English   /   Kannada   /   Nawayathi

مولانا نذر الحفیظ ندوی ازہری ؒایک مثالی استاد، داعی ومربی، ادیب و صحافی اور فکر ندوہ کے سچے ترجمان تھے

share with us

فارغین ندوہ 1998 کی طرف سے منعقدہ تعزیتی جلسے میں متعدد علماء و دانشوران اور احباب و رفقاء کا اظہار خیال

 

            لکھنؤ۰۳ مئی/ حضرت مولانا نذر الحفیظ ندوی ازہری رحمۃ اللہ علیہ کی اچانک رحلت پر فارغین ندوہ 1998 کی جانب سے آن لائن تعزیتی نشست کا انعقاد ہوا، جلسہ کی نظامت مفتی محمد نصراللہ ندوی، استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء نے کی،صدارت کے فرائض گروپ کے جنرل سکریٹری مولانا نجیب الحسن صدیقی ندوی، بانی وناظم مدرسۃالحرم نے انجام دیئے۔ جلسہ کا آغاز مولانا مصدق ہلارے ندوی بھٹکلی کی تلاوت سے ہوا، ناظم جلسہ مفتی محمد نصر اللہ ندوی نے اپنے تمہیدی کلمات میں کہا کہ مولانا نذر الحفیظ ندوی کی زندگی کے کئی اہم پہلو ہیں اور ہر پہلو روشن ہے، وہ ایک عظیم استاد، داعی اسلام، مشفق ومہربان مربی، عربی زبان وادب کے رمز شناس اور بہترین صحافی وقلم کار تھے، وہ ندوی فکر کے علم بردار اور اس کے سچے ترجمان تھے، مولانا علی میاں ؒ کے معتمد خاص تھے، وہ تقوی اور اخلاص وللہیت کی دولت سے مالا مال تھے۔

            فارغین ندوہ 98 گروپ کے مؤقر صدر اور امام عیدگاہ لکھنؤ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے اپنے تأثراتی بیان میں کہا کہ مولانا مرحوم عربی زبان کے اچھے ادیب تھے، عالم اسلام کی صورتحال پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے اور اس کا شاندار تجزیہ بھی کرتے تھے، مولانا علی میاں ؒ نے ان کو اپنا نمائندہ بنا کر عالم عرب میں بھیجا تھا، ان کے سامنے زندگی کا عظیم مقصد تھا۔مولانا فاتح اقبال ندوی، مہتمم مدرسہ چشمہ فیض ململ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ مولانا بہت خاموشی سے اپنا کام کرتے تھے، وہ ہمارے ہم وطن بھی تھے، مدرسہ چشمہ فیض کے وہ سرپرست بھی تھے اور ہر قدم پر مدرسہ کے ذمہ داروں کو مفید مشوروں سے نوازتے تھے۔جمعیت اہلحدیث لکھنؤ کے امیر ڈاکٹرشاہد مبین ندوی نے کہا کہ مولانا ایک کامیاب مدرس تھے، طلبہ کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھے، تربیت میں انکا انداز بہت نرالا تھا، وہ نہایت متواضع اور منکسر المزاج تھے، خشیت الہی کے جذبہ سے وہ سرشار تھے۔ مولانا سراج الہدی ندوی ازہری استاذ دارالعلوم سبیل السلام حیدرآبادنے اپنے تأثرات میں کہا کہ  مولانا پورے عالم میں پھیلی ہوئی تحریکات اور نظریات سے اچھی طرف واقف تھے اور ان کے بارے میں صحیح معلومات بہم پہونچاتے تھے، انکے علم میں بہت گہرائی اور پختگی تھی، انکامطالعہ بہت وسیع تھا۔

             مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے عربی لیکچرار ڈاکٹر آصف لئیق ندوی نے مولانا مرحوم کی شخصیت کے بعض پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم تاریخ انسانی کا سرسری جائزہ لیتے ہیں اور دنیا کے مختلف علوم و فنون مثلاً ریاضیات، طبیعیات، نباتیات، حیوانیات، فلکیات، ارضیات، نفسیات،اسلامیات اور طب وغیرہ کے ماہرین کی زندگیوں کا محاسبہ کرتے ہیں تو ہم اسی کو بہترین انسان، لائق و فائق شخص، افضل مخلوق خدا اور انسانی ہمدرد وخیرخواہ تصور کرتے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کا اعلی مقصد اور ہدف ایسا متعین کیا ہو، جس کے ذریعے انسانیت کی خدمت اور اس کی فلاح و بہبود کا ایسا بہترین کام انجام پاتا ہو، جس سے انسانیت کو صحیح تہذیبی و ثقافتی، علمی و ادبی، اخلاقی و روحانی، ملی و سماجی سیاسی و رفاہی اور معاشرتی و اجتماعی رہنمائی ملتی ہو، جنہوں نے انسانی زندگی کے ہر گوشے میں نہایت پاکیزہ اور دوررس انقلاب کی علمی و ادبی تحقیقی و تصنیفی قیادت کی ہو، جنہوں نے دنیا والوں بالخصوص باطل کے ایوانوں کو اپنی تحریر و تقریر اورفکر و نظر سے للکارا ہو اور اس کے مہیب صورتحال سے آشنا کرایا ہو، اور اسلام کا لازوال پیغام، قرآن و احادیث کا سرخروئی اور سرفرازی والا مژدہ سنایا ہو۔ مولانا مرحوم جہاں ایک اچھے استاد تھے وہیں وہ انسانیت کے خیرخواہ اور اللہ والے تھے۔ انکی زندگی اچھے اوصاف سے متصف تھی، علم و ادب کی طویل خدمات اور طالبان علوم نبوت کی بڑی جماعت کی تربیت کرنے اور انسانی رہنمائی و خیر خواہی کرنے میں وہ بڑے بڑے علماء و مفکرین کے مساوی تھے، انکی جملہ خدمات کو اندرون و بیرون ملک ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔

             دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاذ مولانا عبدالرشید ندوی راجستھانی نے اپنے تأثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ مولانا کی شخصیت ہر لحاظ سے مثالی تھی اور ہر اعتبار سے آئیڈیل تھی، طلب علم کا ان کے اندر ایک جنون تھا، کثرت مطالعہ کے وہ شوقین تھے، خردوں کے ساتھ احترام اور محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ڈاکٹر شاکر فرخ ندوی ازہری مہتمم المعھد الاسلامی مانک مؤ، سہارنپور نے کہا کہ مولانا سے میری ملاقات مصر میں ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ قاہرہ ریڈیو اسٹیشن میں تنظیمات اور تحریکات کے بارے میں بہت سی کتابیں ہیں، آپ ان کا تنقیدی جائزہ لیں، ایک موقع پر فرمایا کہ علم سے ہمیشہ رشتہ قائم رکھئے۔ مولانا عمران ربانی ندوی مہتمم جامعۃ الإمام مجدد الف ثانی سونی پت نے مولانا کو اعلی درجہ پر فائز انسان قرار دیا جو اخلاق کریمانہ اور انداز دلبرانہ کی عمدہ مثال بھی تھے۔ جلسہ میں مولانا مرحوم کے فرزند ارجمند مولانا اعظم شرقی ندوی بھی شریک ہوئے،انہوں نے کہا کہ والد محترم کا نمایاں وصف علمی شغف تھا، ہمہ وقت وہ مطالعہ میں مصروف رہتے تھے،اور موضوع سے متعلق مواد کی تلاش میں رہتے تھے، کبھی ڈانٹتے اور جھڑکتے نہیں تھے، خاموشی سے ایسی تربیت کرتے کہ اس کا جواب نہیں تھا۔مولانا مرحوم کے داماد مولانا عبدالرحمن ندوی رائے بریلوی نے کہا کہ مولانا انتقال سے قبل مکمل تیاری کیساتھ اللہ کے یہاں گئے، انکو کوئی بڑا مرض نہیں تھا، بلکہ انکوایک معمولی مرض یعنی قبض کی شکایت تھی اور انتقال سے قبل سانس کاپلس ریٹ بہت کم ہو گیا تھا، جاتے جاتے بھی اللہ کا نام ان کی زبان پرتھا۔مولانا طارق شفیق ندوی لکچرر میاں صاحب انٹر کالج گورکھپور نے اپنے والد مرحوم مولانا شفیق الرحمن ندویؒ کے ساتھ مولانا نذرالحفیظ ندویؒ کی رفاقت اور ذہنی ہم آہنگی کا تذکرہ کیا اور کہا کہ دونوں میں بہت سی خصوصیات مشترک تھیں۔ مولانا جمال احمد ندوی صاحب رکن مجلس منتظمہ ندوۃ العلماء نے پروگرام کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کیا اور اس کو تلامذہ کی طرف سے استاذ کو بہترین خراج عقیدت قرار دیا، انہوں نے ابناء ندوہ سے ہر ممکن ندوۃ العلماء کا تعاون کرنے کی گزارش کی۔دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاذ مولانا عبدالرحیم ندوی نے کہا کہ مولانا مرحوم کی اہم صفات جو ہمارے لئے نمونہ اور قابل تقلید ہیں وہ یہ کہ (1) بڑوں کا اعتماد حاصل کرنا، انکی خواہش، اور امیدوں پر کھرا اترنا، ادارہ کی خاطر بے مثال قربانی اور اس کا جذبہ (2)خورد نوازی، انکو آگے بڑھانے کی کوشش کرنااور انکی ہمت افزائی کرنا، (3) اپنی دھن میں مگن، اور فرائض کی ادائیگی کی سچی لگن موجود تھی۔بانی گروپ جناب مولانا وقار الدین لطیفی ندوی نے بھی اپنے پیام کے ذریعے تأثر پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا نذرالحفیظ ندوی صاحب ایک نیک انسان تھے،علم و فضل کے اعتبار سے بہت ممتاز تھے اور وہ مجھے بہت عزیز سمجھتے تھے، میری عملی زندگی میں یہ تعلق مزیدگہرا ہوتاچلاگیا۔اسی طرح جب میری پی ایچ ڈی کا مقالہ کتابی شکل میں منظرعام پرآیا تو کہا کہ تم نے بڑا اچھا کام کیا، پورے ندویوں کی طرف سے تم نے کفارہ ادا کیا، وہ ہم سبھوں کی رہنمائی بھی کرتے تھے، بڑے صاف ستھرے آدمی تھے بلکہ وہ بے ضرر آدمی تھے۔

            اخیر میں صدر جلسہ مولانا نجیب الحسن ندوی نے اپنے اختتامی کلمات وتأثرات میں کہا کہ مولانا نذرالحفیظ صاحب علیہ الرحمہ نے نہایت پاکیزہ زندگی گزاری،وہ دنیا کی چمک دمک سے ہمیشہ دور رہے،وہ مادر علمی کے وفادار سپوت تھے، وہ ندوۃ العلماء کے مخلص خادم اور سچے ترجمان تھے،مولانا کی ایک خصوصیت یہ تھی وہ اپنے شاگردوں اور چھوٹوں کی دل کھول کر ہمت افزائی کرتے تھے اور ان اپنے چھوٹوں کا ہر ممکن تعاون کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ صدر جلسہ نے مزید کہا کہ مولانا مرحوم کے نقش قدم پر چل کر اپنے مادر علمی کا ہر طرح خیال رکھنا اوراس کادفاع کرنا ہم سب ابناء ندوہ کی ذمہ داری ہے۔صدر جلسہ کی پر سوز دعاپر مجلس کااختتام ہوا۔ جلسہ میں بڑی تعداد میں مولانا مرحوم کے تلامذہ،متعلقین اور محبین نے شرکت کی۔جن میں مولانا یعقوب ندوی، عامر ندوی، عتیق احمد ندوی، آفاق احمد ندوی، جمال ندوی، عطاء اللہ ندوی، سالم برجیس ندوی، عبد الرحمن واصف اوراندرون وبیر ون ملک سے بہت سے احباب قابل ذکر ہیں۔

رپورٹ: ڈاکٹرآصف لئیق ندوی،عربی لیکچرار، مانو، حیدرآباد رآباد۔مدیر رابطہ خیر امت،انڈیا

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا