا تھا، لیکن اب وہ اپنی زندگی کے معیار کو اونچا اٹھانے کے لئے پیسے کمانے لگا۔مادی ترقی کے ساتھ معیار زندگی روز بروز اونچا اور مہنگا ہوتا جارہا ہے۔چنانچہ اس دوڑ میں شامل ہونے کے لئے زیادہ اور پھر بہت زیادہ روپوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔اتنے زیادہ روپے کمانے میں انسان کی صرف اپنی محنت کافی نہیں ہوتی،وہ ایسے ذرائع بھی تلاش کرتاہے، جس سے دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں کے وارے نیارے ہو جائیں۔پہلے لڑکے اور لڑکی کے اچھے چال چلن اور اچھے اخلاق و کردار کی بنیاد پر شادی ہو ا کرتی تھی، لیکن اب لڑکے کی آمدنی اور مالی حالت کی بنیاد پر شادی ہونے کا رواج شروع ہے۔ اسی طرح لڑکے والوں نے بھی ایسے گھروں کی تلاش شروع کی جہاں سے بن مانگے ڈھیر سارا جہیز مل جائے۔شادی کے اس پاکیزہ گنگا جمنی دھارے میں خود غرضی اور مفاد پرستی کی گندگی مل کر اسے غلیظ بنانے لگی۔لڑکی والوں نے ایک خراب طریقہ یہ اپنایا کہ جس گھر میں کماؤ لڑکا ہوتا وہاں بڑھ چڑھ کر جہیز کی پیش کش کرتے ہیں۔ہندو سماج میں تلک یعنی لڑکے کو نقد روپیہ دینے کا رواج تھا۔مسلمانوں کے یہاں ایسا نہیں تھا۔لیکن سودا پٹانے کے لئے بعض لڑکی والوں نے لڑکے کو بھی رشوت کے طور پر بہت کچھ دینے کا لالچ دینا شروع کر دیا۔
    جب ایک لڑکے کی شادی میں لڑکی والوں کی طرف سے دولہا اور دلہن کو ڈھیر سارا ساز و سامان ملا تو فطری طور پر اُس کے ہم پلہ رشتے دار اور دوست لڑکوں کو یہ خواہش ہوئی کہ اُن کی شادی بھی اسی انداز سے ہونی چاہئے۔لڑکے کے ماں باپ کو بھی لالچ نے گھیرا۔اب ہونے یہ لگا کہ لڑکے کی شادی کے لئے اچھی لڑکی کی تلاش کی ضرورت نہیں رہی ایسے گھرانے کی ضرورت پڑنے لگی جوبڑا جہیز اور موٹی نقد رقم دے سکیں۔تنگ دست اور مفلس لڑکیوں کی شادی مسئلہ بن گئی۔خوش حال لڑکی والوں نے بھی عام لڑکوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔وہ بھی ایسے لڑکے کی تلاش کرنے لگے جو خوب کماؤ ہو۔خلاصہ یہ کہ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ شادی کا یہ محبت بھرا پاکیزہ ماحول تجارتی لین دین کی چالاکیوں کی نذر ہو گیا۔
    خوش حال گھرانے کی لڑکیاں جب بہو بن کر گھروں میں آنے لگیں تو اب یہ گھر کی خدمت گار نہیں بلکہ مہمان تھیں۔ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم اتنا سارا جہیز اور ساز و سامان لے کر آئے ہیں، ہماری خوب آؤ بھگت ہونی چاہئے۔لڑکی کے ماں باپ کی بھی یہی خواہش تھی کہ ہماری لڑکی بہت آرام سے رہے۔گھر کے کام کاج میں پسینہ بہانا اور مشقت کرنا خواب و خیال ہو گیا۔لڑکے والے بہو سے وہی روایتی سلوک چاہتے تھے۔ اُنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ گھر میں بہو نہیں لائے ہیں بلکہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی لائے ہیں۔یہ مرغی اُن کو کھانے والا انڈا نہیں دے گی بلکہ اُن سے اپنے نخرے پورے کرائے گی۔شادی کے بعد رشتوں میں تلخیاں پیدا ہونے لگیں۔ شکایتوں اوررنجشوں کا بازار گرم ہوا اوریہ شادی خانہ آبادی کی جگہ شادی خانہ بربادی بن گئی۔
    ہندو سماج میں جہیز اور تلک کی بنیاد پر لڑکیاں زندہ جلائی جانے لگیں۔ انسانیت کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔سرکار نے بڑا سخت قانون بنایا،جہیز کے لین دین پر پابندی لگا دی اور جہیز کے نام پر بہو کے ساتھ بد سلوکی کرنے کو جرم قرار دیا۔ حالانکہ جہیز اور تلک ہندو سماج کے مذہبی امور ہیں۔ ان کے بغیر ہندو سماج میں شادی ہو ہی نہیں سکتی، چنانچہ قانون کے باوجود جہیز اور تلک کی بنیاد پر شادیاں ہوتی رہیں اور ہو رہی ہیں۔بہو کو مارنے یا جلانے کے الزام میں جس جس کا نام آتا اسے گرفتار کر کے جیل بھیج دیاجاتا ہے اور کافی دنوں تک اس کی ضمانت بھی نہیں ہو تی ہے۔لڑکی والوں نے لڑکے والوں کو دھمکی دینا شروع کی کہ ہماری لڑکی کے ساتھ زیادتی کرو گے تو نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ہندو سماج کے ساتھ ساتھ مسلم سماج میں بھی یہ آفت آ گئی۔ مسلم سماج میں لڑکیاں جلائی تونہیں گئیں، لیکن جہیز کا ناجائز مطالبہ کرنے کے الزام میں جھوٹے مقدمے ہونے لگے۔
    خود غرضی اور حد سے زیادہ دولت کی لالچ نے لوگوں کو اپنی زمین اور مکان بیچنے پر آمادہ کیا۔اس کے نتیجے میں آبادیاں ادھر سے ادھر ہو گئیں۔ گاؤں والے شہر میں آنے لگے۔پرانے محلوں میں نئی آبادیاں بسنے لگیں۔اس اتھل پتھل کی وجہ سے انسانوں کے درمیان جو سماجی رشتہ تھا وہ بری طرح ٹوٹنے لگا۔کالونی اور اپارٹمنٹ کلچر بڑھا۔کالونی اور پارٹمنٹ میں رہنے والوں کے درمیان محبت اور خلوص تو دور کی بات ہے وہ ایک دوسرے کو ٹھیک سے پہچانتے تک نہیں ہیں۔شادی کی تقریب کرنا مشکل ہو گیا۔پیسے تو تھے لیکن کام کرنے والے لوگ کہاں سے آئیں۔ہر آدمی کا معیار زندگی اونچا ہو چکا تھا۔مہمانوں کو کھانا کھلانا اور ان کے جھوٹے برتن اٹھانا اس وقت کے لوگوں کی شان کے خلاف تھا۔
    سامان کی پہچان کر کے خریداری کرنا، باورچی خانہ قائم کر کے عمدہ لذیذ کھانا پکوانا، کھانا کھلوانا جیسی مہارت والے لوگ سماج سے ختم ہوتے گئے۔ آبادی بڑھنے اور جائیداد کے بٹوارے کی وجہ سے بڑے بڑے مکانات کی جگہ چھوٹے چھوٹے فلیٹ نے لے لی۔آرام سے رہنے کے لئے ہی جگہ نہیں تھی شادی کے لئے مکانات کہاں سے ملتے۔شادی ہال کا رواج عام ہونے لگا اور اب ساری شادیاں شادی ہال میں ہونے لگیں۔شہر میں بڑے بڑے ہوٹل بھی کھل گئے اور اُنہوں نے بھی اپنے یہاں شادی کرانے کا انتظام کیا۔جن کے پاس زیادہ پیسے تھے وہ ہوٹلوں میں شادیاں کرنے لگے۔ہوٹل کی شادی ضرورت سے زیادہ مہنگی ہوتی ہے۔وہاں ایک آدمی کا ایک پلیٹ کھانا ایک ہزار سے لے کردو ہزار تک میں ملتا ہے۔ہوٹل میں زیادہ لوگوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔اس لئے ہوٹلوں کی شادیوں میں غریب اور دور کے رشتہ داروں اور شناساؤں کو نظر انداز کیا جانے لگا۔
    بظاہر یہ وقت کی ضرورت معلوم ہوتی ہے لیکن در حقیقت یہ اس سماجی اور انسانی رشتے کے بگاڑ کا نتیجہ ہے جو موجودہ انسانی رویے اور روش سے پیدا ہوا ہے۔خلوص،خدمت، ایثار، قربانی،رواداری، وضع داری، ہمدردی اور محبت کی جگہ جھوٹا دکھاوا،اپنے بڑے ہونے کا غرور،تنگ دستوں کو حقیر سمجھنے اور نفرت کرنے کا جذبہ، ضرورت مندوں سے نظریں بچانے کا رجحان سماجی اور انسانی رشتوں کو دیمک بن کر کھائے جا رہا ہے۔زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی ہوس نے انسان کو مشین بنا کر رکھ دیا ہے۔اُس کے جذبات مر چکے ہیں۔اب جذبات کی جگہ فائدے اور نقصان کی ترازو پر رشتوں کو تولا جاتا ہے اور تعلق توڑا اور جوڑا جاتا ہے۔ اس دور کا انسان خود کو بہت عقل مند سمجھتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سب سے بڑا احمق ہے۔اُس نے سونے اور چاندی کے سکے تو جمع کر لئے لیکن خلوص و محبت کی دولت سے محروم ہو گیا۔اُس نے سنگ مرمر کا تاج محل تو بنا لیا لیکن گھر کی رونق اور بابرکت خوش گوار ماحول حاصل نہ کرسکا۔اُس نے ساز و سامان کے سہارے شداد کی جنت تو بنا لی لیکن دل اور دماغ کا سکون اور آسودگی اُسے نہیں ملی۔ہر طرح سے محرومیوں کا شکار اس دور کا انسان اپنے آپ کو کامیاب اور بامراد سمجھتا ہے اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتا ہے۔وہ اتنی چھوٹی سی بات نہیں سمجھتا ہے کہ سماج میں انسان کورہنے اورپروان چڑھنے کے لئے گھر اور خاندان کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب اُس نے اپنا گھر ہی تباہ کر لیا تو سماج میں وہ رہے گا کہاں۔گھر محض روپے پیسے اور مٹی پتھر سے نہیں بنایاجاتا۔ اُس میں محبت کا سیمنٹ، خلوص کا بالو،قربانی کا لوہا اورخدمت کاپتھر ملایا جاتا ہے تب گھر کی وہ چہار دیواری بنتی ہے اور چھت پڑتی ہے، جہاں رہنے والا اپنے کام دھندے سے واپس آ کر سکون اور آرام سے پاؤں پھیلا کر سوتا ہے اور آنے والے خوش گوار کل کے سنہرے خواب دیکھتا ہے۔جس کے گھر میں یہ دولت نہیں ہوتی وہ سب کچھ پاکربھی سب کچھ کھونے والا ہوتا ہے۔موجودہ سماج میں شادی خانہ آبادی نہیں شادی خانہ بربادی ہو رہی ہے اور پور اسماج اس پر مطمئن ہے۔
    مسلمانوں کی شادیاں شریعت کے مطابق سادہ اور آسان ہونی چاہئے تھیں۔لیکن مسلمانوں کی شادیوں میں بھی غیر مسلموں کی طرح ساراتام جھام دکھائی دیتا ہے جو غیر مسلم دنیا میں پایاجاتا ہے۔مسلم سماج میں اصلاح اور سدھار کی تحریک ہمیشہ سے چلتی چلی آئی ہے۔ چنانچہ ایک زمانہ میں لوگوں کو جہیز اور تلک کی مخالفت کا بڑا جوش تھا۔اس کے لئے انجمنیں بنیں جلسے ہوئے، تقریریں ہوئیں اور تحریکیں چلائی گئیں۔ شادی کے طریقے پر اعتراض ہوتا، کھانے پینے،فوٹواور ویڈیو گرافی پر طعنے دیے جاتے۔ لیکن ایک طرف یہ سب کچھ ہوتا رہا اور دوسری طرف شادی کا کارواں اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔
    اصلاح کرنے اور شریعت کی دہائی دینے والوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ شریعت کے مطابق شادی وہی خاندان کرے گا جو خود شریعت کا پابند ہوگا۔جن گھروں میں شریعت کی پابندی ہوتی ہی نہیں ہے وہاں شادی شریعت کے مطابق کیسے ہوگی ؟  مگر لوگوں کا عجب مزاج بن گیا ہے کہ ہرکہی ہوئی بات بغیر سوچے سمجھے دہرانے لگتے ہیں۔نہ اصل بیماری کو سمجھتے ہیں اور نہ اُس کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ موجودہ مسلم معاشرے نے اسلامی شریعت کوتین طلاق دے رکھی ہے۔ طلاق دینے کے بعد تعلق حرام ہوجاتا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کی شادیوں میں سب کچھ پایاجاتا ہے مگر شریعت نہیں پائی جاتی ہے۔صرف عام لوگ نہیں بلکہ علما فضلا اور امام و امیر و سجادہ نشیں حضرات کے گھرانوں کی شادیوں میں بھی وہی سب کچھ دیکھنے کوملتا ہے جو عام لوگوں کی شادیوں میں دکھائی دیتاہے۔ جتنی تعداد میں شادیاں ہو رہی ہیں، اُن سے کچھ کم تعداد میں طلاق بھی ہو رہی ہے۔ کیوں ؟  اس لئے کہ آج کل شادیاں جس انداز اور طور طریقے سے کی جارہی ہیں، اُن کے لحاظ سے یہ عبادت نہیں تجارت ہے۔اور مسلم سماج میں شرکت کی تجارت ہمیشہ سے ناکام ہوتی چلی آئی ہے۔شادی جب عبادت کی جگہ تجارت بن گئی تو اس میں بھی ناکامی مقدر بن گئی۔ کہا جا سکتا ہے کہ آج شادی خانہ آبادی نہیں شادی خانہ بربادی ہو رہی ہے۔اور اس کی وجہ سے خاندان، رشتے داریاں،تعلقات اور سماج برباد ہو رہا ہے۔صارمؔ عظیم آبادی کہتے ہیں:
گھر میں لگا کے آگ تماشہ دکھائیے
اور اپنی زندگی کو جہنم بنائیے
گمراہ بن کے خود کو تو برباد کر چکے
اب نسل نو کو آگ لگا کر جلائیے

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا