English   /   Kannada   /   Nawayathi

لاکھوں انسانی جانوں کے محافظ ڈاکٹر یوسف حمیدکو نوبل پرائز کیوں نہیں؟

share with us

انھوں نے لاکھوں انسانی جانوں کو بچایا ہے جس کے لئے وہ بجا طور پر نوبل پرائز کے مستحق ہیں اور بھارت رتن کے حقدار ہیں مگر اس لحاظ سے ان کا کہیں بھی چرچا نہیں ہے کیونکہ وہ نہ تو کرکٹ پلیئر ہیں اور نہ ہی فلمی ہستی! انھوں نے تو بس انعام و اکرام کی پروا کئے بغیر لاکھوں زندگیوں کو بچایا ہے۔ بھارت رتن سچن تندولکر نے اپنی پوری زندگی میں جتنے رن نہیں بنائے ہونگے اتنے لوگوں کی جانوں کو بچانے کا کام کیا ہے ڈاکٹر یوسف حمید نے اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔جس ملک میں فضول کام کرنے والوں کو انعام سے نوازا جاتا ہے وہاں انسانیت کے ایک مسیحا کے تعلق سے بے خبری حیرت انگیز اور قابل افسوس ہے۔ 
ڈاکٹر یوسف کا انسانیت کے تئیں عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے زندگی بخش دوائیں کامیابی کے ساتھ بنائیں اور انتہائی کم قیمت پر ضرورت مندوں کو فراہم کیں۔ جس وقت ساری دنیا میں ایچ آئی وی ایڈزاور کینسر جیسے موذی امراض سے مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی ‘دواؤں کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی تھیں اورتیسری دنیا کے غریب ممالک کے مریضوں کی پہنچ سے باہر تھیں‘ ایسے وقت میں ڈاکٹر یوسف ایک مسیحا کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے بڑی تعداد میں دوائیں تیار کرائیں اور افریقہ وایشیاء کے غریب مریضوں تک کوڑیوں کے دام پہنچائیں۔ ان کے اس کارنامے سے لاکھوں زندگیاں محفوظ ہوئیں اور بے شمار دم توڑتے انسانوں کو نئی زندگی ملی۔ ظاہر ہے یہ خدمات اتنی عظیم ہیں کہ اس کے بدلے نوبل پرائز بھی معمولی ہے۔ڈاکٹر یوسف خود بتاتے ہیں کہ جس وقت Ciplaنے ایڈزکی دوائیں تیار کرنی شروع کیں‘ اس وقت غربت اور دواؤں کی مہنگی قیمت کے سبب غریب افریقی ملکوں کے عوام کے لئے دواؤں تک پہنچ مشکل تھی۔ ایک مریض کوسالانہ تقریباً 300امریکی ڈالر دواؤں کی خریداری پرخرچ کرنے پڑتے تھے‘ جو یقیناًایک غریب آدمی کیلئے ناممکن سی بات تھی۔ Ciplaنے ایڈزمخالف دوائیں AZT, d4Tاور 3TLبنائیں اوران کی قیمت اتنی کم رکھی کہ غریب لوگ بہ آسانی خرید سکیں۔ان دواؤں کی خریداری کے لئے ایک مریض کو اب صرف 50سینٹ یومیہ خرچ کرنے پڑتے تھے۔ ظاہر ہے اب ڈاکٹر یوسف کی کاوش کے سبب دواؤں کی حصولیابی ہرمریض کے لئے آسان ہوگئی تھی۔ اس کارنامہ کے لئے اگر ایک طرف انہیں عالمی سطح پر سراہا گیا‘ تو دوسری طرف وہ دواساز کمپنیاں جو عوام کو لوٹ رہی تھیں‘ انہوں نے راہ میں روڑے بھی اٹکائے‘ مگر ڈاکٹر یوسف عزم ویقین کے پیکر بنے رہے اور آخر کار انہیں کامیابی ملی۔ آج دنیا میں ایڈز مخالف مہم میں ان کی حیثیت ایک ستون کی ہے۔ پہلے جس قدر مریضوں کی موت اس لاعلاج مرض کے سبب ہوتی تھی‘ اب نہیں ہوتی۔
25جولائی 1936کو جنم لینے والے محمدیوسف ایک عالمی شہرت یافتہ سائنسداں ہیں۔ وہ دواساز کمپنی Ciplaکے چیئرمین ہیں‘ جس کی بنیاد ان کی پیدائش سے صرف ایک سال قبل ان کے والد ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید نے رکھی تھی۔ ڈاکٹر یوسف نے Organic chemisteryمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور Cipla میں ریسرچ آفیسر کے طور پر کام شروع کیا۔ ممبئی کومرکز بناکرکام کرنے والی اس کمپنی کے ڈائریکٹر وہ 1976میں بنے اور 1989میں چیئر مین کے عہدے پر سرفرازہوئے۔ وہ ہندوستان کی دواساز ی کے میدان میں ایک سحر انگیز شخصیت کے طور پرجانے جاتے ہیں۔ وہ اپنے شعبے کے ایک ایسے ہیروہیں جس کا کارمانہ کسی بھی سپر مین سے بڑا ہے۔ ان کا یہ کارنامہ ناقابل فراموش ہے کہ انہوں نے مغربی دواساز کمپنیوں کی مونوپولی کوتوڑا اورایڈز وکینسر کی ایسی دوائیں تیار کیں‘ جنہیں کم سے کم قیمت پر عوام تک پہنچایا جاسکتا تھا۔ حالانکہ اس کے لئے ان پر Drug Pirateہونے کا الزام بھی لگایا گیا‘ مگر انہوں نے پیچھے قدم نہیں ہٹایا۔ انہوں نے لیور اورکڈنی کے کینسر کی دوائیں عوام کو 75فیصد کم قیمت پر فراہم کیں۔
ڈاکٹر یوسف ایچ آئی وی ایڈزکے تعلق سے بیداری کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح سے ہم اپنا ڈرائیونگ لائسنس اورپاسپورٹ بنانا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں‘ اسی طرح ایڈزکی جانچ کرنا بھی ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھناچاہیے۔ ان کا کہناہے کہ صرف بیداری سے ہی ایڈز کوپھیلنے سے روکا جاسکتا ہے۔ آخر ایڈز سے اتنی زیادہ اموات کیوں ہورہی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ صرف اس لئے کہ لوگ اس کی جانچ نہیں کرتے۔ اس کا پتہ آخری اسٹیج میں چلتاہے‘تب یہ لاعلاج ہوچکا ہوتاہے۔ انہوں نے کہا کہ ماریشیس میں داخلے کے وقت ہر شخص کی ملیریا جانچ کی جاتی ہے۔ میں نے وہاں کے نائب وزیر اعظم سے کہا کہ اسی بلڈسیمپل سے ایڈز کی جانچ کی جائے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ میرے ایک دوست کی موت ایڈز کے سبب ہوگئی ‘مگر جانچ نہ ہونے کے سبب یہ پہلے پتہ نہیں چل پایا کہ وہ ایڈز کا شکارہے۔ ڈاکٹر یوسف نے بتایا کہ Cipla عوام اور ڈاکٹروں میں ایڈز کے تعلق سے بیداری لانے کے لئے کام کررہاہے‘ اس کے لئے ڈاکٹروں اور نرسوں کی تربیت کی جارہی ہے۔ مختلف مقامات پرورکشاپ اورکیمپوں کا انعقاد کیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر یوسف خواجہ حمید کاخاندانی پس منظر بھی بڑا شاندارہے۔ ان کے والد خواجہ عبدالحمید بھی ایک سائنسداں تھے اور انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد ایم اے اورپی ایچ ڈی کی ڈگری برلن یونیورسٹی سے لی تھی۔ وہ زبردست قسم کے نیشنلسٹ تھے اور انہوں نے دوران تعلیم کرائسٹ کالج ، کیمبرج میں ایک یہودی سوشلسٹ لڑکی سے ملاقات کی تھی‘ پھر اس سے شادی کرلی۔ یوسف خواجہ حمید اسی جوڑے کی اولاد ہیں۔ خواجہ عبدالحمید جو کہ Cipla کے بانی ہیں‘جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ابتدائی بانیوں میں بھی ہیں۔ وہ چونکہ سابق صدرجمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے قریبی دوستوں میں تھے‘ لہٰذا جب جامعہ کی بنیاد علی گڑھ میں پڑی‘ تو خواجہ صاحب نے اس میں اہم کردار نبھایا۔خواجہ عبدالحمید کے والد خواجہ عبدالعلی سرسید احمد خاں کے ماموں زاد بھائی تھے۔ اس لحاظ سے ڈاکٹریوسف حمید سرسید احمد خاں کے بھی رشتہ دار ہوئے۔
خواجہ عبدالحمید کو گاندھی جی سے ڈاکٹر ذاکر حسین نے ملوایا تھا۔ خواجہ صاحب نے آزادی کے مجاہدین کی بھرپور مالی معاونت کی تھی۔ یہاں تک کہ جب 1939میں گاندھی جی نے انہیں برٹش آرمی کی مدد کے لئے کہا ‘تو انہوں نے جی کھول کر مدد کی۔ بات یہ تھی کہ برٹش گورنمنٹ نے وعدہ کیاتھا کہ اگرہندوستان کے لوگ جنگ میں اس کی مدد کریں‘ تو جنگ کے بعد ہندوستان کو آزاد کیا جاسکتاہے۔ لہٰذا گاندھی جی نے خواجہ عبدالحمید سے کہا کہ وہ فوج کی صحت کے تعلق سے ضرورتیں پوری کریں۔ خواجہ صاحب نے ان کی بات رکھی اور حتی المقدور معاونت کی۔ واضح ہو کہ جب خواجہ صاحب نے گاندھی جی سے ملاقات کی‘ اس وقت یوسف صاحب کی عمر محض 3برس تھی۔ وہ خواجہ صاحب کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا